مشرقِ وسطیٰ میں کیا ہونے جا رہا ہے، اب اس حوالے سے تصویر ابھرنے لگ گئی ہے۔ امریکی سامراج کیا چاہتا ہے، جذبات میں ڈوبے مشرقِ وسطیٰ اور ہمارے خطے کے اکثر لوگ اس کا اس لیے ادراک نہیں رکھتے کہ اُنہیں امریکی سامراج کے عالمی جنگی ایجنڈے کی سمجھ ہی نہیں۔ اس کا آغاز 1979ء میں افغانستان میں نام نہاد جہاد سے کیا گیا، جوکہ حقیقت میں امریکی انٹیلی جینس (سی آئی اے) کا دنیا میں سب سے بڑا Covert Operation تھا اور ہمارے حکمرانوں نے اسے افغان جہاد قرار دے دیا تھا۔ امریکی پالیسی ساز یہ راز پا گئے ہیں کہ مسلمان ممالک کو اُن کی ہی آگ میں دھکیل دو۔ اب ایسے مزید الائو تیار کرنے میں امریکی پالیسی ساز بنیادی کردار ادا کررہے ہیں کہ مسلمان ممالک اور ان میں بسنے والے لوگ آپسی تنازعات میں جنگیںکریں، اسلحہ عالمی طاقتوں کا فروخت ہوگا، برباد مسلمان ممالک اور ہلاک ان مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان ہوں گے۔ ذرا غور کریں، اس حکمت عملی میں وہ کس قدر کامیاب ہوئے۔ 2003ء تک ترکی خطوں میں مداخلت سے دہائیوں سے گریزاں تھا، آج وہ پُرامن ترکی خطے کے ہر تنازع میں شامل ہونے میں پیش پیش ہے۔ سعودی عرب قطر تنازع میں ترک پارلیمنٹ نے قطر میں اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ کردیا ہے جبکہ 2003ء میں ترک پارلیمنٹ نے امریکہ کی اربوں ڈالرز کی اس آفر کو مسترد کردیا کہ امریکی افواج کو عراق میں داخلے کا صرف راستہ دیا جائے۔ وہ ترکی اور تھا، یہ ترکی اور ہے۔ وہ ایک سوشل ڈیموکریٹک ترکی تھا۔ اب تو ترکی نے قطر میں اپنا فوجی اڈا بھی قائم کرلیا جو 2014ء میں ایک معاہدے کے تحت قائم کیا گیا۔
میں ایک عرصے سے ان موضوعات پر لکھ رہا ہوں کہ مسلم ممالک کو باہم لڑانے اور مسلم ریاستوں کے اندر فرقہ وارانہ تصادم اور مسلح گروپس کا وجود حتمی طور پر سراسر امریکی سامراج کو مضبوط کررہا ہے۔ یہ ایک جذباتی اور سطحی تجزیہ ہے کہ’’ افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ ‘‘ ذرا اس پر غور کریں کہ اس جہاد کے خاتمے کے بعد بربادیوں نے کیسے مستقل ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ مسلمان پچھلی صدی کے آغاز سے اپنے اپنے ملک میں آگے بڑھنے کے لیے بے چین تھے ۔ پچھلی صدی میں جنم لینے والی یہ تمنائیں اور خواب سامراج اور اس کے گماشتوں کے بَل پر خاک ہوئے۔ پاکستان، انڈونیشیا، حجاز، فلسطین، افغانستان، اور آج دیکھیں، لیبیا، عراق، شام، یمن اور اب ایک بڑا جنگی تھیٹر تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان بحیثیت ریاست کیا کردار ادا کرے گا، اس کا فیصلہ جلد سامنے آ جانا چاہیے۔ لیکن پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ شاباش کہ اس کا سب سے زیادہ زیرک اور سنجیدہ طرزِعمل سامنے آیا ہے۔ آفتاب شیرپائو کی قراردار، شیریں مزاری، محمود خان اچکزئی، خورشید شاہ، شیخ صلاح الدین سمیت تمام منتخب اراکین قومی اسمبلی نے مسلم دنیا میں سب سے زیادہ زیرک اور مسلمان دوست موقف اپنایا۔ شاباش، شاباش پاکستان کی قومی اسمبلی! اسے کہتے ہیں جمہوریت۔ ذرا ان تقاریر کا مقابلہ کریں، اس لیبیا کے موقف سے جو کرنل قذافی کے بعد امریکی سامراج نے اپنے گہرے منصوبے کے بعد ایک نیا لیبیا بنایا ہے۔ ذرا ترکی کا موقف دیکھیں، لگتا ہے ترک ریاست کو بڑی بے دردی سے جنگوں میں دھکیلنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ شام، عراق، لیبیا، مصر، یمن اور اب قطر سعودی عرب تنازع۔ ترکی کس آگ سے کھیل رہا ہے۔ پانی کے بلبلوں پر تجزیہ کرنے والے اور چرب زبان ہمارے وطن عزیز کے نام نہاد تجزیہ نگار اسے کسی ’’مقدس جنگ‘‘ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ وہی کرنا چاہیے جو اس کی منتخب قومی اسمبلی نے دو روز قبل کیا ہے۔ متفقہ قراردار کے ذریعے۔ یہ پاکستان کا صرف موقف ہی نہیں، اس پر ہر طرح سے ریاستِ پاکستان کو عمل کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ شان دار موقف دنیا کی کسی مسلم ریاست سے نہیں آیا۔ اس کا کریڈٹ اس پارلیمنٹ اور اس پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام کو جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام حکومتی اور ریاستی اداروں کو اپنے ملک اور مسلم ممالک کی بقا کے لیے اس متفقہ قراردار کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ پاکستان ایک Potential State ہے اور پاکستان کے عوام مسلم دنیا میں بسنے والے دیگر عوام سے اس حوالے سے کہیں آگے نکل گئے کہ انہوں نے ایسے لوگ منتخب کیے ہیں جو اس جنگ، بربادی، سامراجی ایجنڈے اور مسلمان ممالک کی تباہی کے منصوبے کا ادراک رکھتے ہیں۔ قومیں معاشی ترقی سے ہی نہیں،سیاسی وفکری ترقی سے زندہ رہتی ہیں۔ ایک غیرجانب داراور ترک دوست ہونے کے ناتے میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ آج ہماری پارلیمنٹ ترک پارلیمنٹ سے آگے نکل گئی ہے۔ ترک پارلیمنٹ جنگ کے عالمی منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے اور پاکستانی پارلیمنٹ خطے کو عظیم بربادیوں سے بچانے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہے۔
مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کہہ رہا ہے، مجھے غرض یہ ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ آفتاب شیرپائو سمیت پارلیمنٹ کے تمام لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جو لوگ نئے امریکی صدر ٹرمپ کو ایک مسخرا اور یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ وہ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ سمیت دیگر ممالک سے تنازعات سے علیحدہ کرلے گا، انہیں اب جان لینا چاہیے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔ سعودی قطر تنازع ایک طرف اس عرب خطے کو ایک اور میدانِ جنگ بنانے کا گہرا سامراجی منصوبہ ہے، دوسری طرف اس کا ایک شکار پاکستان بھی ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ممالک سے اتنا دور کردیا جائے کہ وہ مسائل میں الجھ کر رہ جائے۔ اس تنازع میںایران کو بڑے عیارانہ انداز میں داخل ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے اور ایک ایسا الائو بھڑکایا جا رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا مسلمان فرقوں میں بٹ جائیں۔ چند ماہ قبل سعودی عرب نے پاکستانی فضائیہ سے تین ہزار جونیئر افسران منگوانے کا معاہدہ کیا اور اس میں کہا کہ اُن میں کوئی شیعہ نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی فضائیہ نے اس گھنائونی خواہش کو مسترد کردیا۔ پاکستان کو حجاز کے حکمرانوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ حجازی حکمرانوں نے اسلامی دنیا کو ایک سو سال میں کتنامضبوط کیا ہے، جواب مشکل نہیں۔ اب مسلم ممالک میں پاکستان ہی ایک ایسی ریاست ہے کہ وہ آگے بڑھے، پاکستان کو سفارتی اور سیاسی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ خطے میں امن کے لیے اور جنگوں سے دور رکھنے کے لیے۔ افسوس ترک ریاست اب اس طرح کردار ادا نہیں کررہی جو وہ آج سے چودہ سال قبل کررہی تھی۔ لیکن میں ابھی بھی امید رکھتا ہوں کہ ترک عوام اپنی ریاست کے اس کردار کو واپس لانے میں کامیاب ہوں گے۔ وگرنہ مستقبل کے اس امریکی سامراجی جنگی ایجنڈے کا سب سے بڑا نقصان ترکی کو ہی ہوگا۔اس کے پڑوس میں تین مسلم ریاستوں کی راکھ بکھری پڑی ہے، عراق، لیبیا اور شام۔ اب اس کے شعلے ترک ریاست کو چھو رہے ہیں۔ اور افسوس ترک پارلیمنٹ اپنا جنگی دائرہ بڑھا رہی ہے۔ جنگوں کو وسعت دینے والے مسلمان حکمران کس طرح مسلمانوں کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟ بڑھ چڑھ کر جو اس نئے سامراجی جنگی منصوبے میں اپنا کردار ڈھونڈ رہے ہیں، اُن کی حقیقت پاکستان کے ایک فوجی حکمران جنرل ضیا جیسی ہے۔ وہ افغانستان میں بڑھ چڑھ کر اسلامی دنیا کی کامیابیاں تلاش کررہا تھا جبکہ حقیقت صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی۔ علامہ اقبالؒ نے جمہوریت کو اجتہاد قرار دیا تھا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے آج فکر ِ اقبالؒ کے اس تصور کو حقیقت میں بدل ڈالا ہے۔ پاکستان کا اس گہرے سامراجی ایجنڈے کے مقابلے میں وہ کردار ہونا چاہیے، جو پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام راستے جنگ اور تباہی کے ہیں۔ان سامراجی جنگوں سے ’’مقدس جنگوں‘‘ کے خواب دکھلانے والے بازی گر، چرب زبان تجزیہ نگار سراسر سامراجی ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ ایسے جذباتی تجزیے اور تجزیہ نگار مقبول تو ہوسکتے ہیں مگر مسلمانوں کے ہمدرد نہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اس وقت اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ہمدرد ثابت ہوئی ہے اور اس نے اپنا تدبر بھی دکھلایا ہے۔ پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی سب سے بڑی تجزیہ نگار ثابت ہوئی اور ساتھ ہی رہبر بھی۔ عوام کے اجتماعی شعور سے بڑا کسی فرد کا تصور، خیال یا تجزیہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے پاکستان کے عوام کی آواز کو بلند کیا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اور ریاست کو ہر سطح پر اس کو Follow کرنا ہوگا۔ وگرنہ بربادیوں کے سامان اکٹھے ہوچکے ہیں۔