• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
خودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجمخودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجمخودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجمخودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجم
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

خودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجم

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • خودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجم
پاکستان قومی اسمبلی، مسلم دنیا میں سب سے آگے — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
جون 16, 2017
عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کی توانا فکر — تحریر: وقاص خان
جون 16, 2017
Show all

خودساختہ مہنگائی — تحریر: ایم بی انجم

سیف الدین سیف نے کیا خوب کہا تھا کہ    ؎
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
واقعی بات کہنے یا لکھنے کا ڈھنگ ہی ایک کو دوسرے پر ممتاز کرتا ہے۔ کچھ لوگ مختصر انداز میں اتنی بڑی بات کر جاتے ہیں کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے والا محاورہ یاد آجاتا ہے۔ ایسی ہی ایک بات آج میرے کالم کا موضوع ہے اور وہ بات کسی ذہین اور حساس شخص نے یوں کہی ہے ’’اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے ایک عیسائی مزدور نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھلی لوک! مسلمانوں کا یہ مقدس مہینہ گزر جانے دے، چیزیں سستی ہوجائیں گی۔ پھر آپ کو خریداری کروا دوں گا‘‘۔ واہ! اِسے کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اہل ایمان ہی پر نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں پر کیا جانے والا وہ طنز ہے جس کی چْبھن صرف اہلِ دل ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم تو سبھی مسلمان کرتے ہیں مگر ’’ہم نہ بدلے ہیں، نہ بدلیں گے قسم کھاتے ہیں‘‘ کی مجسم تفسیر بنے رہتے ہیں۔ اِس سے متضاد ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلموں کے تہواروں ازقسم کرسمس، چائینز نیو ایئر اور دیوالی وغیرہ پر ’’کافر ممالک‘‘ میں اشیائے صرف سستی کردی جاتی ہیں تاکہ غریب اور سفید پوش لوگ بھی متعلقہ تہواروں کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہوسکیں۔ یورپ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں کرسمس سے دو چار ہفتے قبل گرینڈ سیلز لگ جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہاں پر مقیم مسلم ممالک کے باشندے بھی اِس رعایت سے استفادہ کرنے کے لیے دسمبر کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس اسلامی ملکوں خصوصاً اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مقدس ترین اسلامی مہینے رمضان کی آمد سے کافی دیر قبل ہی تاجر حضرات ذخیرہ اندوزی میں جْت جاتے ہیں تاکہ اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرکے حسبِ منشا منافع کما سکیں۔ یوں آغاز رمضان کے ساتھ ہی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ اشیائے خورونوش کے مہنگے ہونے سے روزے داروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور کپڑوں اور جوتوں وغیرہ کی مہنگائی عید الفطر کا مزہ کرکرا کردیتی ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت چونکہ پہلے ہی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہے اِس لیے عید الفطر جیسے تہوار پر اکثر ایسی جانکاہ قسم کی خبریں اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کی سکت نہ ہونے کے باعث باپ نے خودکشی کرلی۔ مسلمانانِ عالم کا رمضان شریف کے ساتھ یہ ’’حْسنِ سلوک‘‘ ہمارے لیے یوں بھی باعثِ شرم ہے کہ اِس سے فلسفہ صوم کی مکمل نفی ہوتی ہے۔ روزوں کا بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ جب سحری سے افطاری تک بھوک اور پیاس برداشت کریں گے تو اْنہیں اْن لوگوں کی تکالیف کا احساس ہوگا جنہیں مفلوک الحال ہونے کے باعث اشیائے خورونوش حسبِ ضرورت میسر نہیں ہوتیں۔ ماہ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور زیادہ سے زیادہ سخاوت اور بخششیں بھی غربا کے مسائل کم کرنے کی جانب ایک اسلامی اقدام ہے۔ یہاں تک کہ نمازِ عید سے قبل فطرانہ کی رقم کی ادائیگی بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لگتا ہے کہ رواں ماہ رمضان کے دوران وطنِ عزیز پاکستان میں مہنگائی کا طوفان کچھ زیادہ ہی دھول اْڑا رہا ہے جو سوشل میڈیا پر پھل فروشوں کے بائیکاٹ پر عوام کا مثبت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم اِس مسئلے پر بھی ہم اپنی روایتی خاص یعنی تقسیم اور تفاوت کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ بائیکاٹ کی اِن اپیلوں کے حق میں ہیں جبکہ کچھ کو پھل بیچنے والوں سے اِس لیے ہمدردی ہے کہ اْنہیں منڈیوں سے مال مہنگا ملتا ہوگا اور پھر اْنہوں نے بھی تو اپنے اہل خانہ کے لیے عید کی خوشیوں کا اہتمام کرنا ہے۔ اِس مہنگائی کا ذمہ دار ذخیرہ مافیا ہے، ہول سیلرز ہیں یا کہ پرچون فروش، بہرحال یہ ایک افسوسناک امر ہے۔ خصوصاً اِس لیے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانوں کے درمیان اخوت و مساوات پیدا کر کے اْنہیں آسانیاں بہم پہنچانا اِس کے بنیادی اصولوں میں سے ہے مگر افسوس کہ دورِ حاضر کا مسلمان حقوق اللہ کی ادائیگی کیلئے تو کوشاں رہتا ہے مگر حقوق العباد کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتا اور یوں غیر مسلموں کو ہم پر طنز و تشنیع کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔ المختصر ماہِ رمضان میں خود ساختہ مہنگائی عالمِ اسلام کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے جس کا تدارک کرنا فرداً فرداً اور بحیثیت مجموعی ہم سب پر فرض ہے۔ کسی ستم ظریف نے اِس مسئلے کا یہ کہہ کر کیا خوب حل تجویز کیا ہے کہ ’’صارفین کو چاہیے کہ وہ پھل فروشوں کی بجائے ضمیر فروشوں کا بائیکاٹ کریں‘‘۔

مناظر: 199
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ