• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
سمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزادسمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزادسمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزادسمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزاد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

سمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزاد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزاد
کل کا انتظار نہ کیجیے — تحریر: قاسم علی شاہ
جون 17, 2017
چین کا دیہی غربت کے خاتمے کا ماڈل — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
جون 19, 2017
Show all

سمندر پار پاکستانیوں کے لیے — تحریر: کاشف شہزاد

فکر معاش کی خاطر ملک بد ر ہو کر کسی بھی مسلم یا غیر مسلم ملک میں زندگی گزارنا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔ بندہ یہ نہیں کر سکتا ۔ میں نے بڑے بندے دیکھے ہیں جو صرف اس وجہ سے اپنے خاندان کو ساتھ نہیں لے کر جاتے کہ وہاں کا ماحول (امریکا، یورپ، انگلینڈ) ٹھیک نہیں ہے اور تعلیم کے مسایل بھی ہیں (مڈل ایسٹ)۔ وہ لوگ ساری زندگی پیسہ کمانے میں لگا دیتے ہیں اور جب واپسی کا رخ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کے خاندان کے ساتھ تو ایک ہی کنکشن رہ گیا تھا اور وہ پیسہ تھا ۔ میں داد دیتا ہوں ان حضرات کو جو اپنے خاندانوں کے ساتھ باہر زندگی گزارتے ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش بھی اپنے کلچر کے مطابق کرتے ہیں ۔ میں نے کئی ایسی فیملیز دیکھی ہیں جو آج بھی انگلینڈ اور یورپ کے ملکوں میں رہنے کے باوجود اپنا اصل نہیں بھولے اور ان کی اولاد آج بھی اتنی ہی فرمانبردار ہے جتنی وہ پاکستان میں ہوتے ہوے ہوتی ہے ۔ بلکہ اگر میں یوں کہوں کے بعض فیملیز ایسی ہیں جو پاکسان کے مسلمانو ں سے بھی زیادہ رکھ رکھاؤ اور اصولوں والی ہیں ۔ گزشتہ دنوں مجھے والد صاحب کے ایک دوست جو کہ عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم ہیں؛ کی شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا ۔ میں بہت حیران ہوا کے انہوں نے مسجد میں نکاح کیا اور شادی پر کوئی شادیانہ نہ بجا بلکہ انہوں نے ڈھول باجے کی بجاے اللہ اور اس کے حبیب کے ذکر کو ترجیح دی ۔ وہ انگلینڈ میں جیسے بھی رہتے ہوں لیکن شادی پر انہوں نے جس سوچ کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش تھا ۔

میں نے ایسی فیملیز کا بھی مشاہدہ کیا ہے جب وہ پاکستان آتے ہیں تو خوب دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ اتنا پیسہ شاید انہوں نے پچھلے دو سال میں خرچ نہیں کیا ہوتا ۔ آتے ہی گاڑی کرائے پر لی اور کھد ر کے کپڑے سلوائے مایا لگوائی اور ادھر ادھر گھوم کر گھر واپس آ گئے ۔ میرا بیان کرنے کا قطعا یہ مقصد نہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے ہاں البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس ٹھاٹھ باٹھ کا نتیجے میں جو بے چینی ارد گرد کے لوگوں (خاص کر نوجوانوں میں) میں پھیلتی ہے وہ انھیں مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو تنگ کریں اور ان سے ضد کریں کہ میں نے کام کرنا ہے تو باہر جا کر ہی کرنا ہے،پاکستان میں نہیں کروں گا ۔ والدین بے چارے مجبور ہو کر انھیں باہر بھیج دیتے ہیں بھلے اس کے لئے انھیں اپنی زمین بیچنی پڑے یا ادھار اٹھانا پڑے ۔ حضور والا میں نے ہیتھرو ائیرپورٹ پر، ہوٹلز اور فلیٹس میں لوگوں کو روتے ہوے اور پریشان حال دیکھا ہے ۔ یہ حال تو میں اپنے پاکستانی بھایئوں کا بیان کر رہا ہوں لیکن جو حال بہنوں کا ہوتا ہے وہ نا قابل بیان ہے ۔ اور المیہ یہ ہوتا ہے کے یہ سارا طبقہ پڑھا لکھا نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ پیسہ تو کما لیتے ہیں مگر اکثر ہنر نہیں کما پاتے اور اس ڈر سے پاکستان نہیں لوٹتے کے وہاں جا کر میں کیا کروں گا ۔ یہ ایک سال پہلے کی بات ہے میرے پاس بیس سال کا نوجوان(بی ۔کا م) کمپیوٹر آپریٹر تھا ۔ اس نے دوست کے زریعے (جو کہ دبئی میں کام کر رہا تھا) ویزا منگوا کر مجھے اطلاح دی کے وہ دبئی جا رہا ہے ۔ اب چونکہ وہ سب کچھ کر چکا تھا لہذا اسے نصیحت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سو میں نے اسے جانے دیا ۔ اس دوران میں مسلسل اس سے رابطے میں تھا ۔ دو مہینے بعد اس نے مجھے بتایا کے بھائی یہاں بہت پولیٹکس ہے اور میں جاب چھوڑ کر واپس آنا چاہتا ہوں ۔ میں نے اس سے تفصیل سے بات کی اور اسے نصیحت کی کہ اتنے پیسے لگا کر گئے ہو اتنی جلدی ہمّت نہ ہارنا اور صبر سے اپنا ویزا جو کہ دو سال کا تھا؛ کو پورا کرو پھر جو بھی فیصلہ کر لینا ۔ اس کو میں نے چند نصیحتیں کیں :
?) باس ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے بھلے آپ ٹھیک ہو تب بھی
?)کولیگس کے ساتھ رویہ ایسا رکھو کہ ہر بندہ تمہیں اپنی داستان سنائے نہ کے تم انھیں سناؤ
?)دل لگا کر محنت کرو اور کام وہ کرو جس میں تم آگے بڑھ سکو ۔ ایک جگہ پر رکنا نہیں اور جہاں باس کہے کام کرو اور سیکھتے رہو یہی تمہاری ترقی ہے ۔
?) گھر والوں سے مشکلات شیر نہ کرو اور نہ ہی ان سے کوئی مشورہ طلب کرو کیونکہ انھیں نہیں پتا تمہاری کیا پوزیشن ہے ۔
میں اپنے رب کا شکر ادا نہیں کر سکتا جس نے میرا انتحاب کیا کہ میں اسے مشورہ دے سکون ورنہ اس کے گھر والے اسے واپس آنے کا کہہ رہے تھے ۔ میری ان باتوں کے بعد الحمدلللہ وہ کام کر رہا ہے اور خوش ہے حالانکہ اس دوران میں اس کا حوصلہ نہ بڑھا کر اسے واپس اپنے آفس بھلا سکتا تھا کیونکہ وہ ایک ہونہار لڑکا تھا اور ایسا ملازم کس کو نہیں چاہئیے ہوتا اور مجھے ضرورت بھی پڑی تھی اس کی ۔
دوسری بات جو میں نے بڑ ی شدت سے اکثر محسوس کی وہ یہ ہے کہ ہمارے اوورسیز بھائی پاکستان کے بارے میں تو حد سے زیادہ جذبات رکھتے ہیں کہ ایک دھماکہ یا قتل کی خبر پر دکھی ہو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں بہت منفی ہیں اور یہ رویہ یک طرفہ نہیں رہا اب بلکہ یہاں موجود پاکستانی بھی اس منفی رویے کے بدلے میں اچھے جذبات کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہ رویے اس وقت سب سے زیادہ عیاں ہوتے ہیں جب ہمارے اوورسیز بھائی اور بہنیں کچھ دن پاکستان میں گزارنے آتے ہیں اور پھر یہی روییے اولاد میں منتقل ہو جاتے ہیں ۔ میں دکھی ہو جاتا ہوں ان چیزوں سے اور مجھے شکایات ہوتی ہے اپنے اوورسیز فیملیز سے ۔
?) آپ لوگ پاکستان میں موجود لوگوں سے زیادہ عقلمند، با شعور اور کھلی سوچ کے مالک ہیں کیونکہ آپ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہ رہے ہیں۔
?)آپ زندگی کی ہر سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں
?) آپ کے پاس اگر کمی ہے تو اپنے ملک کی، اپنے لوگوں کی، اپنے محلے کی، اپنے شہر کی اور اپنی قبر کی
?) آپ کی اولاد بھی باشعور ہوتی ہے بلکہ با اختیار بھی ہوتی ہے (باہر ویسے بھی کرنا پڑتا ہے)
?) آپ نے جب اولاد کی شادی کرنی ہوتی ہے تو پاکستان سے ہی دولہا یا دلہن لے کر جاتے ہیں
میری اپنے اوورسیز پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ وہ پاکستانیوں کے بارے میں اپنی سوچ اور اپنے رویوں پر نظر ثا نی کریں ۔ ہم لوگ برے نہیں ہیں بس ہماری سوچ کا دائرہ اتنا وسیع نہیں جتنا آپ لوگوں کا ہے کیوںکہ آپ کا ایکسپوزر ہم لوگوں سے زیادہ ہے اور سوچ ہمیشہ ایکسپوزر سے کھلتی ہے لیکن ہمارا دل ابھی بھی کھلا ہے ۔ہم لوگ دھوکے باز ہو سکتے ہیں،آپکی دولت پر نظر بھی ہو سکتی ہے، حسد بھی کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی ہم آپ کے پاکستانی بھائی ہیں ۔ اگر آپ کسی مجبوری کی وجہ سے یہ ملک چھوڑ کر چلے گے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ۔ ہم لوگ یہ ملک نہیں چھوڑ سکتے یا چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے والدین ادھر ہیں، ہمارے رشتہ دار ادھر ہیں ۔ ہمارے بڑوں کی قبریں ادھر ہیں ۔ آپ اپنے رویے کو مثبت رکھیں تو بہت سے پاکستانی بھائی باہر کے حالت سے اگاہ ہو کر باہر جانے کا ارادہ ترک کر سکتے ہیں ۔اللہ سے دعا ہے کے وہ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی اور ایک دوسرے کے لیے آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے ۔ آمین

مناظر: 231
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ