’’جب ہماری زندگی میں سانحات و حادثات ہوتے ہیں تو ہم دو طرح اُن پر ردِ عمل کرسکتے ہیں: یا تو امید چھوڑدیں اور بری عادات میں گرفتار ہوجائیں؛ یا انھیں چیلنج سمجھتے ہوئے خود کو قوی کریں!‘
دلائی لاما
جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو میرے کچھ دوست دوسرے شہروں سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں ایک کا تعلق گائوں سے تھا۔ اسے یہ خوف بہت زیاد ہ رہتا تھا کہ اگر میں ہوسٹل سے نکل کر شہر میں جائوں گا تو گم ہو جائوں گا، کہیں کوئی مجھے اغوا نہ کرلے۔ وہ اکثر مجھے کہا کرتا کہ میں لاہور میں نیا ہوں، آپ مجھے لاہور کی سیر کرا دیں۔ میں اس کے ساتھ وعدہ کرتا کہ ایک دن میں تمہیں ضرور لاہور دکھائوں گا۔ لیکن وہ وعدہ وعدہ ہی رہتا۔
ایک دفعہ ہم سب دوستوں نے اس کے ساتھ پکا وعدہ کر لیا کہ جب چھٹیاں ختم ہوں گی تو ہم لاہور شہر دیکھنے چلیں گے۔ چھٹیاں ہوئیں، ختم ہوگئیں، کالج کی کلا سیں شروع ہو گئیں، لیکن وہ کلاس سے غیر حاضر تھا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ وہ کہاں چلا گیا۔ اسی کالج میں اسی کے گائوں کا ایک سینئرکلاس فیلو تھا۔ ہم تمام دوست مل کر اس کے پاس گئے اوراسے کہا کہ ہمارا دوست کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ چھٹی کے تیسرے دن اس کا انتقال ہوگیا۔ ہم سب بہت حیران ہوئے اور پوچھا، وہ کیسے۔ اس نے کہا کہ چھٹی کے تیسرے دن وہ سٹرک کراس کر رہا تھا کہ ایک بس سے اس کی ٹکر ہوئی اور وہ فوت ہوگیا۔ یہ سن کر ہم سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ہمیں اس کی موت کا بہت دکھ ہوا، مگر ہمیں اس سے بھی زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ ہم اس کی خواہش پوری نہ کرسکے۔ ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اس طرح کے واقعات زندگی میں ایک دفعہ نہیں ہو تے، کئی دفعہ ہو تے ہیں۔
ایسے طلبہ کثیر تعداد میں ہیں جو کہتے ہیں کہ جب اگلی کلاس میں جائیں گے تو پھر محنت کریں گے۔ لیکن جب وہ اگلی کلاس میں جاتے ہیں تو پھر یہی کہتے ہیں کہ اگلی کلاس میں جاکر پھر محنت کریں گے۔ اسی طرح، بڑی عمر کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جلد نماز پڑھنا شروع کریں گے، لیکن اْن کی نمازیں شروع نہیں ہوتیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نیک ہوجائیں گے، لیکن وقت گزرتا رہتا ہے اور وہ نیکیاں نہیں کماپاتے۔ ہم زندگی میں بے شمار مرتبہ پلان کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے، لیکن نہیں کرتے۔ جب وقت گزرتا ہے تو پھر پچھتاوا بن جاتا ہے۔
وقتی موٹیویشن
ہم جب کبھی کوئی تقریر یا لیکچر سنتے ہیں تو اس وقت ہماری موٹیویشن کا گراف بہت اونچا ہوجاتا ہے، لیکن جیسے ہی اگلا دن آتا ہے، وہی روٹین شروع ہوجاتی ہے۔ یادرہے کہ موٹیویشن کا مطلب ہوتاہے کہ انتظار نہیں کرنا، ابھی فیصلہ کرنا اور شروع کر دینا ہے۔ اکثر لوگ اپنے والدین کا ادب نہیں کرتے۔ جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو پھر وہ برسی مناتے ہیں، قبر پر پھول چڑھا تے ہیں، ان کیلئے قرآن خوانی کراتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کرنے سے والدین واپس نہیں آسکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اْن کیلئے ثواب کی محفلیں ہونی چاہئیں، مگر اْن کے ہوتے ہوئے ان کی بات نہیں مانی، ان کا کہنا نہیں مانا، ان کو راضی نہیں کیا، انھیں خوش نہیں کیا، ان کے دل کو ٹھنڈک نہیں پہنچائی تو پھر اْن کے جانے کے بعد ان چیزوں کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔ دنیا میں تو آپ اْن کا دل دکھاچکے۔
جب دل میں یہ بات آئے کہ میں تھوڑی دیر تک کام کروں گا تو فوری طور پر اپنے سینے پر ہاتھ ر کھیں اور اپنے آپ سے کہیے ابھی شروع کرنا ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں، ’’جو کہتا ہے کہ میں کل سے شروع کروں گا، اس کا کل کبھی نہیں آتا۔‘‘ کیونکہ جنھیں کرنا ہوتا ہے، وہ کل کا انتظار نہیں کرتے۔ اپنے ہر دن کو نئی زندگی سمجھئے، کیونکہ جو بھی دن شروع ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے نعمت ہوتا ہے۔ اس دن کی ہر شے ہمارے نام ہوتی ہے۔
دس کام
دس کام سوچ لیجیے جیسے پڑ ھنا، اچھا انسان بننا، والدین کا احترام کرنا، نماز پڑھنا، کسی کے کام آنا، اخلاق بہتر بنانا، مسکرانا، سلام کرنا، کسی کا دل نہ دکھانا اور اپنی زندگی کو نئی زندگی بنانا وغیر ہ وغیرہ۔ ان کاموں کے بارے میں فوری فیصلہ کیجیے اور شروع کر دیجیے۔ کسی کام کی شروعات میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ کام کو شروع تو ایک فرد کرتا ہے، لیکن اس کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی یہ کام شروع کردیتے ہیں۔ نصیحت کرنے سے تبدیلی نہیں آتی، عمل کرنے سے تبدیلی آتی ہے۔ آپ اگر محنتی ہیں تو کچھ عرصہ بعد آپ مثال بن جائیں گے۔
بعض اوقات فیصلہ چھوٹا لگتا ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ فیصلہ چھوٹا نہیں تھا بلکہ بہت بڑا فیصلہ تھا۔ دنیا میں جتنے بھی رفاہی کام ہیں، وہ چھوٹے سے عمل سے شروع ہو ئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑے بن گئے۔ جیسے عبدالستار ایدھی جنھوں نے اپنے کام کا آغاز ایک ریڑھی سے کیا، آج گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام شامل ہوگیا۔
کوئی بھی کام شروع کریں تو پہلے دو نفل ضرور پڑ ھیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کام کی کامیابی کی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ مجھے استقامت دے اور میری ہمت بڑی کر دے، کیونکہ ہمت بڑھنے سے مسئلے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ جب دل میں اپنے آپ کو بدلنے کا سوال اٹھے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے۔ اپنی موجودہ زندگی کے احساسِ زیاں کا پیدا ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کویہ احساس دے دیتا ہے، وہ فوری طور پر اپنے آپ پر غور کرتے ہیں اور پھر عمل کا فیصلہ کرتے ہیں اور کام شروع کردیتے ہیں۔
قاسم علی شاہ صاحب کی نئی آنے والی کتاب ”اونچی اڑان” سے اقتباس کتاب کے لیے رابطہ کیجیے 03044802030