چین کی 1970ء کی اصلاحات کے نتیجے میں 30 کروڑ لوگ 1995ء تک غربت کی لکیر سے نکل گئے، جبکہ 17.6 کروڑ بدستور غربت کی لائن سے نیچے تھے۔ جو علاقے غربت کی لکیر سے نیچے رہے وہ سمندر سے دور پہاڑی علاقے تھے جہاں پہ اصلاحات کے اثرات کم پہنچے اور وہاں کی زمینیں زرخیز نہیں تھیں۔ حکومت نے ایک پروگرام شروع کیا جس کا عنوان تھا، غربت ختم کرنے کا ترجیحاتی پروگرام (ایل۔ جی۔ پی ۔ آر)۔ اس پروگرام کے بعد اور بہتری آئی اور 1997 تک دیہاتوں کی صرف 4.9 کروڑ ( 6 فیصد) آبادی غربت کی لائن سے نیچے تھی۔ ایل۔ جی۔ پی ۔ آر ایسے منصوبے شروع کیے جس کے نتیجے میں دیہاتی غریبوں کو اپنے آناج کو بہتر انداز میں محفوظ کرنا سیکھایا، نئی اقسام کے غلے پیدا کرنا سیکھایا، دانوں کو محفوظ کرنا سیکھایا اور قرضوں کی ایسی سیکمیں بنائیں جو دیرپا اور شفاف تھیں۔ اس سارے عمل سے لیڈرشپ کی اپنے معاشرے اور لوگوں سے اخلاص اور پیار واضع ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرتا تو اس کی لیڈرشپ ضرور بددیانت اور خود غرض ہے۔
غربت ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ایل۔ جی۔ پی ۔ آر نے غریب دیہاتوں کی شناخت کا پلان بنایا، جس کے تحت وہ گاؤں (کونٹی) غریب تھا جس کی آمدن 150 یوآن سے کم تھی۔ غربت ختم ہونے کے پیچھے جہاں سپیشل پیکجز کا ہاتھ تھا، وہاں دیہاتوں میں زراعت، صنعت میں انویسٹمنٹ، بجلی کا آنا، سڑکوں کا جال، انفراسٹریکچر، زراعت میں کسانوں کو رقوم کا اجراع اور بالائی سطح پہ پلان کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کا اثر تھا۔
ایک سروے کے مطابق غربت کم کرنے کے لیے جن عوامل کا ہاتھ ہے، ان میں سٹرکوں کی تعمیر، تعلیم، تحقیق کا ماحول اور ادارے، پانی اور زمین کی فراہمی، زرعی پانی کی فراہمی، شہروں میں ہجرت، اور بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہی دیہی علاقے انڈسٹری کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں غربت کم ہوئی یا پہلے سے کم تھی۔ جہاں غربت کم نہ ہو سکی وہاں انڈسٹری فیل ہو گئی، اس کا مطلب میری نظر میں یہ ہی ہے کہ غربت میں کام اور انفرادی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیں، اسی لیے ترقی کرنے کے لیے میری صلاح یہ ہے کہ سب عوامل کا میکسچر اس انداز سے بنایا جائے کہ وہ اثر کر سکے۔