1-چین میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ 1990-1998 کے درمیان 10 کروڑ لوگوں نے شہروں کی طرف ہجرت کی۔ جس کے بعد باقی لوگوں کو زراعت اور مقامی صنعت میں انڈجسٹ کیا گیا۔ چین نے اپنے منصوبے کے تحت 1991ء میں 35 کروڑ لوگوں کو زراعت کے شعبے میں ملازمت دی۔ البتہ کل تناسب کے حساب سے کسانوں کی تعداد 50 فیصد سے کم ہوئی ہے۔ چین نے دیہات کے لوگوں کو نکل مکانی سے روکنے کے لیے دیہات میں انڈسڑی لگانا شروع کر دی، دیہاتوں کی 25 فیصد آبادی گاؤں کے اندر ہی انڈسڑی میں کام کرتی ہے۔ دیہاتوں میں انڈسڑی لگنے کے بعد ایک دیہات سے دوسرے دیہات میں ہجرت کا رجحان بڑھ گیا ہے- دیہاتوں کی یہ انڈسڑی ٹی- وی-ای- ایس نام کا ایک حکومتی ادارہ چلاتا ہے اور پرائیویٹ شعبے کی انڈسڑیز بھی لگی ہوئی ہیں۔ چین کی زراعی پراڈکٹس کا 70 فیصد جاپان، کوریا، اور ہانگ کانگ خریدتے ہے۔
2- چین میں دیہات، تحصیل (ٹاؤن) اور ضلع (کاؤنٹی) کی سطح کا نظام وہاں کے لوکل نمائندے جو انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں، وہ چلاتے ہیں-1997ء کے ڈیٹا کے مطابق چین کے کل دیہات 740،000، ٹاؤن 44700، کونٹٰیز 2100 ہیں ۔1991ء کے ڈیٹا کے مطابق یہ لوکل باڈیز کے ادارے اپنے آمدن کا 50 فیصد اپنے اداروں سے ہی لیتے ہیں، جبکہ 34 فیصد مرکزی حکومت، 16 فیصد لوکل ترسیلات زر سے لیتے ہیں۔ ان اداروں کا 40-45فیصد سماجی شعبے(تعلیم، صحت، پولیس، اور آفات)، 25-30 فیصد انتظامی شعبے جبکہ 10-15 فیصد کیپیٹل اخراجات کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔ کاؤنٹی کی ذمہ داریوں میں زرعی فاروموں کو جدید بنانا، پانی کا تحفظ، اور زراعت کا پھیلاؤ شامل ہے۔
3- گو چین اپنے جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم پہ خرچ کرتا رہا ہے، پھر بھی وہاں 3 کروڑ بچے سکول نہیں جا پائے۔ دیہاتوں کے بجٹ کا 8 فیصد صحت پہ خرچ ہوتا ہے۔ ان دیہی اداروں کی کارکردگی ان کو دئیے گئے ٹارگٹ سے چیک ہوتی ہے۔ چین کے دیہات مالی وسائل کے پیدا کرنے اور خرچ کرنے میں خود مختیار اور جمہوری ہیں۔
4- چین کے دیہی اداروں کی معاشی ترقی میں قومی بنکوں اور ریاست کے ملکیتی اداروں کا ہاتھ ہے۔ دیہاتوں کی ترقی کے لیے مالی وسائل کافی بنکوں سے آتے ہیں، جن مین مشہور: چین کا زرعی بنک، چین کا زرعی ترقیاتی بنک، دیہات کریڈٹ کوپریٹو، دیہی کووپریٹو فنڈ شامل ہیں۔ صرف چین کا زرعی ترقیاتی بنک 625 بلین یوآن قرضے دیتا رہا ہے (1994-1996)۔ دیہات کریڈٹ کوپریٹو کے قرضے دینے کے 250،000 یونٹ ہیں۔ بڑے بنکوں کے علاوہ لوکل باڈیز کے اپنے فنڈ ہوتے ہیں، جس سے صرف ان لوگوں کو قرضے ملتے ہیں جو غربت کی لائن سے نیچے ہوتے ہیں، ان فنڈز کا حجم 1.2 بلین یوآن ہے۔
5- 1998ء کے بعد چین کی زراعت خود کفالت کی طرف چلی گئی تھی اور وہ اپنی غذائی ضرورت خود پورا کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ غلہ کی تقسیم کا باقاعدہ نظام بنایا گیا تھا، جس کے تحت غلے کا کحچھ حصہ مرکزی حکومت رکھتی تھی جو کہ ضرورت کے وقت یا مارکیٹ میں کمی کے وقت بازار میں لایا جاسکے تاکہ بلیک مارکیٹ یا ناجائز منافع خوروں کو قابو میں رکھا جا سکے، جبکہ ایک بڑا حصہ مارکیٹ معیشت کے اصولوں کے مطابق مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا تھا اور مارکیٹ خود اس کو ریگولر کرتی تھی۔ غلے کی لوکل قیمتوں کا تعین لوکل باڈیز کا دائرہ اختیار ہے۔ جبکہ بڑے پیمانے پہ ریاست کی مقررہ کردہ قیمتوں کو لاگو کرنے کے لیے ایک الگ سے ادارہ موجود ہے۔
6- چین کی زرعی ترقی کی شرع نمو 5.9 سے 7.1 فیصد سے بڑہتی رہی ہے اور وہ بین الاقوامی زرعی اجناس کا 3 فیصد پیدا کرتا رہا ہے (1996ء)۔ چین کے کسانوں پہ ان کی مالی حیثیت کے مطابق براہ راست ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے۔ چین کی کل زرعی برآمدات صنعتی برآمدات سے کم ہیں، لیکن زراعت کا حصہ بتریج بڑھا ہے۔ زراعت کا کل جی ڈی پی میں حصہ 30 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد رہ گیا تھا (1980-1997ء)۔ چین اپنی زرعی اجناس کی برآمدات اور درآمدات کو قومی فائدے میں رکھنے کے لیے ٹیرف لگاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ برآمدات اور درآمدات پہلے ہانگ کانگ اور پھر مین لینڈ چین میں ہوتی ہیں۔
7- چین میں اسی دور میں بین الاقوامی کاروبار کرنے والی فرمز کی تعداد 1200 سے بڑھ کر 200،000 ہو گئی تھی (1986-1996ء)۔ بیرونی سرمایہ داروں کو راغب کرنے کے لیے 14 سپیشل اکنامک زون بنائے جو کہ بحری راستوں کے قریب تھے جن میں 1992ء تک مسلسل اضافہ کیا۔ انتظامیہ نے سرمایہ کاروں کو تین شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی جبکہ ایک شعبہ کو ممنوعہ قرار دیا۔ ان میں پہلا شعبہ جس کی اجازت دی اس کو حکومت پرموٹ کرنا چاہتی تھی، دوسرا وہ جس کو کم ترجیع تھی، تیسرا وہ جس کو حکومت پسند نہیں کرتی لیکن اجازت تھی سرمایہ کاری کی اور چوتھا وہ جو ممنوعہ تھا۔ اس صنعتی ترقی نے زراعت کو بھی فائدہ دیا۔
8- حکومت نے ان دس سالوں(1986-1996ء) میں زراعت پہ ٹیکس کم کر دیا۔ 1993ء سے کاپی رائٹ کا قانون لاگو کر دیا تاکہ موجدوں کو تحفظ مل سکے۔ زرعی آلات، ادویات، زہروں، لائیوسٹاک، پانی کا نظام، جنگلات، فصلوں اور دیگر شعبوں میں متوازن انویسٹمنٹ کو یقنی بنایا، جس سے زراعت اور انڈسڑی دونوں میں جدت اور جیب میں توازن آیا۔
9- دیہاتی خانداںوں کو ترقی دینے کے لیے گھریلو ذمہ داریوں کے نظام کا قانون پاس کیا۔ اس آرڈر کے بعد زمین کی حیثیت سرکاری نہ رہی۔ اس کے بعد اب خاندان زمین اور زراعت کے ذمہ دار ٹھہرے۔ البتہ زمین ان کی ملکیت سے لی بھی جا سکتی تھی اگر وہ اس سے کام نہیں لیتے۔ زمینوں کے انتقال اور اپنے پیشہ تبدیل کرنے والے افراد سے واپس لے کر دوسرے افراد کو دینے کا اختیار لوکل باڈیز کے پاس چلا گیا۔ اس آرڈر سے زراعت میں ترقی آئی۔ زمین کا ریکارڈ پٹواریوں کی بجائے وہاں کی لوکل باڈیز کے نمائندے ہی چلاتے ہیں۔ زمین کو کسانوں میں تقسیم کرنے کے لیے زمین کی پانچ اقسام بنائی گئی، ان میں پہلی قسم ذمہ دار زمین (79.4 فیصد)، ریشن لینڈ (8.3 فیصد)، معاہدہ والی زمین (5.5 فیصد)، ذاتی زمین (5.7 فیصد)، اور باربار ملنے والی زمین (1.1 فیصد) تھیں۔ حکومت نے اپنی ہدایت پہ فصلوں کی کاشت کو یقینی بنایا۔ زمین کی آلاٹمنٹ اور دوبارہ آلاٹمنٹ کے لیے گاؤں کی قیادت کے فیصلوں کو اہمیت دی جاتی تھی۔ 50 فیصد سے زیادہ کیسز میں زمین دوبارہ آلاٹ ہو جاتی تھی۔ اگر ایک خاندان اپنے حقوق متنقل کرتا ہے تو اس کے ستر فیصد چانس تھے۔ زرعی زمین پہ گرین ہاؤس، مچھلی کا پاؤنڈ، یا کوئی تبدیلی کرنا منع تھا۔ ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں زمین کا انتقال گاؤں کی لیڈرشپ ہی کرتی تھی اور پٹواریوں سے جان چھوٹی ہوئی تھی۔ زمینی رقبہ کی آلاٹمنٹ خاندان کے کل افراد کے حساب سے کی جاتی تھی اور وہ افراد جو دوسرا شعبے مین کام کرنے چاہتے ہوں ، ان کو زمین کم یا نہیں دی جاتی تھی۔ زمین کو ٹھیکے پہ دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور گاؤں کی لیڈرشپ اس کو منع کر سکتی تھی۔ استعمال کرو یا چھوڑ دو کی پالیسی تھی۔ زمین کی آلاٹمنٹ چھ سال کے لیے کی جاتی تھی، جو کہ نئی اصلاحات میں 30 سال تک کرنے کی توقع ہے۔ یہ ساری اصلاحات 1986-1996ء کی ہیں۔
چین کی دیہی انڈسڑی کو نئے دور کا چیلنج ہے۔ یہ انڈسٹری خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہے اور نئے تبدیلیوں کو اپنا کر نئے مارکیٹنگ حربے اپنا رہی ہے۔ چین کے جن علاقوں میں حکومت نے وسعت نظری اور آزادانہ پالیسیاں اختیار کیں، وہاں انڈسڑی زیادہ پھیلی۔ لیکن ایشیائی مالیاتی بحران کی وجہ سے فرمز کی آمدن کم ہوئی ہے، دیہی سیکڑ خود کو ری اڈجسٹ کر رہا ہے۔ جب قومی سطح پہ مالی بحران آتے ہیں تو اس سیکٹر پہ مالی دباؤ زیادہ آتا ہے اور اس کی زیادہ کٹوتیاں ہوتی ہیں۔ اس واقعہ سے یہ تعاثر تو ملتا ہے کہ کوئی بھی صنعتی قوم ہمیشہ کے لیے پاورفل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مسلسل محنت اور بہتر سے بہتر پالیساں ہی اس کو بچاتی اور غالب رکھتی ہیں۔ چین کی لیڈرشپ کے فیصلے متحرک نظر آتے ہیں جو قومی فائدے کے لیے پالیسیوں کو بدلتے رہتے ہیں۔