• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
تقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علیتقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علیتقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علیتقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

تقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • تقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علی
چین کا دیہی ترقیاتی ماڈل — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
جون 19, 2017
بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
جون 19, 2017
Show all

تقسیمِ معاش کا فلسفہ — تحریر: واجد علی

جب سے اس دنیا میں انسان نے قدم رکھا ہے، تب سے وہ معاشرے یا سوسائٹی کی شکل میں رہتا آیا ہے۔ اس دنیا میں بسنے والے تمام انسان اگرچہ ایک ہی ماں اورباپ کی اولاد ہیں، مگر ان کی صلا حیتیں ایک جیسی نہیں بلکہ ان کے اندر تفاوت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ از منہ قدیم سے ہی انسانی معاشرہ مختلف طبقات میں منقسم نظرآتا ہے۔ یہ تقسیم بادی ُالنظر میں خلافِ عقل معلوم ہوتی ہے مگر اس کے بغیر یہ نظامِ کائنات نہیں چل سکتا ۔

یوں تو ہمیں ہر معاشرے میں مختلف طبقات میں بٹے انسان نظر آتے ہیں مگر ایک طبقا تی تقسیم ایسی ہے جس سے کوئی بھی انسانی معاشرہ خالی نہیں اور وہ ہے حکمران اورعایا کی تقسیم۔ ہرملک کےاندریہ حکمران طبقہ، رعایا یا بہ الفاظِ دیگرعوام کے اوپرحکومت چلانے کےلئے مختلف نظام تشکیل دیتا ہے، جن میں زیادہ اہم سیاسی،معاشی ،دفاعی اور عدالتی نظام ہیں۔ یہ نظام نہ صرف اُس ملک میں بسنے والے افراد کے معیارِ زندگی پراثراندازہوتے ہیں بلکہ حکومتِ وقت کی سوچ، اور اس کی ترجیحات کا  بھی تعین کرتے ہیں۔ یہ حکومت چاہے مذہبی ہو یا سیکولر،اس کے اوپر اخلاقی لحاظ سے ہر وقت عوام کو بنیادی سہولتوں سے مستفید کرنا اور ان کی دہلیز تک پہچانا اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اور جو حکومت اپنی اس ذمہ داری کو اچھی طرح نبھاتی ہے،وہ ہمیشہ اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ دنیا کا نظام ہے کہ اس دنیا میں ہر وقت امیر اورغریب سے خالی نہیں رہتی، ورنہ اگر ایسا ہو تا تو یہ کاروبارِ حیات نہ چل پاتا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اُس ملک کے اندر رہنے والے اُمراء ہر قسم کے وسائل کے اوپر قابض ہو جائیں اور غرباء کے حصے میں سواۓ محرومیوں کے کچھ نہ آئے۔

ایک اچھااور متوازن معاشی نظام  اور اس میں طے کردہ اہداف کا حصول حکومتِ وقت کی اوّلین ذمہ داری میں شامل ہے۔  اگر وہ حکومت ان اہداف کو حاصل کرنے میں کا میاب ہو جاۓ تو وہ ایک کامیاب حکومت ہوگی ورنہ اس کے بر عکس۔چنانچہ  کسی حکومت کی اچھا ئ کا معیا ر یہ نہیں ہے کہ اُس کا حاکم مذہب پرکتنا کاربند ہے ، نیک چلن ہے،بلکہ اس کی رعایا کی معاشی حالت اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعیّن کرتی ہے ۔اگر ہر نئے سال غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہو،ایک عام انسان کی حالت جانور سے بھی بد تر ہو،افرادِ انسانی بنیادی خوراک تک کو ترس جائیں،روز بروز نئے نئے ٹیکس لگا کر اُن پر عرصہء حیات تنگ کر دیا جاۓ، سر براہِ مملکت کو ایک خاص طبقے کے مفادات کے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہ ہو، لوگ موت کو زندگی پر ترجیح دینا شروع کردیں تو بھلا اُس وقت کے حاکم کو آپ کیا کہیں گے۔ کیا ہم صرف اِس بنیاد پر اس حکومت کا محاسبہ نہیں کریں  گےکیونکہ سربراہِ حکومت مذہب کے حق میں بہت اچھا ہے یا اُس کا کردار اُجلا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھامعاشی نظام  کیاہوتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب درکار ہو تو اس کیلئے کوئی لمبی چوڑی تحقیق درکار نہیں  بلکہ اس چیز کو دیکھا جائے کہ کیا یہ  نظام عام رعایا کو مدِنظر رکھ کر بنا یا گیا ہے؟ کیا اس سے واقعی ایک عام آدمی کی معاشی حالت بہتر ہورہی ہے؟ کیا یہ معاشی نظام اُس ملک کے اکثریتی طبقے کے حق میں مفید ہے؟ جب سے یہ نظام نافذ ا لعمل ہوا ہے اُس وقت سے لیکر اب تک اس نے کیا عام عوام کے مفادات کی پاسداری کی ہے؟کیا ایک عام آدمی اس نظام سے مطمئن ہے؟ کیا اس نظام نے ہر فرد کوآزادی سے کام کرنے اور ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے مساوی مواقع فراہم کیے ہیں؟ کیا اس سے امیر اور غریب کے درمیان دولت کا فرق کم ہوا ہے؟  کیا اس ملک کے روپے کی قدر مستحکم ہے؟ کیا نظامِ ٹیکس عدل کی بنیاد پر ہے؟ اور کیا عوام سے وصول کردہ ٹیکس عوام کے اوپر ہی لگایا جاتا ہے؟ کیا اِس نظام سے اُس ملک کی ساری عوام ایک جیسی مستفید ہو رہی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اگر مذکورہ بالا سوالات کا جواب مثبت آئے تو وہ معاشی نظام بہت عمدہ  تصور کیا جائے گا۔

اس غلط معاشی نظام کی بدولت سارے کا سارا سرمایہ سمٹ کر چند ہاتھوں میں آ یا ہواہے، دولت گردش میں نہیں بلکہ رکی ہوئی ہے اور یوں چند سرمایہ دار خاندان یا ادارے جو سرمائے کے مالک ہیں۔ وہ ہر قسم کی نعمتوں سے نہ صرف مالامال ہو رہے ہیں بلکہ ملک کے تمام نظام بھی اُن ہی کے ماتحت  ہیں۔اس پہ مُستزاد وہ مذہبی طبقہ ہے جو اس مصنوعی طور پر پیدا کردہ غلط تقسیم کو خدا کی طرف منسوب کر کے ہر ظالم اور جابر حاکم کو اس کے اصل جرم سے آزادی کا پروانہ عطا کر تا ہے اور منبر و محراب میں بیٹھ کر ان ظالم اور جابر لوگوں کے حق میں نہ صرف کلماتِ خیر کہہ رہا ہوتا ہے بلکہ جب بھی ان ظالموں کو ضرورت پڑتی ہے یہ مذہبی طبقہ اُن کا دامے، درمے،سخنے  بھر پور ساتھ دے رہا ہوتاہے۔ یہ سرمایہ دارافراداورادارےدنیا کے تمام ممالک کے عوام کی نہ صرف تقدیر کا فیصلہ کر رہےہیں بلکہ کسی  بھی ملک میں آنے والی ہر حکومت اُن کے ابرو اور اشاروں پر ناچتی  پھر تی ہے۔ چنانچہ ہر حکومت ہر دور کے اندر جو بھی معاشی پالیسی اور اہداف طے کرتی ہے وہ اِنہی سرمایہ دار افراد کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کرتی ہے۔اُس ملک کے پالیسی ساز ادارے  پھر اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ عوام کی حالتِ زار کیا ہے، کیا ایک عام بندے کی آمدن اس قدر ہے کہ جس سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکے،کیا جو بھی پالیسی اور اہداف مقرر کیے جارہے ہیں وہ قابلِ حصول ہیں،کیا عوام کے نام پر جاری شدہ اخراجات کا عُشرِعشیر بھی عوام پر خرچ ہواہے۔ کیا ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ اُس ملک کی عام عوام کی حالتِ زار بہتر  ہو رہی ہے یا بد تر؟

تاریخ کا مطالعہ کرنے سےپتا چلتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ  بنیا دوں پر  تقسیم کی سب سے بنیادی وجہ حکومتِ وقت کی غلط معاشی پا لیسی ہو تی ہے، جس کی وجہ سے ہر دور کے اندر ایک خاص طبقہ ہی تمام وسائل سے بہرہ مند ہو پاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ جو اُس ملک کی اکثریتی آبادی پر مشتمِل ہو تا ہے، اس کیلئے جسم اور جان کا رشتہ بھی برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔یوں عامتہ ا لناس جو زندگی کی بنیادی سہولیات تک سے محروم ہوتی ہیں وہ اپنا حق نہ پاکر اُس کو چھیننے کیلئے متحرک جب ہوتی ہے تو ملک کے اندر افراتفری ،لاقانونیت ،عدم استحکام اور اُس سے وابستہ ہزار ہا قسم کے جرائم وجود میں آتے ہیں ۔آج ایک نظر دنیا میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح پر اگر ڈالی جائے تو، یہ بات بخوبی سمجھ میں آجا تی ہے کہ ان جرائم کے محرکات میں سے سب سے بڑا محرک یا سبب غلط معاشی نظام  اور اُس کی وجہ سے پیدا شدہ دولت کی غیر منصفانہ بنیادوں پر تقسیم ہے۔

مگر ظاہر ہے جب کسی بھی ملک کا معاشی نظام صرف چند لوگوں کے مفادات کو ہی تحفظ فراہم کرے اور اُس ملک کی اکثریت روز بروز غربت کے دریا میں مزیدڈوبتی ہی چلی جائے  تو اُس ملک میں امن ، پائیداری ،قانون کی پابندی  اور حقیقی خوشحالی کا حصول گویا بقول کسی شخصے   ” خواب ہے  ایک دیوانے کا”  کے ہی مترادف ہے وگرنہ  عملی طور پر اس کا حصول اور قیام ممکن  نظرنہیں آتا۔ 

مناظر: 258
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ