کچھ دن پہلے جولائی 2017ء میں چین جانے اور وہاں کے سماج کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور کوریا میں کچھ عرصے قیام کے بعد یہاں کے مزاج اور عادات پر جو رائے بنی ہے وہ قارئین کے گوش گزار ہے۔
اکثر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ جب بھی ہمارے ملک کے لوگ یورپ میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کے اخلاق کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور جب ہمارے لوگ چین یا کوریا آتے ہیں تو یہاں کے لوگوں کو پرامن تو پاتے ہیں لیکن دل نہیں ملا پاتے ہیں۔ معاشروں کا انفرادی اور ادارہ جاتی حوالے سے تجزیہ کسی بھی معاشرہ کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشرہ ایک ہاتھی کی طرح ہوتا ہے جس کے ہر عضو کو ہاتھی سمجھنا ایک بڑی غلطی ہوتی ہے جو ناسمجھی میں سادہ لوگ کر جاتے ہیں۔ مغرب کی طاقتور اقوام اگر عراق یا افغانستان کو تباہ کر دیتی ہیں تو کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ وہاں کے عام شہری بھی متشدد یا غاصب ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ معاشروں کی انفرادی سوچ اور ان کے اداروں کے اجتماعی فیصلے بہت مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کو اسی درجے کے اندر رہ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
چین، کوریا اور دیگر چینی برانڈ کی اقوام کے لوگوں کو انفرادی سطح پہ دوسروں کے ساتھ گھلتے ملتے کم ہی پایا گیا ہے، لیکن اجتماعی سیاسی اداروں کی شکل میں یہ اقوام دوسروں کی تذلیل اس انداز میں نہیں کرتیں جس طرح مغرب کی اقوام کرتی ہیں اور نہ ہی موجودہ دور میں ان مشرقی اقوام کی جانب سے عمومی طور پہ کمزور ملکوں پہ چڑہائی کی گئی ہے۔
ان مشرقی اقوام خصوصا جنوبی کوریا اور چین کے درمیان کچھ فرق بھی ہیں۔ جنوبی کوریا کا معاشرہ مغربی اور کیپٹلسٹ نظریات پہ 1948ء سے پنپ رہا ہے اور امریکہ سے حد درجے تک مرعوب ہے، یہاں تک کے یہاں کے نوجوان طبقہ امریکن نسل کے لوگوں سے بات کرنا بھی فخر سمجھتا ہے اور ان کے لہجے میں بات کرنا بھی بڑی بات مانی جاتی ہے جبکہ افریقن کو تو بندر ہی سمجھتے ہیں۔ چین سے نفرت کرتے ہیں اور جاپان سے بھی۔ پاکستان کو عرب سمجھا جاتا ہے اور دہشت گرد بھی۔ کورین لوگ جذباتی تعلق نہیں بناتے ہیں اور ان کے نزدیک ذاتی تعلقات بھی صرف کسی مالی یا مادی فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ کام کے حوالے سے اجتماعی سوچ ہے اور کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے ہیں۔ یہاں رہ کر انسان جذباتی تعلق سے ایسے محروم ہو جاتا ہے جیسے پاکستان میں پیسے سے محرومی ہے اور دوںوں محرومیاں اگر کمزوریاں بن جائیں تو معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ کوریا غیر ملکیوں کے لیے پرسکون ہے اور ان پہ کوئی حملہ آور نہیں ہوتا اور عمومی طور پہ لوگ پرامن ہیں۔ لیکن اگر یہاں پہ لمبے عرصے کے لیے رکنا ہو تو یہاں ایک نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو متشدد تو نہیں ہے لیکن کورین کو فیصلہ سازی میں ترجیع ضرور دی جاتی ہے جو اداراجاتی عمل میں انصاف کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے جس سے برے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کوریا میں داخل ہوں تو لوگ آپ کی مدد کرتے ہیں لیکن اگر ساتھ رہیں تو روزمرہ کے کاموں میں لوگ ایک دوسرے سے جلد چڑچڑے ہو جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے یا کم درجے کا ہے۔ کوریا کے کلرک بہت اچھے ہیں اور وہ کافی مدد کرتے ہیں۔ کوریا ایک سرسبز ملک ہے جو زیادہ تر پہاڑوں پہ مشتمل ہے اور زیر زمین پانی صاف ہے۔ کوریا کے یہ جنگلات جنگ عظیم دوم کے بعد مصنوعی طور پہ اگائے گئے ہیں۔ کوریا کی موجودہ نسل قد میں بڑی اور توانا ہے اور غزائی قلت کا شکار نہیں۔ عوامی سطح پہ خوشحالی ہے اور مشرقی یورپ اور کئی دیگر اقوام سے لوگ خوشحال ہیں۔ سرمایہ داری نظام جہاں پیسے کی فراوانی کرتا ہے وہاں لوگوں کی ذاتی زندگی اور خاندان کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہاں پہ شادیوں کی شرح بہت کم ہو گئ ہے اور پچھلے سالے 5 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف 406000 بچے پیدا ہوئے ہیں جو کہ 1981ء میں 867000 تھے۔ موجودہ برتھ ریٹ 1.24 فیصد ہے جس کا مطلب ہے دو انسان دو بچے بھی پیدا نہیں کر پاتے ہیں۔ یہ عمل پوری سرمایہ دار دنیا میں ہے جس سے سرمایہ دار دنیا کے حقوق نسواں کے نظریات کی کمزوری عیاں ہوتی ہے کہ عورت کو معاشی اور گھریلوفرنٹ پہ بیک وقت کام دیا جائے تو ان میں سے ایک تو ضرور متاثر ہوگا۔ گھر کے ادارے سے سرمایہ داری نظام میں جو سلوک رکھا جا رہا ہے اس کا نتیجہ گھر کا ادارہ کمزور ہوا ہے اور فیکڑی اور اجتماعی معاشی اور سماجی ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ انسانیت کے لیے وہی نظام اچھا ہوگا جس میں سب ادارے متوازن ہوں گے۔ ابھی تو امریکہ، کینڈا، اور باقی سرمایہ دار دنیا کو افریقہ اور جنوبی ایشیا کے زرعی دور کے گھریلو ادارے افرادی قوت مہییا کر رہے ہیں لیکن اگر ساری دنیا میں یہ توازن بگڑ گیا تو انسانیت کا کیا ہو گا؟ سرمایہ داری دنیا کے پلانرز کو گھر کے ادارے اور اپنے حقوق نسواں کے نظریات پہ شرمندگی دلانے کے لیے یہ برتھ ریٹ کا ڈیٹا ہی کافی ہے۔ یاد رکھیں سرمایہ دار دنیا میں کم برتھ ریٹ کی وجہ معاشی سے زیادہ جذباتی ہے۔ شادی کا نظریہ صرف سیکس کی حد تک ہے اور خاندان بنانا کام کرنے سے مشکل لگتا ہے۔
اب چین کی طرف آتے ہیں۔ چین کے اندر زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن یہ محسوس ہوا کہ چینی کورین کی طرح غیر ملکیوں پہ اتنی توجہ نہیں دیتے اور ان کو متاثر کرنے کی سوچ نہیں بلکہ ان کا برتاؤ قدرتی انداز میں تھا۔ کورین غیر ملکیوں کو پہلا تعاثر بہت اچھا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ چینی کام میں اس حد تک محو نظر نہ آئے جتنے کورین نظر آتے ہیں۔ چین میں غربت کوریا سے بہت حد تک زیادہ تھی۔ چین کی بسوں میں لوگوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا جبکہ کوریا میں ایسا نہیں ملتا، لوگ زیادہ تر موبائل میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ چین کے کھانے کورین کے کھانوں سے مختلف تھے اور کچحھ مملاثلت بھی تھی۔ چین کوبھی سرسبز و شاداب دیکھا اور کام کے اوقات میں گلیوں میں کوئی بھیڑ دیکھنے کو نہ ملی۔ چین کے لوگوں میں بھی پروفیشنل ازم دیکھنے کو ملی جو کورین مزاج سے بہت مختلف تھی۔ چین کے لوگ بھی پرامن نظر آئے اور اداروں کے فرماں بردار محسوس ہوئے۔ چین 1948ء میں کمیونسٹ نظریہ پہ تعمیر ہوا تھا اور 1979ء کے بعد بتدریج سرمایہ داری نظریے کی طرف جا رہا ہے اور معاشرہ ان دو نظریات کے درمیان والی نفسیاتی کیفیت میں ہی محسوس ہوا۔
اس مشاہدہ کے بعد جو نتائج اخذ ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ وہاں کے اجتماعی اداروں میں موجود سیاسی اور معاشی سوچ سے متاثر ہوتا ہے۔ ہر ملک کا بیرونی معاشروں سے برتاؤ وہاں کے اجتماعی اداروں کے فیصلوں اور سوچ و نیت سے ہوتا ہے۔ عام عوام کا برتاؤ یا رویے دوستانہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس قوم کے اجتماعی ادارے کمزورو ملکوں کے ساتھ انصاف کا سلوک رکھیں گے۔ چین و کوریا کے لوگ عام طور پہ دوستانہ نہیں سمجھے جاتے ہیں اور مغرب کے لوگ بہت دوستانہ اور شغل لگانے والے سمجھے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے۔انفرادی رکھ رکھاؤ اور اجتماعی سوچ دوںوں مختلف ہوسکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں بھی راجے مہراجے انفرادی رکھ رکھاؤ اور انفرادی سخاوت میں بہت مشہور تھے لیکن ان کا عمل معاشرے کے اجتماعی فیصلوں میں کیا ہوتا ہے وہ ایک الگ بحث ہے۔