پچھلے سال اپریل 2016ء ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے دوران پیش آنے والے جدید اور قدیم نوعیت کے واقعات کو قلم بند کرنا ضروری تھا۔ چند مشاہدات قارئین کے گوش گزار ہیں
2۔ اس کے بعد بڈاپیسٹ کی سیر کے دوران پتہ چلا کہ خلافت عثمان کی حکومت کے دوران شہریوں کے لیے کافی سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں اور وہاں کا معاشرہ تنگ نظر نہیں تھا۔ خواتین اور حضرات کے لیے سومنگ پول (حمام / پبلک باتھ) تھے اور ان کے ڈنھانچے آج تک موجود تھے۔ یہ سومنگ پول کی ٹکنالوجی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ لوگ پانی کو صاف رکھنے کے علوم پہ دسترس رکھتے تھے اور اس وقت کی سب سے تہذیب یافتہ اقوام میں سے تھے۔ ان میں کچھ پبلک باتھ آج تک کام کر رہے ہیں۔
3۔ وہاں پر ایک صوفی بزرگ گل بابا کا مزار بھی موجود تھا ۔ اس کی تفصیل درج ذیل لنک میں بھی موجود ہے۔ https://en.wikipedia.org/wiki/G%C3%BCl_Baba
اس بزرگ نے کئی سیاحت نامے بھی لکھے تھے جو اس وقت کے مسلم معاشروں کی ترقی یافتہ اور علم دوست سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں، جو درج ذیل لنک سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس کی موت کے وقت 2 لاکھ مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی تھی جو اس وقت کے مسلم معاشرہ کی اجتماعی سوچ کی غماز ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Seyahatname
4۔ ترکوں کی تعمیرات بڈاپیسٹ کی ہر گلی میں آپ کو مل جائیں گی جو اس وقت کی ترقیات کی غماز ہیں۔ ان کی سٹائل پرانے لاہور اور دہلی کی مغل تعمیرات سے ملتے جلتے ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتے ہے کہ مسلم دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل 1500 صدی میں اختیار کر چکی تھی۔
5۔ وقتی حالت کا تجزیہ کریں تو ہنگری کا شہر بڈاپیسٹ ایک صاف ستھرا شہر تھا، جو پاکستان کے سب سے صاف ستھرے شہر سے بھی صاف تھا۔ لیکن وہاں پہ معاشی خوشحالی اس درجے کی نظر نہیں آئی جو یورپ کے بارے میں ہمارے معاشرے آج کل تصور کرتے ہیں۔ جگہ جگہ بھیکاری نظر آئے اور لوگوں کے چہرے بھی غذائی قلت کے شکار نظر آئے۔ البتہ لوگ پرامن تھے۔ وہاں کی ٹریفک آرام دہ اور سستی تھی اور ہوٹل بھی پرسکون تھا۔ اگر روزہ مرہ زندگی میں ٹکنالوجی کے استعمال کو دیکھا جائے تو کورین اور چینی شہروں سے کم ٹکنالوجی تھی۔ کوریا میں تو ٹوائلٹ تک کو مشین پہ منتقل کر دیا گیا ہے لیکن بڈاپیسٹ میں ایسا نہ تھا۔ سکون اور خاموشی ضرور تھی اور لوگوں کے اجتماعی رویے پاکستانیوں سے تو بہتر ہی محسوس ہوئے۔ بڈاپیسٹ کا ائیرپورٹ لاہور کے پاکستانی ائیرپورٹ جتنا تھا۔ شہر کے درمیان سے ایک دریا بہتا تھا جو شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا اور بہت سارے سیاحوں کو کھینچنے کا سبب بھی تھا۔ اس دریا کے دونوں اطراف مشہور بڈاپیسٹ کا قلعہ اور یورپین پارلیمنٹ کی عمارت بھی تھی۔ ہنگری کی معیشت کافی کمزور ہے اور وہاں انڈین کاریں بھی دیکھنے کو ملی۔ وہام کچھ پاکستانی لڑکے بھی دیکھنے کو ملے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ داخل ہو چکے تھے اور مغربی یورپ جانے کی کوشش میں تھے۔
6۔ ہنگری کا ملک پہلی جنگ عظیم میں ایک طاقتور ملک تھا جو دو ملکوں ہنگری ،آسٹریا پرمشتمل تھا۔ جنگ عظیم اول کی بہت ساری یادیں وہاں کے میوزیم میں دیکھنے کو ملی۔ لیکن بدقسمتی سے ہنگری کا معاشعرہ اس جنگ کے بعد اٹھ نہ سکا جس طرح مغربی یورپ کے دیگر تین مملالک نے خود کو دوبارہ اٹھایا تھا۔
اس سارے سفر سے جہاں مسلمان اقوام کے شاندار ماضی کی جھلک دیکھنے کو ملی وہاں یہ تعاثر بھی ختم ہو گیا کہ ماضی کے مسلمان آج کل کے مسخ شدہ مذہبی طبقے کی سوچ رکھتے تھے۔ میری یہ رائے مضبوط ہوئی کہ آج کل کے مسخ شدہ مذہبی گروہوں کا تعلق کسی طور پہ ماضی کی ترقی یافتہ مسلم سوچ سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ طبقہ اس میراث کا وارث ہے۔ دوسری بات یہ کہ زوال اور عروج ایک فطری عمل ہے۔ آج کا طاقتور کل کمزور ہو سکتا ہے۔ ہنگری کی ریاست اگر ایک زمانے میں طاقتور تھی تو آج وہاں انڈین کاریں بک رہی تھیں۔ جدوجہد اور مسلسل کوشش ہی زندگی کی علامت ہے اور یہ میسج ہے پاکستان کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے۔