• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
ہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

ہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • ہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
پاکستانی سیاست وحکمرانی کے المیے — تحریر: محمد عباس شاد
اگست 11, 2017
کوریا اور چین کے لوگوں کی انفرادی و اجتماعی سوچ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
اگست 13, 2017
Show all

ہنگری کی سیاحت کے دوران مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

پچھلے سال اپریل 2016ء ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے دوران پیش آنے والے جدید اور قدیم نوعیت کے واقعات کو قلم بند کرنا ضروری تھا۔ چند مشاہدات قارئین کے گوش گزار ہیں

  1. ہنگری وہ ملک ہے جس کی تہذیب پہ اسلام اور عثمان ترکوں کا گہرا اثر ہے۔ یہ ملک 1541ء سے لے کر1699ء تک کم و بیش 158 سال تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ میرا سب سے پہلا سوال اپنے گائیڈ سے یہ تھا کہ کیا خلافت عثمانیہ کے خلاف ہنگری کے لوگوں میں اس بیرونی حکومت کے خلاف نفرت موجود ہے تو اس کا جواب نفی میں تھا۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ برطانیہ، فرانس، اور سپین کی کالونیوں میں ان مملالک نے معاشی ترقی اور انصاف سے کام نہیں لیا اور ان کی اس حکمرانی کے خلاف لوگوں میں آج تک ہمارے ملکوں میں نفرت موجود ہے۔ کیا خلافت عثمانیہ کے خلاف بھی معاشی استحصال یا اس قسم کی کوئی شکائیت موجود ہے، تو گائیڈ کا جواب بھی نفی میں تھا۔

2۔ اس کے بعد بڈاپیسٹ کی سیر کے دوران پتہ چلا کہ خلافت عثمان کی حکومت کے دوران شہریوں کے لیے کافی سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں اور وہاں کا معاشرہ تنگ نظر نہیں تھا۔ خواتین اور حضرات کے لیے سومنگ پول (حمام / پبلک باتھ)   تھے اور ان کے ڈنھانچے آج تک موجود تھے۔ یہ سومنگ پول کی ٹکنالوجی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ لوگ پانی کو صاف رکھنے کے علوم پہ دسترس رکھتے تھے اور اس وقت کی سب سے تہذیب یافتہ اقوام میں سے تھے۔ ان میں کچھ پبلک باتھ آج تک کام کر رہے ہیں۔

3۔ وہاں پر ایک صوفی بزرگ گل بابا کا مزار بھی موجود تھا ۔ اس کی تفصیل درج ذیل لنک میں بھی موجود ہے۔ https://en.wikipedia.org/wiki/G%C3%BCl_Baba

 اس بزرگ نے کئی سیاحت نامے بھی لکھے تھے جو اس وقت کے مسلم معاشروں کی ترقی یافتہ اور علم دوست سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں، جو درج ذیل لنک سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس کی موت کے وقت 2 لاکھ مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی تھی جو اس وقت کے مسلم معاشرہ کی اجتماعی سوچ کی غماز ہے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Seyahatname

4۔ ترکوں کی تعمیرات بڈاپیسٹ کی ہر گلی میں آپ کو مل جائیں گی جو اس وقت کی ترقیات کی غماز ہیں۔ ان کی سٹائل پرانے لاہور اور دہلی کی مغل تعمیرات سے ملتے جلتے ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتے ہے کہ مسلم دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل 1500 صدی میں اختیار کر چکی تھی۔

5۔ وقتی حالت کا تجزیہ کریں تو ہنگری کا شہر بڈاپیسٹ ایک صاف ستھرا شہر تھا، جو پاکستان کے سب سے صاف ستھرے شہر سے بھی صاف تھا۔ لیکن وہاں پہ معاشی خوشحالی اس درجے کی نظر نہیں آئی جو یورپ کے بارے میں ہمارے معاشرے  آج کل تصور کرتے ہیں۔ جگہ جگہ بھیکاری نظر آئے اور لوگوں کے چہرے بھی غذائی قلت کے شکار نظر آئے۔ البتہ لوگ پرامن تھے۔ وہاں کی ٹریفک آرام دہ اور سستی تھی اور ہوٹل بھی پرسکون تھا۔ اگر روزہ مرہ زندگی میں ٹکنالوجی کے استعمال کو دیکھا جائے تو کورین اور چینی شہروں سے کم ٹکنالوجی تھی۔ کوریا میں تو ٹوائلٹ تک کو مشین پہ منتقل کر دیا گیا ہے لیکن بڈاپیسٹ میں ایسا نہ تھا۔ سکون اور خاموشی ضرور تھی اور لوگوں کے اجتماعی رویے پاکستانیوں سے تو بہتر ہی محسوس ہوئے۔ بڈاپیسٹ کا ائیرپورٹ لاہور کے پاکستانی ائیرپورٹ جتنا تھا۔ شہر کے درمیان سے ایک دریا بہتا تھا جو شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا اور بہت سارے سیاحوں کو کھینچنے کا سبب بھی تھا۔ اس دریا کے دونوں اطراف مشہور بڈاپیسٹ کا قلعہ اور یورپین پارلیمنٹ کی عمارت بھی تھی۔ ہنگری کی معیشت کافی کمزور ہے اور وہاں انڈین کاریں بھی دیکھنے کو ملی۔ وہام کچھ پاکستانی لڑکے بھی دیکھنے کو ملے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ داخل ہو چکے تھے اور مغربی یورپ جانے کی کوشش میں تھے۔

6۔ ہنگری کا ملک پہلی جنگ عظیم میں ایک طاقتور ملک تھا جو دو ملکوں ہنگری ،آسٹریا پرمشتمل تھا۔ جنگ عظیم اول کی بہت ساری یادیں وہاں کے میوزیم میں دیکھنے کو ملی۔ لیکن بدقسمتی سے ہنگری کا معاشعرہ اس جنگ کے بعد اٹھ نہ سکا جس طرح مغربی یورپ کے دیگر تین مملالک نے خود کو دوبارہ اٹھایا تھا۔

اس سارے سفر سے جہاں مسلمان اقوام کے شاندار ماضی کی جھلک دیکھنے کو ملی وہاں یہ تعاثر بھی ختم ہو گیا کہ ماضی کے مسلمان آج کل کے مسخ شدہ مذہبی طبقے کی سوچ رکھتے تھے۔ میری یہ رائے مضبوط ہوئی کہ آج کل کے مسخ شدہ مذہبی گروہوں کا تعلق کسی طور پہ ماضی کی ترقی یافتہ مسلم سوچ سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ طبقہ اس میراث کا وارث ہے۔ دوسری بات یہ کہ زوال اور عروج ایک فطری عمل ہے۔ آج کا طاقتور کل کمزور ہو سکتا ہے۔ ہنگری کی ریاست اگر ایک زمانے میں طاقتور تھی تو آج وہاں انڈین کاریں بک رہی تھیں۔ جدوجہد اور مسلسل کوشش ہی زندگی کی علامت ہے اور یہ میسج ہے پاکستان کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے۔

مناظر: 253
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ