آج پھر ہم 2017ء کے ماہِ اگست میں تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں قیامِ پاکستان کے احوال، واقعات اور اسباب، ہمارے ذرائع نشرواشاعت میں زیربحث ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے حکمران، سیاست دان اور دانش ور طبقے حقائق سے زیادہ خوابوں اور خواہشوں کے اسیر نظر آتے ہیں۔ حال آں کہ آج قیامِ پاکستان کے اسباب سے زیادہ قیام پاکستان کے بعد کے حالات پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان قائم ہوجانے کے باوجود ہمارے مسائل کیوں نہ حل ہوئے، بلکہ زیادہ گھمبیر ہوگئے۔ گزشتہ 70 سالوں سے پاکستانی سیاست پر قابض مافیا ہر سال ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پاکستان کے مصلوب وزیراعظم نے تو آدھا ملک گنوادینے کے بعد قوم کو نیا پاکستان بن جانے کی نوید سنائی تھی۔ اب پھر ایک جماعت عوام کو ’’نیا پاکستان‘‘ بناکر دینے کا خواب دکھا رہی ہے اور پاکستان پر گزشتہ تیس سال سے قابض خاندان نیا پاکستان بناتے بناتے پُرانے کو بھی چاٹ چکا ہے، جو یہاں صرف حکمرانی کرتا ہے، باقی اس کا سب کچھ بیرونِ ملک ہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے عوام کو اغیار کی غلامی سے ڈرایا جاتا تھا، بلکہ انگریز حکمرانوں سے بعض جماعتوں نے باقاعدہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ یہاں سے جانے سے پہلے اپنی نگرانی میں ہمیں خود مختاری اور آزادی دلوا کر جائیں۔ کیوں کہ ہمیں خطرہ ہے کہ آپ کے جانے کے بعد ہندو ہمیں غلام بنالیں گے۔ آج اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمیں غلام کس نے بنایا؟ یہاں حکمرانی کس کی رہی ہے؟ کیا پاکستان پر کسی ہندو، سکھ یا عیسائی خاندان یا جماعت نے حکومت کی؟ یقیناًنہیں! پاکستان میں صرف پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ ہی نام بدل بدل کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ پاکستان میں حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف کی بیش تر جماعتوں نے مسلم لیگ ہی کے بطن سے جنم لیا ہے۔ پہلے ایک نام سے عوام کا استحصال کیا۔ پھر بھیس بدل کر نئے نام کے ساتھ عوام کے سامنے آگئے۔ کیوں کہ الیکشن پراسیس عوام کی مرضی اور خواہش سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش اور مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ وہ جس کے سر چاہیں اقتدار کا سہرا باندھ دیں۔ اقتدار کی اس جنگ میں نظام کے خلاف کسی پارٹی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ اپنے اپنے مفادات کے تحت ہر پارٹی نے ملک کے فرسودہ اور بوسیدہ نظام کو ایک نئی زندگی دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس نظام کو بچانے کے لیے انتخابی دنگل میں ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف پارٹیوں نے بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک دوسرے کے اتحادی کا کردار ادا کرکے اس نظام کو بیساکھیاں فراہم کی ہیں۔ آج بھی ملک میں عوام دشمن نظام کی موجودگی انھیں پارٹیوں کے باہمی تعاون کی مرہونِ منت ہے۔ گویا یہ پارٹیاں اور ظالمانہ نظام لازم وملزوم ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔
پاکستانی عوام کی بدحالی اور بدقسمتی کی بڑی وجوہات میں یہاں کی کرپٹ قیادت اور ظالمانہ استحصالی نظام اہم ترین وَجہ رہی ہے۔ اور یہ دونوں عوام کے خلاف آپس میں اتحادی ہیں۔ انگریز جاتے ہوئے اپنا نظام اپنے انھیں خاندانی وفاداروں کے سپرد کرکے گیا تھا، جنھوں نے اس نظام کے تحفظ کا انھیں حلف دیا تھا۔ جس کے شواہد تاریخ نے آج تک محفوظ رکھے ہیں۔ اور آج تک ہمارے سیاست دان اور حکمران پارٹیاں اس حلف کو عہد بہ عہد نبھاتی چلی آرہی ہیں۔
یہاں ہر میدان میں بدعہدی ہوئی ہے۔ اگر نہیں ہوئی تو بیرونی طاقتوں کے ساتھ ان کے نظام کے تحفظ کے معاملے میں ہمارے حکمران ’’صادق وامین‘‘ رہے ہیں اور ہر حکمران نے انھیں مطمئن رکھا ہے۔ ہمارے نظام کی گاڑی کا ماڈل سامراجی اور ڈرائیور بیرونی قوتوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ گاڑی جتنی بھی اعلیٰ ہو، ناتجربہ کار ڈرائیور کی حماقت گاڑی میں سوار سب کی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ جیسا دودھ ہو، اس سے ویسا ہی مکھن نکلتا ہے۔ پاکستانی سیاست کے کنویں سے ظالمانہ نظام کا کتا نکالے بغیر اسے پاک کرنے کے سب حیلے رائیگاں ہیں۔ خواہ وہ انتخابات کا ڈول ہو یا احتساب کا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے پاکستانی سیاست بہ ظاہر بدلتی نظر آتی ہے، لیکن اس تبدیلی میں عوام اور پسے ہوئے طبقات کے لیے کوئی مستقل خوشی کا سامان نہیں ہے۔ ایک عارضی خوشی ضرور ہے، جو آہستہ آہستہ دم توڑ دے گی۔ جسے عوام چند دن ضرور انجوائے کریں گے، پھر جو نئے حکمران ٹولے کی صبح عروج ہوگی، وہی عوام کا وقتِ زوال ہوگا۔ کیوں کہ یہ تبدیلی مستقل اور مکمل نہیں ہے، یہ عارضی اور جزوی ہے۔ دونوں طرف اسی نظام کے محافظ کھڑے ہیں۔ وہ دونوں اسی نظام کے اندر کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ایمپائر بھی اسی نظام کے اندر کا ہی ہے، جس کی انگلی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف کی قوتوں کی کمٹمنٹ ایک ہی نظام سے ہے اور یہ دونوں عوام کے خلاف عوام دشمن نظام کے اتحادی ہیں۔ جب ایک جتھا اپنی نااہلی اور حماقتوں کے سبب نظام کو بچانے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دوسرے جتھے کو آگے آنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ نظام گرنے نہ پائے اور سسٹم کو تازہ دم کندھا فراہم کردیا جائے۔
اگست کا مہینہ جو خطے میں بڑی تبدیلی اور استعمار کی واپسی کا مہینہ ہے، جو عوام کو وسیع تر تناظر میں تبدیلیوں کی طرف متوجہ کرکے تاریخی عمل کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، انھیں اس وقت اس پوائنٹ پر ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں ظالمانہ نظام کی مستقل اور مکمل تبدیلی میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ اور اس عوام دشمن نظام کی محافظ قوتوں کے آپسی رشتے کیا ہیں؟ اور ان کے درمیان اختلافات کے باوجود جو پُل بنایا جاتا ہے، جو پُرانے محافظوں کو نئے کھلاڑیوں تک پہنچاتا ہے اور وہاں وہ عوام کو ایک نئے پاکستان کا جھانسہ دے کر اسی پرانے نظام کو رنگ وروغن کا سامان فراہم کرنے لگ جاتے ہیں۔ آخر یہ کیا کھیل ہے؟ اور اس سے ہماری گلو خلاصی کیسے ممکن ہے؟
مناظر: 105