زمانہ طالب العلمی سے ہی بندہ جب کائنات پر نگاہ ڈالتا اور مذاہب عالم کا مطالعہ کرتا تھا تو چند سوالات بڑے چھبتے تھے کہ جب بنی آدم ایک ہی جنس ہے اور ایک ہی خدا کی مخلوق ہے تو ان میں باہم اتنا تنافر کیوں ؟ خدائی پیغام میں اتنا اختلاف کیوں ؟ کون حق پر ہے کون باطل پر ؟ رضائے الہی کا ظہور کس شکل میں ہے ؟ ان سوالات کو سوچ کر ہیومن ازم کی طرف طبعی میلان بھی پایا جاتا تھا جو در اصل بڑی بے دینی ہے۔
لیکن جب سے شاہ صاحب کو پڑھنا شروع کیا تو ان سوالات کی وجہ سے بے چین طبیعت کو سکون ملا شاہ صاحب نے حجة اللہ البالغہ البدور البازغہ الخیر الکثیر الطاف القدس تفہیمات اور السطعات میں یہ تصور پیش کیا کہ تمام ادیان ایک ہی سرچشمہ کا فیضان ہے لیکن بعد میں اس میں لوگوں نے تبدیلیاں کی ہیں اب دین مکمل اور غیر محرف شکل میں قرآن ہے اور قرآن ہی وہ کتاب ہے جو صحیفہ فطرت اور پیام انسانیت ہے۔ شاہ صاحب نے اسلام کی آفاقیت اس انداز میں پیش کی ہے کہ انہوں نے چند فطری سوالات اٹھا کر اس کے جواب میں اسلام کے پیغام کو پیش کیا ہے جس سے ان سوالات کا مکمل جواب مل جاتا ہے جب کہ دیگر تمام فلسفوں میں اس کا جواب مکمل نہیں ملتا ہے جس سے انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے۔
”بنی نوع انسانی کے کیا خواص ہیں؟ انسانیت کے بحیثیت مجموعی کیا تقاضے ہیں؟ انسان اپنی زندگی کو کس طرح منظم کرتے ہیں؟ ان کے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ ان تعلقات ورواجات میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی ہی مختصرا انسانیت کیا ہے اس کی روح کیا چاہتی ہے اس کے بدن کے کیا اقتضاءات ہیں؟ اس کائنات میں اس کا کیا مقام ہے اس کا خالق کے ساتھ کیا رشتہ ہے“؟
لہذا جو بھی انسان حق کا متلاشی ہو چاہے وہ یورپ کا باشندہ ہے یا امریکہ کا یا چاہے ایشیاء کا وہ ان سوالات کے جوابات کو شاہ صاحب کی مندرجہ بالا کتابوں سے سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ دین اسلام کو دین فطرت وحق ماننے پر مجبور ہوگا۔
مناظر: 69