امریکہ جو اپنی بین الاقوامی قیادت کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے شروع میں اسلامی دہشت گردی کے نام سے ایک طرف تو اسلام کی آئیڈیالوجی کو نقصان پنہچایا تو دوسری طرف مشرق وسطی کے اندر وہ آوازیں دبا دیں جو سامراج مخالف تھیں۔ لیکن اس دوران چائینہ کی بین الاقوامی پہچان بن گئی۔ اب رشیاء بھی ایک طاقت کے طور پہ ابھر رہا ہے تو چین اور رشیا کے اتحاد نے امریکہ کو بوکھلا کے رکھ دیا ہے۔ یورپی یونین کے اپنے مسائل ہیں اور وہ اندرونی تنازات کی وجہ سے دنیا میں کوئی جامع کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ان حالات میں یہ تین ملک ہی بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔
مشرق وسطی میں سامراج کے پیدا کردہ دہشت گرد ناکام ہو رہے ہیں، عراق اور شام دونوں میں۔ عربی ٹولہ بھی پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے اور قطر الگ نظر آ رہا ہے۔ صومالیہ جیسے ملک نے بھی سعودی دباؤ برداشت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ترکی بھی اب رشیاء کی طرف مائل نظر آ رہا ہے۔
امریکہ کو اپنی ساکھ اور چوہدراہٹ کو برقرار رکھنا ہے۔ مشرق وسطی کی ناکامی کی اصل وجہ تو پوٹن ہی ہے۔ پوٹن کی معاشی طاقت چین ہے۔ روس اور چین سے براہ راست تو لڑ نہیں سکتا،اب ان دونوں میں چین اس کو زیادہ آسان ہدف نظر آ رہا ہے۔ ، تو چین کو سبق سکھانے کے لیےاپنے پیادے میدان میں اتار رہا ہے۔
مودی سامراج کا ایک بہت بڑا پیادہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ایک طرف تو مودی اور سنگھ کے لوگ اسلام کا وہی عکس پیش کر رہے ہیں جو امریکہ، سی این این اور یورپ پیش کرتا آیا ہے، جو اصل اسلام اور حقائق کے برعکس ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے اندر لوگوں کو پولیس اور سماج کے باقی اداروں کے ذریعے شدت پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں اور کھانے پینے کے معاملات میں دخل اندازی کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو بریلوی، صوفی اور دیوبندی کے نام پہ ہندوستان میں سنگھ کے لوگ تقسیم کر رہے ہیں اور کبھی ٹرپل طلاق کو موضوع بنا کر۔ خیر یہ ایک لمبی لسٹ ہے۔ اب مودی چین کے ساتھ بارڈر کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سی پیک کی مخالفت کر رہا ہے، جبکہ اپنا کشمیر تو اس سے سنبھل نہیں رہا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے اندر چین کے خلاف ایک نفرت بھر رہاہے ۔ چین کے سلک روڈ کے پراجیکٹ کے متوازی نیو سلک روڈ کے نام سے مودی ایک پراجیکٹ شروع کر رہا ہے، جس کو فنڈنگ امریکہ کے حمایت یافتہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کریں گے۔
مودی کے علاوہ تائیوان سے اسلحہ کی ڈیل کر کے چین کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور پورا سامراج کا میڈیا اس کو کور دے رہا ہے۔ سنگاپور چین کی ایک دکھتی رگ ہے۔ سنگاپور کے لوگ 1998ء تک بریٹش کے ساتھ رہے ہیں، ان کے سوچنے کا انداز اور کلچر چین کے لوگوں سے مختلف ہو گیا ہے۔ اب غلامی کے اندر رہنے والی ہانگ کانگی لوگ چند سالوں میں چینی رنگ کو قبول نہیں کریں گے، تو اس بات کا فائدہ اٹھا کر امریکہ ایک بار پھر اس تناضع کو ہوا دے رہا ہے۔ لیکن چینی اب کافی سمجھدار ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف فلپین بھی امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور فلپینی صدر کو سبق سکھانے کے لیے وہاں غیر اسلامی دہشت گرد بھیجے جا رہے ہیں۔
سی پیک کو تباہ کرنے کے لیے فوج کے پرانے چیف کے خلاف پراپیگنڈا، چند ایک بلوچ باغیوں کی سپورٹ کر کے دھماکے کروانا اور بلوچستان کو الگ کرنے کی سازش کرنا، سی این این میں ہر وقت بلوچستان کا موسم کا حال بتانا اور کوئیٹہ کو ایگ دکھانا۔ اب نئی بحث شروع کروانا کہ چین پاکستان کو کالونی بنا لے گا۔ پاکستان کو تباہ چین نے نہیں یہاں کے حکمرانوں نے کیا ہوا ہے، جن کو مال بنانے اور ذاتیات سے اوپر اٹھنے کی توفیق ہی نہیں ہے۔ اصل میں امریکہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے من مانے فیصلوں پہ عمل نہیں کروا رہا، اسی لیے اب فوج بھی بری لگ رہی ہے اور چین کی دوستی بھی۔
چین کو غیر ذمہ دار ملک ثابت کرنے کے لیے امریکہ یہ بھی کہ رہا ہے کہ چین شمالی کوریا کو لگام نہیں دے رہا اور اس سے تجارت کرتا ہے۔ جبکہ چین نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام بند کرنا ہے تو امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں بند کرے اور جنوبی کوریا میں اپنا مزائل پروگرام بند کرے۔
یہ سارے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اب چین کے پیچھے پڑ گیا ہے اور پاکستان کو اس وقت سنبھل کر چلنا ہوگا اور اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔