زھد باطنی اخلاق سے ہے، جس کا مطلب دنیا سے بے رغبتی اور بے پرواہی ہے ۔ باطنی اخلاق سے مراد وہ خوبیاں اور اوصاف ہیں جنہیں انسان خودمحسوس کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس انسان نے اپنی ذات پہ کتنی محنت کی ہے اور کس حد تک اپنا تزکیہ نفس کیاہے۔ تزکیہ نفس کا ظہور اعلیٰ اخلاق سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے معاملات میں خدا خوفی ،عدل اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے گویا اس نے اپنا تزکیہ کیا ہے۔جو ان باتوں کا خیال نہیںکرتا ،بے خوفی، ظلم اور احسا سِ جواب دہی کے بغیر معاملات زندگی لے کر چلتا ہے تو اس نے تزکیہ نفس نہیں کیا۔ زھد باطنی اخلاق سے ہے، جس کا مطلب دنیا سے بے رغبتی اور بے پرواہی ہے ۔ باطنی اخلاق سے مراد وہ خوبیاں اور اوصاف ہیں جنہیں انسان خودمحسوس کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس انسان نے اپنی ذات پہ کتنی محنت کی ہے اور کس حد تک اپنا تزکیہ نفس کیاہے۔ تزکیہ نفس کا ظہور اعلیٰ اخلاق سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے معاملات میں خدا خوفی ،عدل اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے گویا اس نے اپنا تزکیہ کیا ہے۔جو ان باتوں کا خیال نہیںکرتا ،بے خوفی، ظلم اور احسا سِ جواب دہی کے بغیر معاملات زندگی لے کر چلتا ہے تو اس نے تزکیہ نفس نہیں کیا۔ زھد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان کاروبار وتجارت ختم کر دے، والدین،بیوی بچوں اور دوست واحباب سے تعلقات منقطع کر دے۔ صحراء وجنگل میں بسیرا کرلے یا گوشہ نشیں ہوجائے۔ زھد کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اپنے دل کودنیا کی محبت سے خالی کرنا، دنیاو آخرت کے مقابلے میں آخرت کوترجیح دیناہے۔ انسان ’’محسوسات‘‘ کا قیدی ہے، وہ محسوسات کو ہی اپنا سب کچھ خیال کر بیٹھتا ہے اس لئے اس کا دل دنیا اور اشیاء دنیا کے ساتھ زیادہ وابستہ ہوتاہے۔ مال اور اولاد کواللہ تعالیٰ نے آزمائش فرمایا ہے کیونکہ ان کی محبت میں انسان سب کچھ کر گزرتا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں ہیں کہ انسان دنیا کی محبت میں اتنا غرق ہوجائے کہ اسے ماسوا دنیاسب کچھ بھول جائے یا وہ اتنا ’’دیندار‘‘ بن جائے کہ کاروبار زندگی کو معطل کردے۔ دوسرا راستہ ’’غلو‘‘ کا راستہ ہے جس کی شریعت میں بہت ہی تردید آئی ہے۔ دین کی تعلیم فقط یہ ہے کہ ’’دنیا کواندر سے نکال دو، دنیا کے اندر سے نہ نکلو۔ رسول اللہﷺ کی حدیث کے مطابق آپ نے فرمایا’’میں رات کے کچھ حصے عبادت کرتا ہوں اورآرام بھی کرتا ہوں میں شادیاں بھی کرتا ہوں ، روزے رکھتا ہوں اورکبھی نہیں بھی رکھتا‘‘ ایک مومن کے لئے زندگی گزارنے کا طریقہ اس مختصر حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے ۔اگرایک شخص ساری رات عبادت کرے گا۔ وہ دن میں روزگار اور کاروبار کے لئے طاقت اور سکت نہیںرکھے گا۔ اگر وہ شادی نہیں کرے گا باوجود استطاعت وقوت … اِس کے اثرات بھی اس کی ذات پہ مرتب ہوں گے۔ اسی طرح جوشخص ساری زندگی روزہ رکھنے کا ارادہ کرکے ترکِ دنیا اختیارکرتا ہے تو وہ عملی زندگی میں ضعف اور عدمِ دلچسپی کامظاہرہ کرے گا۔ اس لئے اس سے دین کاتقاضا یہی ہے کہ وہ ارکان واحکام پہ عمل کرے۔کیونکہ ارکان و احکام پہ عمل کر کے مومن عملی زندگی کے لئے تیار ہوتا ہے۔اللہ تعالی کی طرف سے فرض کردہ احکام انسان سے اتنا وقت لیتے ہیں جتنا وقت اس کی ذات اور معاملات پہ بھاری نہیں ہوتا۔ اگر یہ تین اعمال ’’زھد‘‘ کہلاتے تو رسول اللہ ﷺ اپنے تین صحابیوں کو اس پہ عمل جاری رکھنے کی تلقین فرماتے ، آپ نے ان کے سامنے اپنا اسوئہ پیش کیا جس سے معلوم ہوا زھد دنیاسے ’’ظاہری علیحدگی‘‘ کا نام نہیں بلکہ ’’باطنی علیحدگی‘‘ کا نام ہے۔ قرآن مجید نے دنیا کا بیان تذکیرو انذاز کے پہلو سے کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اورانسان نے اس کے بعد ایک ایسے عالَم میں مستقل قیام اختیار کرنا ہے جو اس دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے دنیا کی زندگی کو ’’لھوولعب‘‘ بھی کہا گیا… جو پلک جھپکتے گزر جاتی ہے… انسانی تاریخ بتاتی ہے انسان اپنی افتادِ طبع کے باعث، ان دونوں انتہائوں میں سے کسی ایک انتہا پہ رہنے کا رحجان رکھتا ہے۔ وہ یا کلی طور پر دنیا کے مسائل و مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے رھبانیت کا راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر دنیا میں اس طرح مصروف و مشغول ہوتا ہے کہ خدا اوردین کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اکثر اوقات اس کی ہوس و حرص کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ خدااوردین سے بغاوت اختیار کرتے ہوئے ، ضلالت و کفر کی گہرائی میں جا گرتا ہے…دین کا راستہ کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے… دین دنیا سے نکلنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ دنیا کو اپنے اندر سے نکال دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر تعلیم و تربیت کا یہ منہج ہو تو معاشرے سے حرص و ہوس ،لالچ و طمع کا کلچر ختم ہو سکتا ہے ۔ زھد کی صفت ہمیں’’رزقِ حلال‘‘ پہ قانع کر دیتی ہے جس کے بعد اِدھر اُدھر دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی………