اگروہ اب موجود ہوتی تو میں اس سے کہتا جو تقسیم نفرت کی بنیاد پہ ہوئی تھی شاید اس کو قا ئم رکھنے کے لیے بھی نفرت کی نطریاتی و فکری خوراک دونوں طرف سے بہم پہنچائی جا رہی ہے، جب بھی آنکھوں کی اور گلے کی نمی کے ساتھ وہ پارٹییشن کا قصہ سناتی تواس کی آنکھوں سے آنسو باہر گرتے اور میرے نہ جانے کیو ں اندر اور میں اندر سے بھیگ جاتا۔ شاید کہ ہجرت کا دکھ ہوتا ہی بہت گہرا ہے
بچپن ہی سے نہ جانے کیوں میں اندر کے صحرا کی ویرانی کو کم کرنے کے لیے صحرا کا رخ کرتا تھا عجب سا سیم و تھور تھا جس کا زہر نسوں میں شامل ہو کر سانسوں کا حصہ بنتا جا رہا تھا اور اب وقت کے ساتھ سوچوں اور خیالوں میں اس کا زہر رستا جا رہا ہے ویرانی کو ختم کرنے کے لیے ویرانی کی طرف جانا،اس عقوبت میں بھی اب سکوں ملتاہے محسوسات کے سفر میں ہم کو ہجرتوں اور وحشتوں کے ایک فیز سے گزرنا پڑتا ہے
میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا جب چچا کے ہاں ملنے فورٹ عباس گیا ان کا گاؤں بارڈر سے 5 کلومیٹر دور تھا کزنز کے ساتھ مل کر بارڈر دیکھنے کے لیے گئے،بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ ہمارے دشمن ادھر رہتے ہیں اور ماسٹر جی تو اکثر ہی کہتے کہ انڈیا تو ٹینک پر ہی بیٹھ کر جانا چاہیے، میرے دل میں اس نفرت کی لکیر کو دیکھنے کا شوق تھا جس سے گزرتے ہوئے بزرگوں نے جانوں کی قربانی دی
ہم پیدل چل کر بارڈر پہنچے سب سے پہلے تو دریائے کھاگرہ کی تہزیب چھانی، کانٹوں والے رستے تھے،رستے میں سے ڈیلے اور بیر کھائے، علی نے ہمارے لیے چھوٹا شہد نکالا، ہم اس کی کا ری گری پر حیران ہوئے، تازہ دودھ کی چائے کا لمس ابھی تک محسوس ہوتاہے، اس چائے کی چاہ میں چاہت،ساتھ میں وہ اپنائیت،وہ بچپن کی یاد اب بھی باقی ہو جیسے۔
انکل ہمیں بتاتے جارہے تھےا یک جگہ کنارے پر وہ رکے اور انہوں نے مشرق کی طرف دیکھا اور آنکھوں کی نمی کو چھپاتے ہوئے اشارہ کیا، دریائے کھاگرہ اور سر حد کے کنارے کھڑے ہو کر کہ یہاں سے کچھ دور انڈیا میں بیکا نہر، اور وہاں 50 ریڑھ پر اپنا گاؤں۔۔۔ جہاں سے پرکھوں نے ہجرت کی۔۔ پھر میرا وہی بچگانہ سوال، ساتھ رہتے تھے تو جدا کیوں ہوئے، انکل اسی طرح مسکرائے اور جواب وہی دادی ماں والا دیا “نفرت”۔۔ اب سوچتا ہوں اگر اب جانا ہو تو، اس دفعہ، ہم اپنی طرف کی نفرت کو “برف پہ لکھیں،اس کوپگھلتے دیکھیں، پھر اس کو بھاپ بن کر اڑتا دیکھیں، بخارات کو سرحد پار جاتے دیکھیں۔بتائیں نفرتوں کی کیا اوقات ہوتی ہے، ہمیشہ محبت رہیتی ہے جس کی کو کوئی سرحد نیہں ہوتی۔
گھر والے کھالے کے کنارے کنارے چلتے ہم ھاکڑہ کے کنارے پہنچے۔ پھر نہر کے کنارے بیتا ماضی تلاش کرنے لگے۔ میرا بچپن دادی سے کہانیاں سنتے گزرا دادی جان بہت محبت کرتی تھیں اور میں کہانیوں کے شوق میں ان کے پاس چلا جاتا،وہ جو بھی کہانی سناتیں، آخر میں پارٹیشن والی ہجرت کا واقعہ ضرور سناتیں، ہر طرف تلواروں اور برچھیوں پکڑے اپنے ساتھ صدیوں سے اکٹھے رہنے والوں کا خون کر رہے ہیں، بزرگوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا،ادھر گاوں کے گاوں مقتل گاہ بنے ہوئے تھے،ادھر دادی کے والدین کو قتل کر دیا گیاجب وہ یہ بتاتیں کہ کیسے وہ لوگ ھاکڑہ کے کنارے آئے، کیسے کٹی لاشیں تیر رہی تھیں اس نہر میں ۔۔۔ کیسے خوف میں چلنا مشکل ہوتاہے، دوسری طرف کچھ لوگ انسانیت اور بھائی چارے کی لاج رکھتے ہوئے کیسے تمہارے دادا ور پردادا( راجپوتوں) کی حفاظت سکھ دوست کر رہے تھے نفرت میں بھی محبت ۔۔ کیسے انہوں نے اپنے ماں باب کھوئے، یہ بتاتے ان کی آنکھوں میں آنسو اتر آتے، میں نے ایک دفعہ پوچھا سارے سکھ اور ہندوں برے ہوتے تھے، وہ بولی، بس ظالم برے ہوتے ہیں ان کا مذہیب یا دھرم نہیں ہوتا، تمہارے دادا کی حفاظت ان کے سکھ دوستوں نے کی تھی، میں خاموش ہو جاتا ، پھر میں سوچتا کہ بڑا ہو کر قاتلوں کو جانے گے، اور اب تو حالات ہی اور ہیں قاتل، مقتول کو پہچاننا ہی مشکل ہو گیا ، ظالم نے اتنے روپ دھار رکھے ہیں کہ اس کو اب پہچاننا مشکل ہے اب تو وہ نظام کی شکل اختیار کر چکے ہیں،اب 70سال سے عجیب سی آزادی میں رہتے ہیں
جب قیدی شور مچاتے ہیں
زنجیر بدل دی جا تی ہے
اب کہ سوچا ہے ہجرت کر کے کہا ں جاہیں گے؟ اگر ظالم نئے روپ میں آگیا تو، اب تو ظالم کو پہچاننا ہے اور اس سے انسانیت کو بچاناہے
ھاکڑہ کے کنارے پہنچے، بھر دادی اماں کے درد کو محسوس کرنے لگے۔۔۔ “کہ ہجر اور ہجرت میں فرق ہی کیا ہوتا ہے”