• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
ہجرت — تحریر: پھول حسینہجرت — تحریر: پھول حسینہجرت — تحریر: پھول حسینہجرت — تحریر: پھول حسین
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

ہجرت — تحریر: پھول حسین

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • ہجرت — تحریر: پھول حسین
اور آزادی مل گئی — تحریر: عثمان حبیب ۔۔کراچی
اگست 17, 2017
زھد کیا ہے ؟ (ایک غلط فہمی کا ازالہ) — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
اگست 18, 2017
Show all

ہجرت — تحریر: پھول حسین

اگروہ اب موجود ہوتی تو میں اس سے کہتا جو تقسیم نفرت کی بنیاد پہ ہوئی تھی شاید اس کو قا ئم رکھنے کے لیے بھی نفرت کی نطریاتی و فکری خوراک دونوں طرف سے بہم پہنچائی جا رہی ہے، جب بھی آنکھوں کی اور گلے کی نمی کے ساتھ وہ پارٹییشن کا قصہ سناتی تواس کی آنکھوں سے آنسو باہر گرتے اور میرے نہ جانے کیو ں اندر اور میں اندر سے بھیگ جاتا۔ شاید کہ ہجرت کا دکھ ہوتا ہی بہت گہرا ہے

بچپن ہی سے نہ جانے کیوں میں اندر کے صحرا کی ویرانی کو کم کرنے کے لیے صحرا کا رخ کرتا تھا عجب سا سیم و تھور تھا جس کا زہر نسوں میں شامل ہو کر سانسوں کا حصہ بنتا جا رہا تھا اور اب  وقت کے ساتھ سوچوں اور خیالوں میں اس کا زہر رستا جا رہا ہے ویرانی کو ختم کرنے کے لیے ویرانی کی طرف جانا،اس عقوبت میں بھی اب سکوں ملتاہے محسوسات کے سفر میں ہم کو ہجرتوں اور وحشتوں کے ایک فیز سے گزرنا پڑتا ہے

میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا جب چچا کے ہاں ملنے فورٹ عباس گیا ان کا گاؤں بارڈر سے 5 کلومیٹر دور تھا کزنز کے ساتھ مل کر بارڈر دیکھنے کے لیے گئے،بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ ہمارے دشمن ادھر رہتے ہیں اور ماسٹر جی تو اکثر ہی کہتے کہ انڈیا تو ٹینک پر ہی بیٹھ کر جانا چاہیے، میرے دل میں اس نفرت کی لکیر کو دیکھنے کا شوق تھا جس سے گزرتے ہوئے بزرگوں نے  جانوں کی قربانی دی

ہم پیدل چل کر بارڈر پہنچے سب سے پہلے تو دریائے کھاگرہ کی تہزیب چھانی، کانٹوں والے رستے تھے،رستے میں سے ڈیلے اور بیر کھائے، علی نے ہمارے لیے چھوٹا شہد نکالا، ہم اس کی کا ری گری پر حیران ہوئے، تازہ دودھ کی چائے کا لمس ابھی تک محسوس ہوتاہے، اس چائے کی چاہ میں  چاہت،ساتھ میں وہ اپنائیت،وہ بچپن کی یاد اب بھی باقی ہو جیسے۔

انکل ہمیں بتاتے جارہے تھےا یک جگہ کنارے پر وہ رکے اور انہوں  نے مشرق کی  طرف دیکھا اور آنکھوں کی نمی کو چھپاتے ہوئے اشارہ کیا، دریائے کھاگرہ اور سر حد کے کنارے کھڑے ہو کر کہ یہاں سے کچھ دور انڈیا میں بیکا نہر، اور وہاں 50 ریڑھ پر اپنا گاؤں۔۔۔ جہاں سے پرکھوں نے ہجرت کی۔۔ پھر میرا وہی بچگانہ سوال، ساتھ رہتے تھے تو جدا کیوں ہوئے، انکل اسی طرح مسکرائے اور جواب وہی دادی ماں والا دیا “نفرت”۔۔ اب سوچتا ہوں اگر اب جانا ہو تو، اس دفعہ، ہم اپنی طرف کی نفرت کو “برف پہ لکھیں،اس کوپگھلتے دیکھیں، پھر اس کو بھاپ بن کر اڑتا دیکھیں، بخارات کو سرحد پار جاتے دیکھیں۔بتائیں نفرتوں کی کیا اوقات ہوتی ہے، ہمیشہ محبت رہیتی ہے جس کی کو کوئی سرحد نیہں ہوتی۔

گھر والے کھالے کے کنارے کنارے چلتے ہم ھاکڑہ کے کنارے پہنچے۔ پھر نہر کے کنارے بیتا ماضی تلاش کرنے لگے۔ میرا بچپن دادی سے کہانیاں سنتے گزرا دادی جان بہت محبت کرتی تھیں اور میں کہانیوں کے  شوق  میں ان کے پاس چلا جاتا،وہ جو بھی کہانی سناتیں، آخر میں پارٹیشن والی ہجرت  کا واقعہ ضرور  سناتیں، ہر طرف تلواروں اور برچھیوں  پکڑے اپنے ساتھ صدیوں سے اکٹھے رہنے والوں  کا خون کر رہے ہیں، بزرگوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا،ادھر گاوں کے گاوں مقتل گاہ بنے ہوئے تھے،ادھر دادی کے والدین کو قتل کر دیا گیاجب وہ یہ بتاتیں کہ کیسے وہ لوگ ھاکڑہ کے کنارے آئے، کیسے کٹی لاشیں تیر رہی تھیں اس نہر میں ۔۔۔ کیسے خوف میں چلنا مشکل ہوتاہے، دوسری طرف کچھ لوگ انسانیت اور بھائی چارے کی لاج رکھتے ہوئے کیسے تمہارے دادا ور پردادا( راجپوتوں) کی حفاظت سکھ دوست  کر رہے تھے نفرت میں بھی محبت ۔۔ کیسے انہوں نے اپنے ماں باب کھوئے، یہ بتاتے ان کی آنکھوں میں آنسو اتر آتے، میں نے ایک دفعہ پوچھا سارے سکھ اور ہندوں برے ہوتے تھے، وہ بولی، بس ظالم برے ہوتے ہیں ان کا مذہیب یا دھرم نہیں ہوتا، تمہارے دادا کی حفاظت ان کے سکھ دوستوں نے کی تھی، میں خاموش ہو جاتا ، پھر میں سوچتا کہ بڑا ہو کر قاتلوں کو جانے گے، اور اب تو حالات ہی اور ہیں قاتل، مقتول کو پہچاننا ہی مشکل ہو گیا ، ظالم نے اتنے روپ دھار رکھے ہیں کہ اس کو اب پہچاننا مشکل ہے اب تو وہ نظام کی شکل اختیار کر چکے ہیں،اب 70سال سے عجیب سی آزادی میں رہتے ہیں

جب قیدی شور مچاتے ہیں

زنجیر بدل دی جا تی ہے

اب کہ سوچا ہے ہجرت  کر کے کہا ں جاہیں گے؟ اگر ظالم نئے روپ میں آگیا تو، اب تو ظالم کو پہچاننا ہے اور اس سے  انسانیت  کو بچاناہے

ھاکڑہ کے کنارے پہنچے، بھر دادی اماں کے درد کو محسوس کرنے لگے۔۔۔ “کہ ہجر اور ہجرت میں فرق ہی کیا ہوتا ہے”

مناظر: 222
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ