کیا میں قابل ہوں؟ کیا واقعی ؟ ذرا دوبارہ کہہ دیجئے ،ایک ایسا جملہ جسے سن کر ہماری قوم کے اکثریت طلبہ کو بمشکل یقین آتا ہے۔کیونکہ ہما رے معاشرے میں قابلیت کا معیا ر تو ایک ہی ہیں ، امتحان میں ذیادہ نمبروں سے کامیابی۔اگرچہ اچھے نمبر سخت محنت کا اظہارہے لیکن صر ف اسی کو قابلیت قرار دینا درست نہیں۔اور اس بنا پہ طلبہ کی حوصلہ شکنی کرنا انکی صلاحیتوں کو دبانے کے مترادف ہے۔چلو ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ آپ کے نمبر کم اگئے ، آپ نے کسی ٹسٹ کو فیل کردیا ، کسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،آپ جس کامیابی کے متمنی تھے وہ آپ سے کوسوں دور چلی گئی ،تو کیا ہوا۔؟ کیا زندگی ختم ہوگئی ؟ کیا مقصد حیات نہ رہا؟ کیا آپ دنیا کے واحد شخص ہے جسے ناکام ہونا پڑا؟ کیا آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے؟ یقینا نہیں ۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو دوبارہ سوچئے۔ تھامس ایڈیسن نے ہزاروں تجرباتی ناکامیوں کے بعد بلب ایجا د کیا۔لوئیس پاسچر (کیمسٹ و مائیکروبیالوجسٹ)کو اس کے کیمسٹری کے استاد نے اوسط درجےکا طالبعلم بتلایا ۔ بیتھون کو بتایا گیا کہ وہ اچھا موسیقار نہیں بن سکتا ۔لیکن آج بیتھون کے موسیقی اورپاسچر کے سایئنسی کارناموں کوساری دنیا تسلیم کرتی ہے ۔ اللہ تعالی سورۃ التین آیات نمبر 4 میں فرماتے ہیں ” ہم نے انسان کو بہترین پیمانے پر پیدا کیا” ۔یہ ممکن ہی نہیں کہ دنیاکے کسی انسان میں کوئی بھی صلاحیت نہ ہو۔وہ بالکل بےکار ہو، کسی کام کا لائق نہ ہو۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے ذہن سے نالائق ، کام چور یا نکمے جیسے تصورات نکال دیجئے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت موجودہے ،ضرورت ان صلاحیتوں کو پہچاننے کی ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انسانی عقل و صلاحیتیں برابر تر قی و نشو نما کرتی رہتی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ صلا حیتو ں میں اضا فہ ممکن نہیں تو دوبارہ سوچیں ۔۔کیونکہ عقل ( قابلیت) ایک جگہ پر ٹھہرتی نہیں بلکہ اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیسے؟ سب سے پہلے تو آپ کو مثبت سوچ اپنانی ہوگی ۔ آپ کو اپنے متعلق اچھا سوچنا ہو گا اور روز اپنے ساتھ یہ جملہ دہرائے کہ ” میری برین پاور میں روز بروز بہتری ہو رہی ہے” “میں قابل ہوں’ “میں ہر امتحان میں کامیابی حاصل کرسکتا ہوں” یا اس طرح کا کوئی بھی مثبت جملہ دن میں کئی مرتبہ دہرانا ہوگا۔ اس جملہ کے دہراتے ہی آپ کے اندر توانائی، نیا جذبہ اور تحریک پیدا ہو جائیگی۔بس اب اسی توانائی اور تحریک کو آگے بڑھا نا ہے۔اور قابلیت میں اضافہ کرنا ہے۔ انسانی دماغ اس کائنات کا سب سے طاقتور عضو ہے۔اگر ہم اسے مستقل طو ر پر استعمال کرتے رہے گے تو اس کی طاقت اور قابلیت میں اضا فہ ہو تا جائیگا وگرنہ یہ اپنی صلاحیتیں کھو دے گا۔ دوسری اور اہم بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قابلیت کی سات یا اس سے بھی زائد اقسام ہیں۔ ماہرین نفسیات نے 15 سال کی تحقیق کے بعد یہ نظریہ وضع کیا ہے اللہ تعالٰی نے انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ ہر ایک صلاحیت اپنے آپ میں منفرد اور یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ آئیے ذرا قابلیت کی مختلیف اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ 1۔ لسانی ذہانت: لسانی ذہانت کے حامل افراد اپنے افکار و خیالات ، نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ ذہانت شاعروں اور لکھارویوں میں بہت ترقی یافتہ ہوتی ہیں۔
2۔ فن کارانہ ذہانت: فنکارانہ ذہانت کی بدولت انسان تصویروں اور شبیہوں میں سو چتا ہے۔ وہ افراد جس میں فنکارانہ ذہا نت ہو وہ اچھے آرکی ٹیکٹ، انجنئر، اور مجسمہ ساز بن سکتے ہیں۔
3۔ منطقی ذہانت: منتطقی ذہین لوگ ہر معاملے میں لوجیکل سوچ رکھتے ہیں۔ ہر کام نہایت سوچ سمجھ کر ،کرتے ہیں۔ یہ لوگ ریاضیاتی مسئلوں کو حل کرنے کی زبردست اہلیت رکھتے ہیں۔منتطقی ذہین لوگ اچھے ریاضی دان اور سائنس دان بن سکتے ہیں۔
4۔ موسیقانہ ذہانت: یہ صلاحیت گلوکاروں ، موسیقاروں میں نہایت ترقی یافتہ ہوتی ہیں۔ایسے لوگ بڑی مہارت کے ساتھ نئی دھنیں تخلیق کرتےہیں۔
5۔جسمانی ذہانت: جسمانی ذہانت کے حامل افراد نہایت چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ ان کے جسم میں مضبوطی اور لچک پائی جاتی ہیں۔ یہ صلاحیت کھلاڑیوں ، ایتھلیٹ ، اور ڈانسسرز میں ہوتی ہیں۔
6۔ تعلقاتی ذہانت: دوسروں کے جذبات کو سمجھنا ،لوگوں سے تعلقات قائم کرنا، ان کو اپنی بات حکمت کے ساتھ سمجھانا، تعلقاتی ذہانت کی بدولت ممکن ہے۔ تعلقاتی ذہانت کی بدولت انسان ا یک اچھاقائد،رہنما اور ادارہ کا سربراہ بن سکتاہے۔ یہ ذہانت انسان کی ترقی ا ور اہداف کے حصول میں قلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ 7۔ داخلی ذہانت: جو لوگ اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھ سکتے ہیں وہ داخلی ذہانت کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔داخلی ذہانت صوفیاء میں اعلیٰ درجہ پر ہوتی ہیں۔ گاررڈنر مرفی کے مطابق انسان میں روحانی ذہانت اور مظا ہر قدرت کو سمجھنے کی ذہانت بھی پائی جاتی ہیں ۔ انسان اس کائنات کی سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے اور اشرف المخلوقات ہونے کا شرف رکھتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیات 30 میں انسان کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” میں زمین پر اپنا نائب مقرر کررہا ہوں”اب آپ خود سوچئے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا نائب مقرر کر رہے ہیں کیا اس میں صلاحیتوں کا فقدان ہوگا؟ ہر گز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بھر پور صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے۔ لیکن انسانی صلاحیتوں کو نکھارنا اور ان کو جلا بخشنا، یہ نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کریں تاکہ ہماری قوم کا نوجوان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے، اور پوری اہلیت کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کریں۔