بلاشبہ غربت ایک انفرادی عمل بھی ہے اور ایک سماج سے بھی جڑا ہوا ہے، لیکن اگر ہم انفرادی اور اجتماعی پہلوں کا جائزہ لیں تو اور اجتماعی پہلو زیادہ غالب ہے۔ کسی غریب ملک میں بل گیٹس پیدا نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے امیر ترین افراد طاقت ور ملکوں سے ہی ہیں۔ انفرادی پہلو یہ ہے کہ انڈیا جیسے غریب معاشرے میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو دنیا کے امیر ترین لوگوں کی لسٹ میں آتے ہیں، یہ ایک معاشرتی طور پہ ناہموار ملک میں ہوتا ہے، ایسی امارت سیاسی طاقت کے غیرمتوازن استعمال سے جنم لیتی ہے۔ لیکن عمومی طور پہ ایک ایسا معاشرہ جہاں سبھی ایک متوسط معیار زندگی گزار رہے ہوں کیوں پیدا نہیں ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ ملکوں کی عوام زیادہ امیر ہیں اور کچھ کی کم ۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
1۔ غیر منظم سیاسی نظام:
سب سے بڑا فیکڑ جوکسی سماج کی ترقی میں وجہ بنتا ہے یا رکاوٹ بنتا ہے وہ وہاں کا سیاسی نظام ہوتا ہے۔ اس نظام کے اندر بین الاقوامی سیاست اور معیشت سے اپنی عوام کے لیے لڑنے کی کیا صلاحیت ہے۔ ہر ملک دوسرے ملک سے ہر سطح پہ جڑا ہوا ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اب ہر ملک دوسرے سے کتنا حصہ وصول کرتا ہے، یہ ملک کے سیاسی نظام کی صلاحیت ہے۔ بین الاقوامی سطح پہ لڑنے کے بعد سیاسی نظام اپنی عوام کے لیے ملک کے اندر موجود مفاد پرستوں سے کیسے معاملات کرتا ہے۔ ایک غیر منظم سیاسی نظام کبھی بھی دوںون فرنٹ پہ اچھا پرفارم نہیں کر پاتا اور مزید کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کی عوام غربت میں دھنستی چلی جاتی ہے۔
2۔ سیاسی نظام کے چلانے والوں کی نیت:
سیاسی نظام اگر مضبوط بھی ہو اور اگر اس کے سیاسی لیڈرز کی نیت ذاتی اغراض بننا شروع ہو جائیں تو ایک وقت آتا ہے کہ اس نظام میں دراڑیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کی تنظیم باقی نہیں رہتی ہے اور وہی مفاد پرست لوگ عام عوام کو نچوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
3۔ سیاسی غلامی کے دیر رس اثرات:
اگر ہم دنیا کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کا جنوب جو یورپی کلونیل ازم ک شکار رہا، آج تک غریب چلا آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں کونیل طاقتوں نے وہاں کے سماجی ڈنھانچے میں ایسے گروپس بنائے اور ان اقوام کی اپنی سوچ اور سوچنے کی صلاحیت ختم کر دی اور وہ معاشرتی اور سیاسی آقا جو یورپین کے جانے کے بعد دنیا کے جنوب پہ مسلط ہوئے ان کی سوچ یورپ کی کلونیل ماسڑز جیسی ہی ہے اور دنیا کا جنوب آج تک اس سے لڑ رہا ہے۔ پاکستان بھی انہی لوگوں کے چنگل میں ہے، جو انگریز کے حاشیہ بردار تھے اور یہ خود غرض قیادت ایک عوامی سوچ سے پرے ہیں۔
4۔ غلط سماجی عقائد:
غربت کے پیچھے جہاں سیاسی ہاتھ ہے وہاں سماجی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بالاخر غلط سماجی نظریات بھی سیاسی قوت کی کمزوری سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ان کو الگ سے زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔ غلط سماجی عقائد کم علمی اور جہالت کی پیداوار ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے پھلتے پھولتے ہیں اور یہ انسان کو نئے انداز سے سوچنے سے روکتے ہیں۔ نئے انداز سے سوچیں تو غلط عقائد روکاوٹ بنتے ہیں۔ غلط عقائد کی ایک مثال یہ ہے کہ پڑھنے کی عمر تو صرف جوانی ہے۔ پڑھی لکھی عورتیں جاب کریں گی تو خراب ہو جائیں گی۔ بوڑھے لوگ کھیلتے نہیں کیونکہ کھیلنا تو نوجوانوں کا کام ہے۔ یہ سارے وہ عقائد ہیں جس سے ہماری صحت اور کمانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اچھا سیاسی نظام غلط عقائد سے لڑتا ہے اور لوگوں کی سوچ کو بدلتا ہے اور سوچ کا بدلنا ہی سب بڑی جدوجہد ہے۔
5۔ غلط فیصلے
سیاسی سطح پہ لیڈرشپ کے غلط فیصلے قوموں کو صدیوں پیچھے لے جاتے ہیں اور پاکستان کی لیڈرشپ نے امریکہ کی افغان جنگ میں جا کر پاکستان کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پاکستانی اکانومی اور معاشرت کو بھی خوب خراب کیا۔
6۔ معاشرے کا اعتماد
جس لیڈرشپ کو معاشرے کا اعتماد ملے اور وہ سست ہو جائے تو قوم ایک منفی ویشیئس سایئکل میں پھنس جاتی ہے جس سے اس کو نکلنے میں صدیاں بھی لگ جاتی ہیں۔ کیونکہ سوچ اس حد تک گروہ بندی کی بن جاتی ہے کہ رسی کا سرا ہاتھ آنے میں بہت دیر لگ جاتی ہے اور اس سارے پراسس میں وسائل لڑایئوں اور منفی سمت میں لگتے ہیں، نتیجیتاً غربت مزید بڑھ جاتی ہے۔
7۔ وسائل کا غلط استعمال
پاکستان میں تو اکثر یہ سنا ہے کہ کرپشن بہت ہے اس وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا، کرپشن تو جو ہے وہ ہے ہی، اصل چیز کسی ملک میں موجود وسائل کو غلط سمت میں لگانا ہے۔ اگر کرپشن نہ بھی ہو اور قیادت وسائل غلط سمت میں لگا رہی ہو تو ملک خوشحال نہیں ہوگا اور پنجاب کے شہباز کے تندوری روٹیوں پہ اربوں لگانے کا پروگرام، وسائل کے غلط استعمال کی ایک مثال ہے۔ انڈیا نے مریخ پہ جانے کے لیے جتنے پیسے لگائے، شہباز نے میٹرو بس سروس پہ اتنے لگا دیئے۔ یہ سب وسائل کے غلط استعمال کی مثالیں ہیں۔