2 جنوری 1492ء کو غرناطہ میں مورز مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ جبکہ کولمبس 1489ء سے بادشاہ فرڈینینڈ سے اپنے بحری سفر کے لیے فنڈ مانگ رہا تھا تو اس نے فنڈ منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ کحچھ سال پہلے 1469ء میں فرڈینینڈ اور ازابیلہ نے متحد ہو کر ایک نئی حکومت بنائی جو بعد میں سپین کہلائی۔ جب غرناطہ فتح ہوا تو اس کے بعد کولمبس کو بحری سفر کے لیے بادشاہ نے فنڈ جاری کر دئیے۔ 3 اگست 1492ء کو اس نے انڈیا کے تجارتی راستے تلاش کرنے کے لیے سفر شروع کر دیا، یاد رکھیں اس وقت انڈیا میں مسلمان لودھی خاندان کی حکومت تھی۔ انڈیا کے راستے کھو جانے کی وجہ سے کولمبس کے جہاز کا رخ لاطینی امریکہ کی طرف ہو گیا اور 12 اکتوبر 1492ء کو پہلی دفعہ انہوں نے لاطینی امریکہ کی سرزمین دیکھی۔
اگر ہم اس سارے واقعہ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس سفر کا مقصد ایشیاء کے تجارتی راستے تلاش کرنا تھا، اب اس راستے میں ترک خلافت تھی، اگر سپین کا بادشاہ یہ فیصلہ کرتا کہ ہمیں ترکوں سے لڑ کر تجارتی راستہ لینا ہے تو وہ کبھی امریکہ کے راستے نہ ڈھونڈ پاتا اور نہ ہی یورپ کی تقدیر بدلتی۔ یاد رکھیں اس وقت تک برطانیہ، فرانس،اور جرمنی سب سو رہے تھے بلکہ غرناطہ میں مورز مسملمانوں کی شکست سے پہلے 1541ء میں ہی ہنگری اور وسطی یورپ تک ترکوں کی طاقتور حکومت قائم تھی۔ یہ سپین اور پرتگال ہی تھے جنہوں نے عربوں اور مورز کو سپین سے نکالا اور پھر وہ اتنے پرجوش تھے کہ نئے راستے تلاش کرنے کے لیے مزید لڑائی کی بجائے متبادل طریقے اختیار کرنے کی پالیسی شروع کر دی۔
اس سارے واقعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی سماج اتنی جلدی ڈوبتا نہیں بلکہ فطرت موقعے دیتی ہے اور بار بار دیتی ہے کہ سدھر جاؤ لیکن جب وہ نہ سدھرے تو مخالف اس کو شکست دے دیتے ہیں۔ مورز اور عربوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس کےبعد فرڈینینڈ کی یہ دانش مندی تھی کہ اس نے ترکوں سے الجھنے کی بجائے متبادل راستے دیکھے اور یہ پالیسی آج کے مسلمانوں کے لیے راہ کامل ہو سکتی ہے۔ آج مسملمانوں کو چاہیے کہ کسی سے بھی لڑنے کی بجائے اپنے محدود وسائل کو اپنی تعلیم اور قومی فائدے کے لیے تجارت پہ لگائیں۔ تجارت کے لیے سوچ اپنی ذات کی بجائے قوم اور انسانیت کی ہو تو وہ وقت دور نہیں جب ہم خود کو غربت سے نکال باہر کریں گے۔ اس سارے عمل کے دوران ہمیں شعور بھی ملے گا اور معاشی خوشحالی بھی۔
یہاں پہ ایک مغالطے کی نفی کر دینا بھی ضروری ہے کہ یورپ میں علم خود سے نہیں پھیلا بلکہ یہ سپین کی فتح نے ان کو کاروبار اور دولت کی طرف کھینچا اور اس وجہ سے ہی انہوں نے دنیا کا مطالعہ شروع کیا جس کے بنیادی ادارے عربوں اور مورز نے سپین میں چھوڑے تھے، ٹھیک اسی طرح جیسے برطانیہ نے ہندوستان میں اپنی ملڑی اور باقی ادارے چھوڑے تھے۔ ضرورت ایجاد کی ماں کی بدولت دور دراز کلونیل علاقوں میں رابطے کے لیے تار کا کمیونکیشن کا نظام بنا اور باقی دریافتیں ہوئی اور یہ سب ترکیاں ترک خلافت میں بھی ہو رہی تھی (لیکن بہت سست روی سے) اور پھر 1924ء 5 صدیوں کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آیا، جب ترک خلافت کو ختم کر دیا گیا اور یورپ پورے گلوب کی سپر طاقت بن گیا۔ لیکن ایک چیز کہ وہ اپنی ذات اور اپنے نظریات کے لیے جدوجہد سے باز نہیں آئے۔
کچھ نتائج:
اگر طاقت نہیں تو مت لڑو کی پالیسی پہ عمل کر کے مسلمان ترقی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو بھی کشمیر لینے کے لیے انڈیا سے لڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ خود کو تجارت، ہنر، ٹکنالوجی میں اتنا مضبوط کرے ایک دن سب کحچھ پاکستان کا ہوگا۔ پاکستان کو اپنے محدود وسائل کو ایسے کاموں پہ نہیں لگانا چاہے جو کم نتائج دیں۔