صنعتی ترقی کا خواب آج کل ہر طرف ہے کیوںکہ صنعتی ترقی طاقت، پیسہ اور سہولت لاتی ہے۔ لیکن عرصہ دراز تک دوسری قوموں سے ٹکنالوجی کی بھیک مانگتے رہیں تو کیا صنعتی ترقی آتی ہے، یقینا نہیں۔ تو پھر کیسے آتی ہے؟
صنعتی ترقی کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک معاشرہ انسانی تہذیب کے کس مقام پہ کھڑا ہے۔ اگر ایک معاشرہ پتھر کے دور میں کھڑا ہے، اور وہ امریکہ کی صنعتی ترقی کے خواب دیکھ رہا ہے تو یہ ایک ایسا خواب ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اسے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ عام طور پہ ہم خواب تو دیکھتے ہیں لیکن وہ سوچ نہیں اپناتے جو اس مقام تک لے جاتی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہر صنعتی ترقی کےپیچھے جو مقاصد اور سوچ ہو، وہ واضع اور صاف ہونی چاہے اور پھر اس صنعتی ترقی کو حاصل کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی وسائل (مادی اور انسانی) بروئے کار لانے چاہیں۔ اس سارے عمل میں دوست اور دشمن کی مدد بہت ضروری ہے۔ ہر سماجی اور صنعتی ترقی میں دوست ممالک کا کردار بہت ضروری ہے۔ اپنی فلاسفی سے سمجھوتہ کس حد تک کرنا ہے اور کس حد تک لچک دکھانی ضروری ہے، اس کا ہر ملک کو پتہ ہونا چاہے۔ قوم خود اپنے آرام کو کتنا قربان کرتی ہے اور اس کو دنیا میں اپنے آپ کو کس حد تک منوانا ہے، قوم کا مزاج اور محنت کرنے کی عادت بھی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ سماجی نظام کنتا پرامن ہے یہ بھی ترقی کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ صنعت میں بہت تبدیلی آتی ہے۔ ارتقا کا عمل صنعت اور سیاست دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ آج کا طاقتور کل کمزور بھی ہو سکتا ہے۔ ہر قوم کو زمانے کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو اپنی سماجی نظام میں شامل کرنا ہے۔ سماجی نظام کو متحرک رکھنے سے اس کا صنعتی نظام بھی ان نئی تبدیلیوں کو اپنے اندر شامل کرتا رہے گا۔ انیس بیس کے فرق سے قوم اوپر نیچے ضرور رہے گی لیکن اس کا وجود کبھی مٹ نہیں سکے گا اور اس کے صنعتی ادارے قوم کے اندر اور باہر کی دنیا میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
جب صنعتی تبدیلیاں آتی ہیں تو وہ ایک دن میں نہیں آتی ہیں بلکہ کئی سالوں پہ محیط جدوجہد سے ہی آتی ہیں اور اس سارے عمل کے دوران پالیسی میکرز، تاجروں، تعلیمی اداروں کو متحرک اور چاک و چوبند رہنا ہوگا۔ اپنے مستقبل کو ہر حوالے سے مضبوط، پرامن اور پائیدار بنانا ہوگا۔
رکشا بنانے کی صنعت کافی سالوں سے پاکستان میں موجود ہے اور اس کی ترقی، اور جدت کو برقرار رکھنے کے لیے زمانے میں آنے والی تبدیلیوں کو رکشے کی پراڈیکٹ میں شامل کرتے رہنا چاہیے۔ مثلاً لاھور کی اس رکشا کمپنی نے اس رکشا میں اے-سی لگوا کر بیچنا شروع کر دیا۔ یہ اپنی پراڈیکٹ کو بہتر کرنے کی ایک سوچ ہے۔ اب اس رکشے میں نیوگیشن کا سسٹم بھی لگ جائے تو اور زیادہ بہتری آجائے گی۔ اس طرح مارکیٹ میں موجود تمام نئی ٹکنالوجیز کو اس رکشے کی پراڈیکٹ میں شامل کر دیا جائے تو یہ ایک ایسی پراڈیکٹ بن سکتی ہے جو دنیا کے باقی مملالک کی ٹرانسپورٹ کی پراڈیکٹ میں نام بنا سکتی ہے۔ پھر سماجی نظام کو بھی ایسا بنایا جائے کہ لوگ اپنے ملک کی پراڈیکٹس سے پیار کریں، حکومت ان کی پزیرائی کرے، اور بنانے والوں کی نیت میں بھی اور ٹیکس کے اداروں کی نیت میں لالچ نہ ہو تاکہ پراڈیکٹ کو مناسب قیمت پہ مارکیٹ میں رکھا جائے۔ ایسا عمل سب پراڈیکٹس کے معاملے میں ہونا چاہے۔ یہ ہی خوداری کا طریقہ کار ہے۔ اگر کوئی ایسی ٹکنالوجی ملک لینا چاہتا ہے جو اس ملک میں نہیں تو وہ ٹکنالوجی سیکھا بھی سکتا ہے اور دوسرے ملک سے سیکھ بھی سکتا ہے اور تہذیب کو آگے چلا سکتا ہے۔