دنیا میں آج جو کچھ بھی موجود ہے وہ یا تو خدا کا پیدا کردہ ہے، جس کو کائنات بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر وہ ہے جو انسان نے سوچا اور بنایا۔
ہزاروں سال پہلے کا انسان غاروں کے اندر رہتا تھا اور گھر، سڑکیں، اور مواصلات کا نظام موجود نہیں تھا۔ یقیناً ان انسانوں کے اپنے مسائل تھے، ان کو بھی اپنی حفاظت اور زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی اور اپنے خاندان کی حفاظت بھی کرنا پڑتی تھی۔ پھر کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ غاروں سے نکلا جائے اور تب سے انسان نے انجینرنگ شروع کردی اور مصنوعی گھر، مصنوعی آلات اور باقی ضروریات زندگی کی اشیاء بنانا شروع کردیئں۔ پھر ان سب اشیاء اور انسانی ایجادات کا دائرہ اپنے وجود کو قائم رکھنا تھا۔ بڑھتے بڑھتے انسان نے تبادہ اشیاء کے لیے مالیاتی نظام بنانا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں وہ خاندان اور قبائل غالب اور لیڈرشپ پہ براجمان رہے جنہوں نے یہ سب پلان بنائے اور ان کو کامیاب بنایا۔ اس وقت یہ بحث نہیں ہے کہ وہ پلان کس کے لیے بنے، یا کس کو زیادہ فائدہ پنہچا یا کس نے کس کا استحصال کیا؟ لیکن جن قوموں اور قبائل نے سوچا، پلان کیا اور پلان کو عمل میں لایا وہ تہذیب کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوئے اور تاریخ نے ان کے سر پہ تاج رکھا۔
ایک وقت تھا جب ہر چیز کو کرنسی کے ترازو میں نہیں تولا جاتا تھا شائد اس وقت یہ ممکن بھی نہیں تھا، لیکن اب کافی حد تک ایسا ہے اور شائد اب تہذیب واپس بھی نہ جا پائے، لیکن جو قومیں آج موجود ہیں ان کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے سوچنا ہو گا اور اپنی تہذیبی بقا کے لیے وہ وسائل اور سوچ پیدا کرنی ہو گی جو غالب اقوام کے پاس ہے۔
ایک بات یہ یاد رکھنی ہو گی کہ ترقی یافتہ اقوام جس طرح سے سوچتی ہیں اس کے لیے پہلے اپنی عوام میں ایک سماج اور ماحول بناتی ہیں اور پھر وہ اعلی سوچ آتی ہے جس سے بڑے مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ تو یہ دوںوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ سوچ ماحول بناتی ہے اور ماحول اعلی سوچ بناتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرے جاتے ہیں۔
سوچ اور وقت کا گہرا تعلق ہے۔ ہر انسان کو ایک دفعہ زندگی ملتی ہے اور اس زندگی میں اگر وہ طے شدہ مقاصد کے گرد اپنی سوچ اور عمل کو نہیں لاتا، تو پھر وہ خود کو ضائع کر دیتا ہے۔ وقت تو یقیناً گزر جاتا ہے لیکن اس وقت میں اگر وہ سوچتا نہیں تو کوئی ٹارگٹ نہیں بنتا اور کوئی ٹارگٹ نہیں تو پھر نتائج کیا آئیں گے۔
اگر موجودہ دنیا کے اندر ٹرانسپورٹ اور باقی ایجادات کو دیکھا جائے تو یہ ایک ایک خیال یا سوچ پہ کئی سال تک مسلسل محنت کر کے ماضی کے تمام علوم سے استفادہ کرکے بنی ہیں اور یہ سوچ اب ہم کو بھی سوچنی ہو گی کہ انسان کی مستقبل کی تہذیب کی قیادت کرنے میں ہمارہ کیا کردار ہوگا.