’’چیمپین بننے کیلئے تمہیں اپنے آپ پر یقین کرنا ہوگا، کوئی اور تمہارے لیے یہ کام نہیں کرسکتا!‘‘
شوگر رے روبنس
انسان کی زندگی مختلف مراحل پر مشتمل ہے جیسے بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑپن اور بڑھاپا۔ انسا ن کی زندگی کا جب آغاز ہوتا ہے تو اسے کسی قسم کا شعور نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اسے بے لباسی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ جیسے ہی عمر پانچ چھے سال کی ہوتی ہے تو اُس کے اندر شرم وحیا کا رویہ جنم لیتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ مجھے اپنا جسم ڈھانپنا چاہیے۔ مجھے اپنا آپ چھپانا ہے۔ جب مزید بڑا ہوتا ہے تو اس کے اندر چاہت آتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ میری باتیں سنیں اور میری بات مانی جائے۔ وہ شاباشی ملنے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ انسان کی عمر میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے، ویسے ویسے اس کے شعور میں پختگی آتی ہے۔ سیلف مینجمنٹ کیا ہے؟سیلف مینجمنٹ (Self Management) میں دو الفاظ ہیں۔ اول، سیلف (Self) اوردوسرا مینجمنٹ (Management)۔سیلف کا مطلب ہے، ’’میں‘‘۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو جس چیز کو مینج کرنا چاہتے ہیں، وہ اس چیز کے بارے میں نہیں جانتے جیسے یہ کہ گھر کیا ہے، گھر کسے کہا جاتا ہے، معاش کیا ہے، یہ کیوں ضروری ہے، شادی کیا ہے، شادی کرنا کیوں ضروری ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تما م وہ احساسات ہیں جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ’’میں‘‘ ہوں۔ یہ شعور آتا ہے تو آدمی خود کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ اسی کو ’’سیلف مینجمنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔جس فرد کے اندر یہ احساس نہ ہو، اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ نارمل نہیں ہے۔ معاشرے میں جو لوگ کپڑوں کے بغیر پھر رہے ہوتے ہیں، وہ جہاں چاہتے ہیں، بیٹھ جاتے، لیٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان میں شعور نہیں ہے۔ جن کے پاس رونے یا ہنسنے کی وجہ عجیب ہو یا وہ زندگی کی ڈگر سے ہٹ گئے ہوں، ایسے لوگوں میں سیلف مینجمنٹ نہیں ہوتی۔ کچھ لوگوں کی سیلف مینجمنٹ کا لیول اتنا بلند ہوتا ہے کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے باوجود اُن کے افکار زندہ رہتے ہیں۔ جیسے سدھارتھا (گوتھم بدھ) نے کہا کہ ’’خواہش مار دو تو غم مرجائے گا۔‘‘ آج لوگوں کو گوتھم بدھ کی شکل وصورت کا نہیں پتا، مگر اس کی سیلف یا ذات سے نکلی ہوئی باتوں پر آج بھی دنیا غور کررہی ہے۔ اسی طرح یہ جملہ کہ ’’اگردجلہ و فرات کے کنار ے کتا بھی مر جائے تو عمرؓاس کا جواب دہ ہے‘‘، یہ جملہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظیم سیلف مینجمنٹ کا اظہار کرتا ہے۔ ایک مستقل سفر سیلف مینجمنٹ سے پہلے ’’سیلف‘‘ کا سفر ہے۔ سیلف کی پالش کرنا ہے، سیلف کو جاننا ہے اور سیلف کو شناخت کرنا ہے۔ اس کو خودی کا سفر بھی کہا جاسکتا ہے۔ عام طور پر، ہم نے سیلف کی جو شناخت کی ہوتی ہے، وہ سیلف نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیلف میں بہتری آنی چاہیے۔ اگر بہتری نہیں آتی تواس کا مطلب ہے کہ سیلف کا سفر جہاں سے شروع ہواتھا، وہ وہیں کا وہیں ہے۔ اس دنیا میںواقعات، افراد، حادثات، خوشیاں، غم اور تجربات خودشناسی کا بہترین آئینہ ہیں۔ سیلف کو جاننے کے مواقع تب زیادہ ہوتے ہیں کہ جب آدمی زندگی کی سٹر ک پر احساسات کے ساتھ چلتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری پیغام دیا جس سے پتا چلا کہ چلتے ر ہنا ہی خود شناسی ہے جبکہ اس سے پہلے خودشناسی کا مطلب یہ تھا کہ شادی نہیں کرنی، دنیا کو چھوڑ دینا ہے،جنگلوں میں رہنا ہے۔ رہبانیت اختیار کرلینی ہے۔زندگی بذاتِ خود انسان کواپنے آپ سے آشنا کراتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کے احساسات زندہ ہوں۔ یہ احساس کہ زندگی ایک با ر ملی ہے، یہ احساس کہ مجھے کچھ کرنا ہے، یہ احساس کہ دوبارہ مو قع نہیں ملنا۔ اگر یہ احساسات ہیں تو یہ خوش بختی کی علامت ہے۔خودفراموشیخودشناسی کے بعد اگلا مرحلہ خودفراموشی کا آتا ہے۔ جب آدمی خود کو جان جاتا ہے اور پھر اس پر مسلسل کام کرتا رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنے تئیں بھول جاتا ہے۔ اسے یہ ادراک ہوجاتا ہے کہ اس کی زندگی دوسروں کیلئے ہے۔ چنانچہ وہ دوسروں کیلئے چھوٹی چھوٹی آسانیاں پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا شروع کردیں، وہ Selfless لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی ذات کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اپنے سیلف کی شناخت کے بعد بے پروا ہوجاتے ہیں ۔ میسلو کہتا ہے کہ دنیا میں بڑے لوگ ایسے ہیں جو سیلف کی شناخت کے بعد سیلف لیس ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت زندگی کی چھوٹی دوڑ میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اپنی آسانی کیلئے بہت کچھ بنالیتے ہیں، مگر ان کے سیلف میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جویہ سو چتے ہیں کہ زندگی میں تومیں کچھ کر نہیں پایا تو پھر کیوں نہ میں روحانیت میں آجاؤں۔ یہ زندگی سے راہِ فرار ہے۔ کمال یہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے۔نیکی کا پیمانہہم کہتے ہیں کہ نیکی تب ہوگی جب لوگ دیکھیں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نیکی تب ہوگی جب میں قبول کروں گا۔ اور قبولیت چیزوں سے نہیںہوتی، نیت سے ہوتی ہے۔ سیلف کا ایک بڑا حصہ تزکیہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سیلف کا ایک حصہ ایسا ہے جس کا حساب ہی نہیں ہے اور وہ ہے نیچر۔ جوچیز نیچر میں ہے، اس کا حساب نہیں ہے، لیکن جو چیز اختیار میں ہے، اس کا حساب ہوگا۔ کیا آپ اپنے یقینوں پر سوال اٹھاسکتے ہیںسب سے بہادر انسان وہ ہے جو اپنے افکار پر سوال اٹھا سکے۔ ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپریشن کے ذریعے بازو کاٹنا آسان ہے، لیکن ذہنی آپریشن کرکے نظریا ت کو نکالنا بہت مشکل کام ہے۔ انسانی تاریخ میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں، وہ ’’میں صحیح اور وہ غلط‘‘ کی بنیاد پر لڑی گئیں ۔ بہت سے لوگ اپنی طرف سے یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم میں بہتری آرہی ہے، لیکن اصل میں بہتری نہیں ہوتی۔ کسی کو دیکھ کر اگر سیلف کا سفر شرو ع کرنا ہے تو پھر یہ سفر نہیں ہوگا۔ سیلف مینجمنٹ میں سب سے پہلا قدم خود کو جاننا ہے۔ اس کے بعد اپنے نظریا ت کو بدلنا۔ وہ تمام خیالات اور یقین جو ترقی پذیر نہیں ہیں، ان پر ضرور سو ال اٹھانے چاہئیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں جس جس گوشے میں بہتری نہیں آرہی، اس میں بہتری لائیے۔ جب تک نئے افکار، نئی چیزیں اور نئے یقین نہیں آئیں گے، سیلف مینجمنٹ میں بہتری نہیں آئے گی۔ کوچ ضروری ہےہماری زندگی کی جو ٹرین چل رہی ہوتی ہے، بعض اوقات وہ سفر اچھا نہیں لگ رہا ہوتا۔ اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ ہم جو محنت کررہے ہیں، نتائج اس کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس لیے زندگی کے سفر میں بہتری لانے کیلئے کسی کوچ یا مینٹور کو اپنی زندگی میں شامل کیجیے۔ اس کیلئے لازم نہیں کہ بیعت ہی کرنی پڑے، لازم نہیں ہے کہ وہ کوئی مرشد ہو۔ وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔اگر دل کے دروازے کھلے ہیں تو پھر لوگ مل جائیں گے۔ ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ ہم پہلے پیمانہ بناتے ہیں، پھر اس سے لوگوں کو جانچتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کھرے اور سچے لوگ نہیں ملتے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’ہم دوسروں کو ماپنے کے پیمانے بناتے ہیں اور خود کو ماپنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ اپنی سیلف مینجمنٹ کو بہتر کرنے کیلئے درج ذیل چیزیں اپنی زندگی میں شامل کیجیے:1 سوچ کی تنظیم 2 یقین کی ترجیح3 انسپائریشن4 مطالعہ5 ذاتی بہتری کی فہرست