’’انسان کا کمال یہ نہیں کہ وہ نہ گرے، کمال تو یہ ہے کہ گرے اور اٹھ جائے!‘‘
کنفیوشس
کہانیاں ایک مشکل بات کو دلچسپی اور آسانی کے ساتھ سمجھانے کیلئے ہوتی ہیں۔ موٹیویشن کیلئے ہوتی ہیں۔بڑی بات کو چند جملوں میں سمجھانے کیلئے ہوتی ہیں۔ کہانیوں کی بہت ساری اقسام ہیں۔ ان میں ایک کامیابی کی کہانی ہے ۔ آج دنیا میں کامیابی کے موضوع پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے، اس سے پتا لگا کہ دنیا کی بہترین و معاون کتا ب اگرکوئی ہے تو وہ کامیابی کی کہانی ہے۔ ہزار کتابیں ایک طرف اور ایک فرد کی کامیابی کی کہانی ایک طرف۔
غیر معمولی زندگی
کامیابی کی کہانی میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ اسے سننے کے بعد کئی لوگ موٹیویٹ ہوجاتے ہیں۔ بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی میں تحریک آجاتی ہے اور وہ تحریک اس معیار کی ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔ کامیابی کی کہانی یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص معذور ہو، زندگی میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہو، مشکلات اور پریشانیاں ہوں، لیکن وہ ان سب کے باوجود کچھ کرکے دکھا دے۔ دنیا میں غیر معمولی (ایکسٹراآرڈینری) بننے کیلئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ آپ کسی بھی پروفیشن میں ہیں، کسی بھی پیشے میں ہیں، کسی بھی شعبے میں ہیں، دنیا کا کوئی کام کر رہے ہیں، کچھ بھی ہیں تو سب سے پہلی چیز رویہ اور دوسری چیز مہارت ہے۔
ہمیں غیر معمولی بننے کیلئے پہلے اپنے رویے میں خود تبدیلی لانی پڑے گی۔ ہمیں کامیاب کہانی بننے کیلئے ایک اچھا موٹیویٹر بننا ہے۔ اگر ہم اچھے موٹیویٹر نہیں بنتے تو پھر کبھی بھی غیر معمولی استاد نہیں بن سکتے۔ موٹیویشن دینے کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ پہلے خود موٹیوٹ ہوں، تبھی دوسروں کو موٹیویٹ کرسکیں گے۔ جب آپ کے پاس آپ کے کام کرنے کی وجہ تنخواہ نہ ہو بلکہ کوئی مقصد ہو تو پھر آپ موٹیویٹر ہیں، کیونکہ تنخواہ تو بہت چھوٹی شے ہے، یہ کچھ دنوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن موٹیویشن تنخواہ سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کو اٹھاتی ہے، لے کر جاتی ہے، گرمی برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے، قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور آپ کچھ کرگزرتے ہیں۔
پہلے موٹیویشن لیجیے، پھر دیجیے
میرے پاس موٹیویشن ہے، یہ کہنا بہت آسان ہے۔ ہم یہ بھی دعویٰ کر تے ہیں کہ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں۔ لیکن عاشقِ رسولؐ کا دعویٰ کرنا بہت آسان ہے، اندازِ رسولؐ اپنانا بہت مشکل ہے۔ آپ اندازِ رسولؐ اپنائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ تپتی دھوپ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ایسی عورت سے بات کرتی ہے جو ذہنی طور پر اپاہج ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہہ رہے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ اس سے باتیں کررہے ہیں، یہ توذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی میں نہیں سنوں گا تو کون سنے گا۔
معذور بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ اصل میں عملی طور پر عاشق رسولؐ ہیں، کیونکہ یہ ان کے ساتھ کا م کرتے ہیں جنھیں شعور ہی نہیں ہوتا ۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’احسان کرنے کا مزہ وہاں آتا ہے جہاں پر کسی کو شکریہ کا بھی شعور نہ ہو۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ یہ اعزاز دے دے تو پھر اس سے بڑی موٹیویشن اور کیا ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی قدرتی قوانین سے متاثر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عام لوگوں سے زیادہ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کیلئے کام کر رہا ہے جس کا صلہ اس مخلوق نے نہیں دینا، صرف اللہ تعالیٰ نے دینا ہے، اس کیلئے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے۔
عقل والے پرلازم ہے کہ جس کے پاس عقل نہیں ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اس کے ساتھ اچھا برتائو اپنائے۔ جب آپ کسی معذور بچے یا بالغ کے ساتھ خلوص سے بات کرتے ہیں، اس پر شفقت برتتے ہیں، درگزر کرتے ہیں، اچھا برتائو اپناتے ہیں تو اس سے آپ کے روحانی قدمیں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم روحانیت روحانیت کرتے رہتے ہیں، بابے تلاش کرتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی ہی بار ولی بننے کا موقعدیا لیکن ہم اسے گنوا دیتے ہیں۔
رونا دھونا اجر ضائع کردیتا ہے
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم کام بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی روتے بھی ہیں۔ زبان پر شکوہ رہتاہے۔ یوں، کام کا لطف حاصل ہوتا ہے اور نہ اجر ملتاہے۔ یہ عادت بنائیے کہ ہم نے موٹیویٹ رہنا ہے۔ اپنا رویہ بہتر بنانا ہے اور خوش دلی کے ساتھ کام کرنا ہے۔ خوش دلی سے کیا ہوا کام بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ قابلیت پیچھے رہ جاتی ہے، خلوص آگے آجاتا ہے۔ اگر آپ خلوص والے ہیں، چاہ والے ہیں، نیت والے ہیں تو پھر آپ کا اجر بڑھ جائے گا۔ ہمار ا ایمان ہے کہ خلوص کا صلہ آخرت میں ملے گا۔ لیکن آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں برکت کی صورت میں بھی ملے گا۔ اگر ہم یہ کریں گے تو ہمارے کاموں میں برکت آجائے گی۔ کا م صحیح ہونے لگیں گے، سکون ملنے لگے گا۔
بہت سے لوگ بہت بڑے کام نہیں کرتے، انھوں نے اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کام کیے ہوتے ہیں، لیکن ان کاموں کے پیچھے خلوص اتنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے اجر کا اثر یہ کرتا ہے کہ ان کی زندگی میں برکت آجاتی ہے۔ ان کے بہت سے کام خود ہی ہونے لگتے ہیں۔ ان کے بچے باادب ہوگئے۔ ان کے رشتے بہ آسانی ہوگئے۔ ان پر کبھی محتاجی نہیں آئی۔وہ سکون کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ جبکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پیسہ بہت ہے، شہرت ہے، کامیابیاں ہیں لیکن زندگی میں سکون اور برکت نہیں ہے۔ انھوں نے کام تو وہی کیے، لیکن کام کے پیچھے نیت وہ نہیں تھی جو برکت ڈالتی ہے۔
ہم کام کے سائز کو بڑا نہیں کرسکتے، ہم اپنی ہمت کے مطابق کام کرتے ہیں لیکن اس کے پیچھے موجود نیت کو بہت بڑا کیا جاسکتا ہے۔
بابا فریدؒ کہتے ہیں، دنیا میں کام چھوٹا یا بڑانہیں ہوتا، کاموں کی نیت کاموں کو بڑا بناتی ہے۔ کاموں کی نیت کاموں کو چھوٹا بناتی ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے، بادشاہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بہت چھوٹا ہو اور ممکن ہے، موچی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بڑا مقرب ہو۔
اگر ہم اپنی نیت کو انقلابی نیت بنائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیاب کہانی بنانے کا موقع دیا ہے کہ وہ جسے دنیا کچھ نہیں سمجھتی، ہمیں اسے کچھ بنا کر دکھانا ہے، اسے اس قابل کرنا ہے کہ وہ زندگی کے بوجھ خود بھی برداشت کرے۔
نک وائے چیچ وہ شخص ہے جو دنیا کے دس مقبول ترین ٹرینررز میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی نہ ٹانگیں ہیں اور نہ بازو ہیں۔ جو بچہ کسی چیلنجز کا شکار ہے، ا گر وہ اس کی ویڈیو دیکھے تو میں یقین دلاتا ہوںکہ اسے بہت زیادہ انرجی اور موٹیویشن ملے گی۔ اس کے علاوہ کوشش کریں کہ آپ کے کام سے متعلق دنیا میں جتنا کام ہو رہاہے، اسے ضرور دیکھیں اور سیکھیں، کیونکہ جب کام آتا ہو تو آدمی خوشی خوشی کرتا ہے۔ لیکن کام نہ آتا ہو توبددلی پیداہوجاتی ہے۔
تھپکی زندگی بدل سکتی ہے
کندھے پر دی ہوئی تھپکی کسی کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ خامیاں نکال کر جو پہلے ہی مرا ہوا ہے، اسے مت ماریے۔ آپ کو انداز ہ نہیں ہے کہ ایک جملہ گولی سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ وہ توپ کے گولے سے زیادہ مہلک ہوسکتا ہے۔ کہی گئی بات کسی کو اڑا کررکھ سکتی ہے۔ اس لیے کسی سے منفی بات مت کیجیے۔ اگر پڑھایا نہیں جاتا تو کوئی بات نہیں، لیکن بچے کو پیار اتنا کریں، اتنے خلوص کے ساتھ پیش آئیں،اتنا رویہ اچھا ہو کہ بچے کی زندگی بدل جائے۔
حسن البنا سے کسی نے پوچھا، آپ اتنے بڑے عالم ہیں لیکن آپ کتابیں تصنیف کیو ں نہیں کرتے۔ انھوں نے جواب دیا، ’’میں کتابیں تصنیف نہیں کرتا، میں انسانوں کی تصنیف کرتا ہوں۔‘‘ میں ایسے لوگ پیدا کرتا ہوں جو پھر یاد رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ایک ایسا استاد آیا تھا جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ حسن البنا ایک ایسے استاد تھے جو شراب خانے میں جاتے تھے تو شرابیوں سے کہتے تھے کہ دو منٹ میری بات سنو۔ وہ دو منٹ بات سنتے تھے، گلاس گرا دیتے تھے اور کہتے تھے آپ نے ہماری زندگی بدل دی۔
آپ کارویہ ایسا ہو کہ جس کے بازو نہیں ہیں، اسے پر لگ جائیں، جس کی ٹانگیں نہیں ہیں، اس میں ہمت اور جان اتنی آ جائے کہ وہ دنیا کو دیکھ کر کہے کہ میں اس دوڑ میں دنیا کو ہرا کر دکھاؤں گا۔ وہ بہ بانگ دہل اعلان کرے کہ میں ثابت کروں گا کہ ٹانگوں اور بازوؤں کے بغیر بھی بہت کچھ کرنے کے قابل ہوں۔