ایک دور تھا جب انسا ن غاروں میں اپنی زندگی بسر کرتا تھا، خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جانوروں کا شکا ر کرتا تھا اور خود کو ڈھانپنے کے لئے درخت کے پتوں کا استعمال کیا کرتا تھا۔ لیکن آج سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر چکا ہے، ہوا کو مسخر کرچکاہے، چاند و سورج اور کائنات کی حدود کا تعین کرنے میں مگن ہیں۔ جنیاتی انجنئرنگ کی بدولت انواع و اقسام کے نئے پھل اور سبزیاں اگا رہا ہے۔ آج زندگی کا ہر شعبہ انقلابی تبدیلیوں کی غماز ی و عکاسی کرتا ہے- سوال یہ ہے کہ انسان نے یہ انقلابات کیسے برپا کئے؟ جواب سادہ سا ہے علم، عقل اور زندگی کے تجربات کی روشنی میں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کا سب سے پچیدہ اور مسحور کن عضو دماغ کی صورت میں عطاکیا ہے۔ اور اس میں سوچنے، سمجھنے اور عقل و شعور کی زبردست طاقت رکھ دی ۔ بس اب کیا انسان نے قدرت کی عطا کردہ انہیں قوتوں کا استعمال شروع کیا، سماجی ارتقاء کا آغاز ہوا اور ترقی کرتے کرتے انسان دور جدید میں داخل ہوا۔ لیکن یہ ارتقاء کا یہ سفر صدیوں پر محیط ہے، سالو ں کی زبردست محنت ، غور و فکر و تدبر کے بعد انسان مظاہر قدرت کو سمجھنے اور اس کو انسانی فلاح و بہبود ، کے لئے استعمال کرنے کے قابل ہوا۔آج سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت علوم کی ترقی کی رفتار ماضی کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ہے۔ لیکن دور جدید تک کے اس سفر میں انسانی سماج کو بنیادی طور پر تین ادوار سے گزرنا پڑا۔ پہلا دور زرعی ہے اس دور میں انسان نے اپنی غذائی و معاشی ضروریات زراعت کی بدولت حاصل کیں۔ دوسر ا دور تجارتی ہے اس میں انسان نے زرعی اور ہاتھ سے بنی ہوئی صنعتی و دستکاری کی مصنوعات دوسرے شہروں میں لے جاکر فروخت کرنا شروع کی۔ تجارت کی بدولت انسان کی سوچ میں تبدیلیوں نے جنم لیا دوسروں کے تہذیب و تمدن سے بہت کچھ سیکھا گیا یوں انسانی سوچ میں وسعت پیدا ہوئی۔ اس دور میں لوگوں نے نہ صر ف تجارت کی غرض سے سفر کئے بلکہ علوم کے حصول کے لئے بھی سفر کئے گئے۔
تیسرا دور صنعتی ہے۔ صنعتی دور کو ڈیجٹل دور سے بھی تعبیر کیا جاسکتاہے۔ اس کا آغاز صنعتی انقلاب (1840-1760) سے ہوا- جب مشینو ں کا استعمال صنعتی مصنو عات کی تیاری میں ہوا۔ اب نئی نئی مشینوں کی دریافت اور انکا صنعتی مصنوعات کی تیاری میں استعمال روز کا معمول بن گیا۔ اس دور نے بہت سے نئے علوم کو جنم دیا، اور پہلے سے موجود علوم کو نئی راہوں پر گامزن کیا۔ ان کی ترقی کی طبعی رفتار پہلے کی نسبت اب کا فی تیز تھی۔ واضح رہے کہ نئی مشینوں کی ایجادات اور اس کی بدولت نئی صنعتی مصنوعات کی تیاری کے پیچھے جدید و قدیم علوم کار فرما تھے۔
جدید معیشت کا آغاز ء1776 میں ایڈم سمتھ کی تصنیف ” دولت اقوام ” کے ساتھ ہوا۔جس نے سرمایہ داری نظام کی بنیادیں رکھ دیں۔اس نظام کی بدولت اشتراکیت کے فلسفہ نے جنم لیا – اس فلسفہ کی مشہو ر کتاب ” داس کیپٹال ” کی پہلی جلد 1865 ءمیں مکمل اور 1867ء میں جرمنی میں چھپی۔ صنعتی دور میں علم نفسیات ( سائیکالوجی) کی جد ید دور کے مطابق بنیادیں رکھی گئی۔ ولیم ونڈنٹ (1832) کو تجرباتی سائیکالوجی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے پہلی دفعہ نفسیاتی تحقیقی لیبارٹری 1879 ءمیں قائم کی۔علم نفسیات میں ولیم جیمز (1842) اور سگمنڈ فرائیڈ (1856) نے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا-
صنعتی انقلاب نے معاشرے کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کیں۔ لہذا معاشرتی مسائل کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے اور ان کا حل پیش کرنے کے لئے عمرانیات (سوشیالوجی) کا ڈیپارٹمنٹ شیکاگو یونیورسٹی میں 1892 میں قائم ہوا۔ بعد ازاں 1895 ء میں امریکن جرنیل آف سوشیالوجی کا قیام عمل میں آیا۔ صنعتی پھیلاؤ کے نتیجے میں بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ ان کمپنیوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لئے 1967 میں منیجمنٹ سائنسز کا آغاز ہوا ۔
صنعتی انقلاب نے صحت کے میدان میں بھی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب نت نئ دوائیوں پر تحقیق اور بنانے کاکام شروع ہوا۔انیسویں صدی میں مختلف کمیکلز کا اینستھزیا کے طور پر استعمال عام ہونے لگا۔1866 ءمیں گریگر مینڈل نے جینیات(جینٹکس) کی تجر باتی بنیادیں رکھی۔ اگرچہ وراثت اور اس کے اثرات کا نظریہ مینڈل سے پہلے بھی موجود تھا مگر بیسویں صدی میں مشینوں کے ذریعے سے تحقیق کی بدولت اس میدان میں جتنا کام ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانیت مختلف قسم کی بیماریوں اور صحت کے مسائل سے دو چار ہوئی۔ لہذا صحت کے شعبے میں نمایاں تبدیلیاں کرنی پڑیں، الایئڈ ہیلتھ پروفیشن کا قیام بھی ان تبدیلیوں کے عمل میں آیا جس میں 40 سے زائد انسانی صحت کے متعلق شعبے صحت کی نگرانی کےلئے وجود میں آئے۔
آٹھاریوں، انیسویں صدی سے دنیا نے نئی کروٹ لی ہے، علوم و فنون کی ترقی اور نئے علوم کا قیام اس دور کا خاصہ ہے مگر بدقسمتی سے یہ وہی دور ہے جس میں مسلمان زوال پذیر ہوئے۔ جبکہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں علوم کی ترقی کی رفتارپہلے کی نسبت کئی گنا تیز ہے اگر ہم موجودہ دور میں اپنی بقاء کے خواہش مند ہے تو ہر شعبے کے ماہرین و محقیقین پیدا کرنے ہوں گے۔اپنے نظام تعلیم کو پرائمری سے ہائر ایجوکیشن تک جد ید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔