میں پچھلے ایک ماہ سے یورپ کے مختلف ممالک کی سیاحت کررہا ہوں۔ استنبول سے ہوائی جہاز کے ذریعے ہالینڈ پہنچا اور پھر وہاں سے سڑک کے راستے فرانس۔ فرانس کے بعد ہوائی سفر کرکے بحیرۂ روم کی ایک چھوٹی سی ریاست مالٹا پہنچا جو یورپین یونین میں تیزرفتار ترقی کرتی ہوئی ایک معیشت ہے۔مالٹا سے بحری سفر کے بعد اٹلی کے ایک خودمختار صوبے سسلی، جہاں سے مافیا کی اصطلاح پوری دنیا میں متعارف ہوئی۔ سسلی سے اب اٹلی کے تاریخی شہر اور رومن کیتھولک جو دنیا میں سب سے بڑا مذہبی عقیدہ ہے، روم پہنچا ہوں۔ میں جتنے عرصے سے کتابوں سے علم کے حصول کے لیے منسلک ہوں، اتنے ہی عرصے سے مشاہداتی تجربات ومعلومات کے لیے سیاحت کررہا ہوں۔ روزِ اوّل سے میرے ان سفروں کی وجہ لوگوں کو جاننا، سیاحت کیے گئے خطے کی تاریخ، سیاست، تہذیب وتمدن، سماج اور اس کے آج کا مشاہدہ ہے۔ سیاسی جہاں گردی کے اس عمل میں چالیس سے زائد ممالک کی سیاحت کرچکا ہوں جن میں کچھ ممالک کا سفر بارہا کیا۔ ایسے ممالک میں ترکی سرفہرست ہے جہاں میں لگ بھگ چالیس مرتبہ اپنے مشاہدے کو جِلا بخشنے کی خاطر گیا۔ اسی طرح بھارت کے دس سے زائد، فرانس کے آٹھ سفر اور امریکہ کے آٹھ سفر شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، امریکہ، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور کسی حد تک لاطینی امریکہ تک ، میرے قدموں نے ان خطوں کو چھوا۔ کتابوں کے بعد میرے علم ومعلومات کا ایک بڑا ذریعہ یہ سفر ہی رہے ہیں۔ کئی مرتبہ مشاہداتی تجربات ومعلومات آپ کو ان رازوں تک لے جاتے ہیں جو آپ کتابوں پر چھپے حروف سے تلاش نہیں کرسکتے۔ یہ بات ہمارے ملک میں معیوب یا ناقابل یقین سمجھی جاتی ہے کہ آپ سیاحت سے علم کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ہمارے ہاں چوںکہ کسی بھی شعبے میں تحقیق کا فقدان تو کیا، اس کا وجود تک مٹتا جا رہا ہے، اس لیے وہ اہل قلم جو زیادہ تر مغربی دنیا کو جاتے ہیں، اُن کا مقصد محض سیرسپاٹا اور اپنی ذہنی، جنسی اور طبقاتی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح میں اس نتیجے پر بھی پہنچا ہوں کہ جب آپ کسی عالمی کانفرنس میں جاتے ہیں تو آپ Like Minded لوگوں میں ہی موجود ہوتے ہیں اور آپ اس خطے یا ملک کے بارے میں رائے بنانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جیسے چند سال قبل مجھے یونان، اٹلی، فرانس، ہالینڈ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے کٹڑ کمیونسٹوں کی کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے شمولیت کا موقع ملا۔ اُن کی تقاریر کے بعد یوں لگا، یورپی سرمایہ داری، یورپی یونین اور یورپی ریاستیں جس بحران کا شکار ہیں، بس تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ سب کچھ دھڑام سے آگرے گا۔ اس لیے کانفرنسوں سے آپ ریاست، سماج اور خطے کے بارے میں رائے آسانی سے نہیں بنا سکتے۔ میرے سفروں کا آغاز سرد جنگ کے زمانے میں ہوا۔ اشتراکی یورپ کی سیاحت بھی کی اور پھر مغربی دنیا ، یورپ اور امریکہ، اور پھر 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے فوراً بعد بھی۔ اس دوران یہ جاننا چاہا کہ دوسری دنیا (یعنی پاکستان، اسلامی ممالک اور مشرق کے علاوہ) کیسی ہے۔ ان تجربات و مشاہدات کو اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے قارئین سے بھی شیئر کرتا رہتا ہوں۔
9/11کے بعد یہ کہا جاتا رہا کہ مغرب میں Islamophobia کا آغاز ہو اہے، جوکہ مکمل طور پر درست رائے نہیں۔ 1997ء میں برطانیہ کے ایک اہم پالیسی ساز ادارے نے مغرب اور اسلامی دنیا کے چالیس لوگوں کو مصر میں اکٹھا کیا۔ برطانیہ کے اس پالیسی ساز ادارے نے مغرب اور اسلامی ممالک سے بیس بیس مندوبین کو دس دن کے لیے مختلف موضوعات پر گفتگو، بحث اور نقطہ نظر پیش کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ اس سمپوزیم کا موضوع تھا، Islam and West۔ مجھے بھی اس سمپوزیم میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس میں مغربی اور اسلامی دنیا کے معروف دانشوروں کو Keynote Speakers کے طور پر بھی بلوایا گیا جن میں تہذیبوں کے تصادم کا Hypothesisدینے والے معروف امریکی پالیسی ساز دانشور سیموئیل پال ہنٹنگٹن، حسین ہیکل، فنانشل ٹائمز کے انٹرنیشنل صفحے کے ایڈیٹر ایڈورڈ ماٹیمر جو بعد میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے چیف ایڈوائزر بنے اور احمت دعوت اولو بھی شامل تھے۔ احمت دعوت اولو اُس وقت پولیٹکل سائنس کے پروفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بعد میں ترکی کے سابق وزیراعظم جناب طیب اردوآن نے اُن کو اپنا وزیر خارجہ بنایا اور جب وہ خود وزارتِ عظمیٰ سے صدارت کی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے احمت دعوت اولو کو اپنی جگہ ترکی کا وزیراعظم بنا دیا۔ اس کانفرنس میں اسلام اور مغرب کے تصادم کے بڑے موضوع کے تحت کئی حوالوں سے گفتگو، بحث اور نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے۔ 1997 ء میں منعقد کی گئی اس کانفرنس میں اسلام پر ایک موضوع کے طور پر بحث کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ Islamophobia کا موضوع 9/11 سے بہت پہلے مغربی دنیا میں شروع ہوگیا تھا۔
ایک رائے یہ ہے کہ دیوارِبرلن گرنے کے بعد جب مشرقی یورپ میں اشتراکی حکومتوں کا خاتمہ اور پھر اس کے بعد سوویت یونین کے تحلیل ہوجانے کے بعد دنیا میں کمیونزم کے دو اہم مراکز منہدم ہوئے تو مغربی دنیا کو اب ایک اورہوّا درکار تھا جس سے وہ اپنی دنیا یعنی عوام کو خوف سے دوچار رکھیں، جیسے کمیونزم کا بھوت مغربی دنیا کے عوام کے دل ودماغ پر سات دہائیوں تک مسلط کیے رکھا، اب اس کی جگہ اسلام کا ہوّا بلکہ اسلامی دہشت گردی کا ہوّا۔ مجھے امریکہ میں 9/11سے پہلے اور بعد میں بھی سیاحت اور عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع ملے، جن میں ایک امریکی کانگرس میں ہی منعقد ہوا۔ 2003ء میں اس سمپوزیم میں میرا موضوع تھا،
Causes of Fundamentalism in Afghanistan and Pakistan
یہ بھی ایک اعلیٰ سطحی سمپوزیم تھا۔ لہٰذا 9/11 سے پہلے اور بعد میں مغربی دنیا کے تجربات، مشاہدات اور معلومات جو اپنی سیاسی جہاں گردی کے سبب حاصل ہوئیں، وہ اس رائے سے مختلف ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ 9/11 کے بعد مغربی دنیا میں اسلام کا بھوت کھڑا کیا گیا جبکہ دراصل اسلام کا ہوّا کھڑا کرنے کا آغاز 9/11 سے پہلے ہی ہوگیا تھا۔ یقینا 9/11 نے اس عمل اور حکمت عملی کو Enhance کیا۔
پاکستان میں 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان کی نوسیاسی جماعتوں نے جب بھٹو حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلائی تو یہ تحریک یکایک ایک مذہبی تحریک میں بدل دی گئی۔ اس پر پاکستان کا تمام بایاں بازو اور مذہبی جماعتیں بڑی نازاں تھیں۔ اس تحریک نظامِ مصطفی کے عروج کے دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کابینہ میں اپنے وزرا کو اس تحریک پر گفتگو کرنے کو کہا۔ سب نے اپنی اپنی رائے دی۔ آخر میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا جو تجزیہ پیش کیا، وہ قابل غور ہے اور اس مدبر رہبر کے وژن کا اظہار ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے تجزیے میں کہا، ’’حالیہ تحریک جو بھی ہے، جو بھی اس کے پیچھے ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ یہ تحریک پہلی مذہبی تحریک ہے، اس تحریک کے خونی اثرات بتدریج پھیل جائیں گے اور مذہب دنیا کی سیاست کا اہم عنوان ہوگا۔‘‘ اس کے بعد جیل کی کوٹھڑی سے انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک طویل خط لکھا جو کتابی شکل میں My Dearest Daughter کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اپنی اس اہم تحریر میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں کہا کہ آئندہ دنیا کی سیاست کے دو بڑے عنوان ہوں گے، مذہب اور قوم پرستی۔
9/11سے پہلے یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد یورپ کے اس خطے میں سربین، کروشین اور بوسنین جنگ، قوم پرستی کا ایک بڑا اظہار تھا، 9/11 کے بعد یقینا ایک نئی دنیا ہے۔ اور اس نئی دنیا کا سب سے بڑا عالمی موضوع اسلامی دہشت گردی ہے جس نے مغرب کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن متعدد اسلامی ممالک کا ستیاناس کردیا گیا ہے۔ عراق کی ریاست کھوکھلی، لیبیا، شام، افغانستان اور یمن کے ٹکڑے اور تقریباً تمام اسلامی ممالک میں اسلامی دہشت گردی کا جِن اپنی بربریت سے مسلمانوں اور اسلامی ریاستوں کو جس طرح ملیا میٹ کررہا ہے، اس کے بارے میں پاکستانیوں سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں چند چرب زبان جذباتی اور مغالطوں کی بنیاد پر تجزیے کرنے والے اس فضا کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ 9/11 کے بعدکیا اسلام، اسلامی دہشت گردی، مغربی دنیا کے لیے چیلنج ہے؟ کیا دس سے دو سو لوگوں کو کسی مغربی ملک میں دہشت گردی کرکے مغربی دنیا کو ڈھایا جا سکتا ہے اور اس کی اسلام کا غلبہ ہوجائے گا؟ یہ ایک طفلانہ نہیں بلکہ جنونی خواہش ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مغربی دنیا ، مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنے میں کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ وہ دہشت گرد ہیں جو اسلام، مسلمانوں کے نام پر چند مغربی شہریوں کو ہلاک کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مغربی دنیا کا کوئی ایک ملک بھی جب چاہے اپنی جدید ٹیکنالوجی سے لاکھوں لوگوں (مسلمانوں) کو ہلاک کرنے کی طاقت رکھتا ہے، جیسے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں لاکھوں لوگوں کو عالمی قوانین سے اجازت نامہ لے کر قتل کیا گیا۔
اسلاموفوبیا کے اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ عالمی سرمایہ داری کو ہے کہ وہ اس طرح اپنے ہاں ترقی پسند تحریکوں کو دبائے رکھنے کے لیے اسلام اور اسلامی دہشت گردی کے حوالے کے تحت لوگوں کو اکٹھا کیے رکھنے میں مصروف ہیں۔ مغربی دنیا کی اس قابض سرمایہ داری کو سب سے بڑا چیلنج آج بھی سوشلزم اور سوشلسٹ تحریکیں ہیں جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح ہرجگہ موجود ہیں۔ اگر اسلاموفوبیا کا ہوّا ہٹا دیا جائے تو مغرب کا عام انسان، تنگ نظر قوم پرستی، دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر عوامی تحریکوں کے ذریعے سرمایہ داری کو ڈھیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ 9/11 کے بعد عراق پر جنگ مسلط کیے جانے کے خلاف جتنی بڑی تعداد میں اور فکری شعور کے ساتھ آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں جنگ مخالف مظاہرے کیے گئے، اس کا عشرعشیر بھی اسلامی دنیا میں برپا نہیں ہوا۔ ان امن اور جنگ مخالف مظاہروں کی اصل طاقت مغرب کے ترقی پسند دانشور اور مختلف سیاسی وفکری تنظیمیں ہی تھیں۔ البتہ حالیہ سفر میں جو اہم چیز دیکھنے کو ملی، وہ یورپ میں آباد ہونے والے مختلف مسلمان ممالک کے خاندانوںکی بچیوں کے نقاب اور برقعے تھے اور اسی کے ساتھ پیرس، ایمسٹرڈیم، برسلز، نیپلز ،روم اور ویٹی کن سٹی کے اہم مقامات پر بندوقیں تانے فوجی اور بکتربند فوجی گاڑیاں ہیں۔ 9/11 کے بعد مغربی دنیا کی سرمایہ داری کو ریاست پر مزید کنٹرول کرنے کے کھلے مواقع ملے ہیں جس کے تحت انسانی آزادیاں محدود کی جارہی ہیں۔ ایسے میں اسلامی دنیا کے بم باز اور نقاب پوش نام نہاد مجاہدین درحقیقت عالمی سرمایہ داری کو مزید مضبوط کرنے میں مددگار ہیں، چیلنج نہیں۔
کیا لاہور، استنبول، حلب، بغداد، جکارتہ، کابل، تریپولی کے کسی مقام پر ٹیلی ویژن، سٹیج، جلسے جلوس میں جذباتی تقریر کرکے مغرب کے نہایت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے لیس نظام کو منہدم کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ لوگ مغرب کے لیے چیلنج ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو اس سرمایہ داری، عالمی سامراج کے مددگارہیں جس کے تحت مغربی دنیا میں ریاست مزید جبر کی طرف جا رہی ہے۔ ایمان داری سے اپنے تاثرات ایک نکتے میں عرض کرتا چلوں کہ آج بھی مغربی دنیا جس طرح اسلامی ممالک سے آئے کسی قسم کے مہاجر کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے، اس کا اظہار ترکی میں آئے شامی مہاجروں سے کہیں شان دار ہے۔ اس کا کریڈٹ مغرب کے باسیوں کو جاتا ہے اور اُن کے اندر موجود اس سیاسی فلسفے کو جس کی اپنے قلم سے آبیاری مغرب کے اندر ترقی پسند دانشوروں نے کی۔ مغربی دنیا کے اندر اسلاموفوبیا کے مددگار وہ لوگ ہیں جو اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔