کچھ سال پہلے ایک بھارتی گیت بہت مقبول ہوا، ’’چولی کے پیچھے کیا ہے؟‘‘ میں اُن چند ہزار لوگوں میں ایک ادنیٰ سا ایکٹوسٹ رہا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کا Prime Time جمہوریت کی بحالی کے لیے قربان کردیا۔ آج یہ الفاظ لکھنا میرے لیے بہت آسان ہے لیکن میں اپنے خدا کو حاضروناظر جان کر یہ کہہ رہا ہوں کہ گیارہ سال مسلسل دن رات ہم ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا خواب لے کر گلی گلی، گائوں گائوں، قریہ قریہ، قصبہ قصبہ اور شہر شہر سرگرداں رہے۔ ہماری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہی یہ تھا جبکہ میری عمر کے نوجوان اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ کیرئیر، شادی اور نہ جانے کس کس خواب کے ساتھ اس عمر میں مچلتے رہتے ہیں۔ یہ خواب اُن دنوں گھنائونے دنوں میں دیکھا جانے والا خواب تھا، جب جمہوریت بحال کرنے کے نعرے پر دس کوڑے اور پانچ سال قید سے لے کر آپ موت کے گھاٹ بھی اتارے جاسکتے تھے۔ 1977ء سے 1988ء تک یہ خواب ہی ہماری طاقت تھا۔ 1988ء میں حالات بدلے، انتخابات ہوئے اور ہماری رہبر محترمہ بے نظیر بھٹو، پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون حکمران بن کر دنیا بھر میں متعارف ہوگئیں اور انہی دنوں اُن کی کتاب ’’دخترِ مشرق‘‘ بھی منظرِعام پر آگئی۔ مجھے یاد ہے اس کتاب کی اشاعت سے کچھ ماہ پہلے لاہور انٹرنیشنل ہوٹل میں ایک تقریب کے دوران میں نے اپنی رہبر جمہوریت سے درخواست کی کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو پر انیس سال کی عمر میں ایک کتاب ’’میرا لہو، ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست وشہادت‘‘ لکھی ہے، آپ برائے مہربانی اس کا دیباچہ لکھ دیں۔ وہ بڑی خوش ہوئیں اور حیران بھی اور مجھ سے کہنے لگیں کہ میں نے بھی ایک کتاب لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ یہ وہی کتاب تھی جو چند ماہ بعد ’’دخترِ مشرق‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ انہوں نے بڑی عنایت کی اور میری کتاب کا دیباچہ لکھا۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو میں اپنی زندگی کی دوسری دہائی کو مکمل کرکے تیسری دہائی میں داخل ہونے والا ایک پُرجوش نوجوان تھا، جو جمہوریت سے انقلاب کا خواب دیکھ رہا تھا۔
انہی ماہ وسال میں بھارت کے معروف اشتراکی دانشور، آرٹ فلموں کے بانی، ادیب، صحافی اور الطاف حسین حالیؔ کے پڑوسی جناب خواجہ احمد عباس نے میرے ایک بھارتی سفر کے دوران، اپنے بھارت کے سب سے مقبول کالم “The Last Page” جو Blitz انگلش، اردو اور ہندی سمیت متعدد بھارتی مقامی زبانوں میں شائع ہوتا تھا، میرے ایک انٹرویو پر کالم لکھا، A Kafir from the Land of Pure۔ اس کالم میں خواجہ احمد عباس مرحوم نے جوشیلے نوجوان کے جمہوریت سے انقلاب کے خواب کو موضوع بنایا۔ اس اخبار کی کاپی اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ اگر جنرل ضیا کے ’’کارندوں‘‘ کو اس انٹرویو کا علم ہوجاتا تو دس پندرہ سال قید تو کچھ نہیں لیکن جو کسی عقوبت خانے میں میرا حشر ہونا تھا، وہ جاننے کے لیے میرے ایک ساتھی آغا نوید کی کتاب ’’دوسرا جنم‘‘ پڑھ کر اندازہ لگا لیں۔ تب جمہوریت کے اس خواب گر کی عمر تئیس سال تھی۔ اور جب 1988ء میں جمہوریت بحال ہوئی اور دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ابھی زندگی کی تیسری دہائی کو چھوا نہیں تھا۔ اپنی جان پر کھیل جانے والے ہزاروں نوجوانوں نے اس لمحے کے لیے اپنی زندگیاں تیاگ دیں اور یوں ایک نہتی لڑکی پاکستان کی وزیراعظم بنیں، لوگوں کے ووٹ سے، جس کے حق کے لیے گیارہ سال راقم سمیت ہزاروں بے چہرہ، بے نام، افتادگانِ خاک نے خود کو قربان کردیا۔
بے نظیر بھٹو نے منتخب وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ یہ دیکھ کر آنکھیں اطمینان اور کامیابی کے جذبات سے اشکبار ہوگئیں۔ ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی۔ حلف کے بعد منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیا کے جانشین چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت سے نوازا۔ آنکھیں حیران، دل مضطرب اور دماغ مائوف۔ تب معلوم ہوا، جمہوریت کے پیچھے کیا ہے؟ جمہوریت ہوتو، اور نہ بھی ہو تو بھی۔ پھر ہم نے ہر جمہوریت کے قیام اور بحالی پر دیکھا، جنرل مشرف ہوں، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف۔۔۔ ہر منتخب وزیراعظم، اس کی حکومت اور وزیراعظم کے خیرخواہوں نے سپہ سالاروں کے گیت گائے۔ فوج کے سپہ سالار اور جمہوریت کے سپہ سالار، ہر دور میں ایک دوسرے کی تعریفوں کے پُل باندھتے دیکھے گئے۔
پاکستان کی جمہوریت کی کہانی وہ نہیں جو دکھائی اور پیش کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے حقیقت میں ولن ہیروز ہیں اور ہیروز ولن ہیں۔ جمہوریت کے سپہ سالاروں نے کس قدر جمہوریت کو بحال کیا، یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، پاکستان کے ’’جمہوری خاندانوں‘‘ کو کہ کیسے آمریت کے دوران وہ بنتے اور پنپتے ہیں اور جمہوریت کی بحالی پر پھیلتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا ’’جمہوری خاندان‘‘ شریف خاندان ہے۔ آمریت کے خلاف جدوجہد سے لے کر قیادت کا پرچم اٹھانے تک، اور پھر اقتدار کے مزے لوٹنے تک، اس خاندان کی داستانِ جمہوریت پھیلتی جارہی ہے، مضبوط سے مضبوط تر۔ اس کو کہتے ہیں ’’جمہوریت کی مضبوطی‘‘۔ اگر کوئی مضبوط نہیں ہورہا تو وہ ہیں جمہور، جو ان جمہوری خاندانوں کی اقتداری طاقت ہیں۔ ایک شخص نے پرچم بلند کیا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘، اُس کو سولی پر جھولا دیا گیا کہ وہ اس ’’جمہوریت‘‘ نہیں بلکہ جمہور کی بات کرتا تھا۔ اس سے پہلے اور بعد میں جو ہوا، ان کہانیوں کے ہیروز اور ولن گھل مل گئے ہیں۔ کبھی آپ کسی کسان سے پوچھیں کہ اگر آپ سے ووٹ کا حق لے کر زمین کی ملکیت کا حق دیا جائے تو اس کا جو جواب ہوگا، وہ فیصلہ کرے گا کہ جمہوریت کسے کہتے ہیں۔ حکمران طبقات اور اُن کی دُم چھلی مڈل کلاس اور کچھ لمپن پرولتاریہ اس جمہوریت کے علمبردار ہیں جو رائج ہے اور وہ اس کا تسلسل بھی چاہتے ہیں۔ جمہوریت کی تعریف کسان اور محنت کش جو کرے گا، آپ اس کالم جو پڑھ کر جواب خود جان سکتے ہیں۔ آپ کو پرچی کا حق دے کر اپنے ہاتھوں میں برچھیاں پکڑنے والے کیسی جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ کسی مِل مزدور سے سوال کریں کہ آپ کی تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر، بچوں کی تعلیم اور صحت کی ذمہ داری ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ہم آپ سے ووٹ کا حق چھین رہے ہیں۔ تب آپ جان جائیں گے کہ حقیقتاً یہ کیسی جمہوریت ہے۔ اور حقیقی جمہوریت کیا ہے۔ کرپشن کا واویلا مچانے والوں نے بھی محنت کے استحصال پر آواز اٹھانے کی بجائے خوب صورت نعرہ بلند کیا ہے اور حکمران طبقات کی دُم چھلا مڈل کلاس، ایڑیاں اونچی کرکے اس کے ساتھ شامل ہے۔۔۔ یہ سب ایک ایسے ڈرامے کے کردارہیں جہاں آج کے ولن کل کے ہیرو اور کل کے ولن آج کے ہیرو ہیں۔