امریکہ نے صدام حسین کا عدالتی قتل 30 دسمبر 2006ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1427ھ (عید الاضحی کے دن) کیا امریکہ نے سمجھا کہ اس نے اپنے مخالف کو پھانسی دے کر ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ صدام کو پھانسی دی جا سکتی تھی لیکن اس کے نظرئیے نہیں۔
وہ آج بھی زندہ ہے، لاکھوں دلوں میں ،کتابوں میں اور تاریخ کے آئینے میں۔ آئیے اس جرأت اور بہادری کے پیکر کے وہ لمحات بھی ملاحظہ کریں جب اسے قضا نے آ لیا او رموت اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی لیکن صدام ثابت قدم کھڑا رہا۔ اس کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔
امریکا عراق پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے ایک سابق رہنما نے بغداد میں صدام حسین سے بی بی سی کے لیے ایک انٹرویو کیا، جو بعد میں بی بی سی چینل فور سے نشر کیا گیا۔ (کہا جاتا ہے، یہ انٹرویو، صدام حسین کے آئندہ عزائم کا سراغ لگانے کے لیے کیاگیا۔)
صدام حسین سے پوچھا گیا: ’’(امریکی حملے کی صورت میں) کیا وہ جلاوطنی اختیار کرنا چاہیں گے؟‘‘ صدام حسین نے بی بی سی کے نمائندے سے اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا، اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ صدام حسین امریکی جارحیت کے خلاف ڈٹ جانے اور اپنے آپ کو امریکی استعمار کے خلاف، بہ طور ایک شہید کے ، پیش کرنے کا عزم کر چکے تھے۔
صدام حسین کا کہنا تھا: ’’مَیں یہاں عراق میں پیدا ہوا ہوں، اور مجھے اس بات پر فخر ہے۔ مجھے اس بات پر بھی ناز ہے کہ میں غیر اللہ سے نہیں، صرف اللہ سے ڈرتا ہوں۔ مَیں نے
اپنے بچو کو بھی ڈٹ جانے کے لیے کہہ دیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں، اگر کوئی لیڈر خود، یا کسی کی
درخواست پر مشکل حالات میں اپنی قوم کو چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کر لیتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے، اسے اپنے حق پر ہونے کا یقین نہیں۔ اس لیے، مَیں نے اور میرے ساتھیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائیں گے او ریہیں اپنی سرزمین پر جان قربان کریں گے۔ ہم اپنی عزت اور غیرت پر کوئی سمجھونہ نہیں کریں گے۔‘‘
19اکتوبر 2006ء صدام حسین پر دجیل قتل کیس کے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوتا ہے۔ جج روف عبدالرحمن صدام حسین سے پوچھتا ہے: ’’آپ کون ہیں؟ اپنی شناخت کرائیں؟‘‘
صدام حسین جواباً کہتے ہیں: ’’پہلے یہ بتائو، تم کون ہو؟میں واقعتا جاننا چاہتا ہوں کہ تم کون ہو؟ ا س لیے کہ مَیں تو یہاں صبح آٹھ بجے سے بیٹھا ہوں۔‘‘
جب جج نے طنزاً کہا کہ خاطر جمع رکھیے اور بیٹھ جائیے۔ تو صدام حسین نے مسکرا کر کہا: ’’تم جانتے ہو، مَیں تھکتا نہیں ہوں۔‘‘
پھر صدام حسین نے وہاں موجود لوگوں کو گواہ بنا کے کہا: ’’مَیں بہ صد احترام اور عراقی عوام کی خواہش کے پیشِ نظر واشگاف الفاظ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں اس نام نہاد عدالت کو نہیں مانتا۔ مَیں اس اتھارٹی کو بھی نہیں مانتا، جس کے احکامات کے تحت عدالت کا یہ سیٹ لگایا گیا ہے۔ امریکا کے ایما پر اس عدالت میں جو الزام مجھ پر لگایا جا رہا ہے، مَیں اس کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ یہ سب جھوٹ ہے۔‘‘
13فروری 2006ء کو صدام حسین کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی نعرہ مستانہ بلند کر دیتے ہیں؛ ’’مَیں تمام عراقیوں سے کہتا ہوں کہ امریکی فوجوں کے خلاف لڑو، اور اپنے وطن کی سرزمین کو آزاد کرائو۔ بش مردہ باد، عراقی قوم زندہ باد، مجاہدین زندہ باد۔‘‘ کنگروکورٹ کے جج کو غصہ آ جاتا ہے ، اور وہ زور سے عدالتی ہتھوڑ امیز پر مارتا ہے۔ صدام حسین کہتے ہیں: ’’اس عدالتی ہتھوڑے سے اپنے سر پر ضرب لگائو۔ جب صدام حسین سے کہا جاتا ہے کہ ان پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے، تو صدام حسین غضب ناک ہو کر کہتے ہیں: ’’یہ جھوٹا مقدمہ ہے، خون تو امریکا کر رہا ہے، معصوم عراقیوں کا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں عراقی عوام سے مخاطب ہو کر ان سے کہہ رہا ہوں کہ اٹھو اور امریکیوں کو عراق کی مقدس سر زمین سے نکال دو۔‘‘ جج طنزاً کچھ کہتاہے، توصدام حسین تمکنت سے بھرپور لہجے میں جواب دیتے ہیں: ’’مَیں صدام حسین ہوں، عراق کا صدر: میں تم اور تمہارے باپ (امریکا) سے اوپر ہوں۔‘‘
5نومبر 2006ء کو امریکا کی ’’کنگرو کورٹ‘‘ کا سیٹ پھر لگا ہوا ہے۔ حیرت ہے، فیصلہ ابھی نہیں سنایا گیا، مگر ا سکے باوجود عدالت میں فیصلہ سننے کے لیے موجود سبھی لوگوں کو معلوم ہے کہ کیا فیصلہ سنایا جانے والا ہے۔ ظاہر ہے، صدام حسین بھی اس سے بے خبر نہیں۔ صدام حسین کے ہاتھ میں قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے، جسے قید ہونے کے بعد سے، وہ ہر وقت پڑھتے اور سینے سے لگائے رکھتے تھے۔ صدام حسین مسکراتے ہوئے کمرہ عدالت میں آتے ہیں، اور اپنے لیے مخصوص نشست پر بیٹھ جاتے ہیں۔ صدام حسین نے ہمیشہ کی طرح اپنے پسندیدہ گہرے رنگ کا سوٹ اور سفید قمیص پہن رکھی ہے۔ چہرے پر بشاشت ہے۔ جج فیصلہ سنانے سے پہلے صدام حسین کو کہتاہے: ’’کھڑے ہو جائیں۔‘‘ صدام حسین بہ دستور بیٹھے رہتے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس جج اور اس عدالت کے لیے احتراماً اٹھنا میری غیرت کے منافی ہے۔ جج کے حکم پر عدالتی کارندے صدر صدام حسین کے بازوئوں کو پیچھے سے جکڑ کر انہیں زبردستی کھڑا کر دیتے ہیں۔ پھر جج عجلت میں اپنا فیصلہ پڑھ کر سناتا ہے…… صدام حسین کو پھانسی دینے کا حکم صادر ہوتا ہے۔ صدام حسین فیصلہ سنتے ہی بلند آواز سے نعرہ لگاتے ہیں؛ ’’عراق زندہ باد، عراقی قوم زندہ باد۔ اللہ اکبر۔ امریکی قابضوں سے اللہ بڑا ہے۔ اللہ اکبر۔‘‘ ایک عینی شاہد کا کہناہے کہ پھانسی کی سزا سننے کے بعد، جب صدام حسین کمرۂ عدالت سے باہر نکلے، تو ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ امریکا کی ہیبت خاک میں ملاتی معلوم ہو رہی تھی۔ ادھر کمرۂ عدالت سے باہر، عراق کے کوچہ و بازار میں کرفیو کی پابندیوں کے باوجود بچے، بوڑھے اور جوان ’’بالروح بالدم، فدیک یا صدام‘‘ (صدام حسین، ہم دل و جان سے تم پر قربان ہیں۔)کے نعرے بلندکرتے ہیں۔
سزائے موت کا فیصلہ سننے کے بعد، صدام حسین نے اپنے وکلا کو قانونی معاملات اپنے طریقے سے آگے بڑھانے کی ہدایات دیں، مگر وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے ہیں کہ امریکا ان کی جان لیے بگیر ٹلنے والا نہیں۔ چنانچہ صدام حسین نے موت کے استقبال کے لیے ہر طرح سے اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے۔ (یہ بات اہم ہے، امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے صدام حسین کو سزائے موت دینے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر منظر عام پر لایا گیا، جب امریکا میں دو دن بعد، وسط مدتی انتخابات ہونے والے تھے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا خیال تھا کہ صدام حسین کو سزائے موت دینے کا فیصلہ، ان کے لیے انتخابی طور پر ممد و معاون ثابت ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بش کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی، او رڈیموکریٹس نے ان پر واضح برتری حاصل کر لی، مگر صدام حسین کے مقدمے پر اس کا جو فال اوٹ ہوا، اس کے تحت بش نے عجلت میں صدام حسین سے مکمل نجات پانے کے لیے کارروائی شروع کر دی)۔ مقدمے کی سماعت کے دوران، صدام حسین کو ان کے وکلا نے یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ عدالت میں ان کو اپنا آخری بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت لازماً دی جائے گی ، مگر ایسا نہیںہو سکا تھا۔ چنانچہ صدام حسین نے عراقی عوام کے نام اپنا آخری خط تحریر کیا، اور مسلم امہ اور اہل عراق کو خدا حافظ کہا۔ صدام حسین کے اس آخری خط کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق، صدام حسین نے کہا:
’’مَیں نے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی ہے، اور ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ مجھے اپنے سچے بندوں اور شہداء میں شامل کرے گا۔ میری روح ربِّرحیم کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مَیں عوام سے کہتا ہوں، وہ دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں۔ امریکی حملہ آور اور ایرانی تمہارے دشمن ہیں، جنہیں تمہارا اتحاد اپنی راہ میں رکاوٹ نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ تمہارے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حملہ آوروں سے نفرت نہ کی جائے، کیونکہ کہ نفرت انسان کو اندھا، اور اس کے سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے۔ جارحیت کرنے والوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو مداخلت کاروں کے خلاف جدوجہد میں تمہاری مدد کر رہے ہیں، اور کچھ نے تو اپنی خدمات، عراقی قیدیوں کی قانونی امداد کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ جب کہ بہت سے دوسرے لوگ جارحیت کرنے والوں کے سیکنڈل منظر عام پر لانے کافریضہ انجام دے رہے ہیں، اور جارحیت کرنے والوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ مَیں عدالت میں اپنا آخری بیان دینا چاہتا تھا، اور تفصیل کے ساتھ اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا، جو عراق اور اہل عرا ق کے خلاف کی جا رہی ہے۔ میرے وکلا نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا موقع دیا جائے گا (مگر ایسا نہیں ہوا اور) جج نے کسی شہادت اور وضاحت کے بغیر جارحیت کرنے والوں کی طرف سے ڈکٹیٹ کردہ سزا سنا دی ہے۔ مَیں عراقی قوم پر قربان ہونے کے لیے تیار ہوں۔ اللہ اکبر، عراق زندہ باد، عراقی قوم زندہ باد، مجاہدین زندہ باد، فلسطین عربوں کا ہے، امریکا ایران مردہ باد۔‘‘
30دسمبر 2006ء کو بغداد ائرپورٹ کے قریب امریکی فوجی ’’کیمپ کرائر‘‘ میں صدام حسین کو ان کے کمرے میں جا کر بیدار کیا گیا۔ یہ کمرہ چوڑائی میں چھ فٹ اور لمبائی میں آٹھ فٹ تھا، جس میں صدام حسین کو ایک چار پائی، ایک میز، دو پلاسٹ کی کرسیاں اور دو واش بیسن مہیا کیے گئے تھے۔ صدام حسین کے ایک امریکی نگہبان کے بہ قول، صدام حسین کم ہی کوئی شکایت کرتے تھے، اور تسلیم و رضا کا پیکر معلوم ہوتے تھے۔ صدام حسین کے کمرے کے باہر ایک کیاری تھی جسے وہ باقاعدگی سے پانی دیتے تھے۔ صدام حسین کہا کرتے: مَیں جوانی میں ایک کسان تھا۔ مَیں کبھی نہیں بھولا کہ میرا ماضی کیا ہے۔‘‘ (نگہبان کے مطابق) ایک با ر صدام حسین نے بتایا، جب ان کے بچے چھوٹے تھے، تو وہ اکثر بچوں کی فرمائش پر، انہیں سونے سے پہلے کہانیاں سنایا کرتے تھے، اور معدے کی خرابی میں مبتلا اپنی بیٹی کو دوائی دینا نہیں بھولتے تھے۔ نگہبان کا کہنا تھا: ’’صدام حسین انتہائی حد تک بے خوف آدمی تھے۔ موت کو تو جیسے وہ کوئی خوف زدہ کرنے والی چیز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ نہ وہ کسی پچھتاوے کا شکار معلوم ہوتے تھے۔ وہ مکمل یقین سے کہتے کہ جو کچھ بھی انہوں نے کیا، صرف عراق اور اہل عرا ق کے لیے کیا۔ ایک بار صدام حسین نے مجھ سے (نگہبان سے) پوچھا کہ تم امریکی ہو،تم بتائو، امریکا نے عراق پر حملہ کیوں کیا؟ حالانکہ عراق میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، عوام خوش حال تھے، حکومتی نظام بالکل صحیح طور پر کام کر رہا تھا، اور اسلحہ کے معائنہ کاروں کو بھی کچھ نہیں ملا تھا۔ مَیں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، تو صدام حسین مسکرا دیے۔ جب بستر مرگ پر پڑے ہوئے اپنے بھائی کو دیکھنے کے لیے مجھے واپس امریکا جانا پڑا تو صدام نے اٹھ کر مجھے گلے سے لگا لیا، میرے ساتھ اظہار ہم دردی کیا اور حوصلہ دیا۔ مَیں یہ کبھی نہیں بھلا سکوںگا۔‘‘
متوفق الربیعہ نے شہادت دی ہے کہ جب صدام حسین کو (عارضی نیند سے اٹھا کر دائمی نیند سلانے کے لیے) جگایا گیا، تو ان کے اعصاب پوری طرح ان کے قابو میں تھے: یہ ایسا منظر تھا، جو کسی بھی دیکھنے والے کو ہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ صدام حسین نے وضو کیا اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ نماز ادا کی، شکرانے کے نفل پڑھے۔
صدام حسین کو ناشتہ پیش کیا گیا، جو انہوں نے اطمینان کے ساتھ کھایا اور حکام کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد اپنے اقربا کو خطوط لکھے۔
صدام حسین نے نہایت سکون کے ساتھ اپنے سارے کام نمٹائے، اور پھر پھانسی گھاٹ روانہ ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ادھر وسط شب کے لگ بھگ، بغداد کے گرین زون میں قائم ہیلی پیڈ پر دو ہیلی کاپٹر اترے، اور ان میں سے تقریباً 120افراد اتر کر ’’الکاظمیہ‘‘ کی طرف روانہ ہو گئے، جہاں کسی زمانے میں صدام حسین کی انٹیلی جنس کا مرکز قائم تھا، اور جسے آج صدام حسین کے لیے پھانسی گھاٹ بنایا جا رہا تھا۔ ان 120افراد کے بارے میں اب یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ سبھی مقتدیٰ الصدر کے حامی، اور صدام حسین کے جانی دشمن تھے۔ (کہا جاتا ہے، پھانسی کے انتظامات، نوری المالکی کے معتمدباسم الحسینی کے سپرد کیے گئے اور پھانسی کی ’’عکس بندی‘‘ کا کام علی المسدی کے ذمے لگایا گیا، جو نوری المالکی کا سرکاری ویڈیو ریکارڈر اور فوٹو گرافر ہے۔) 30دسمبر کو علی الصباح5بجے کے قریب صدام حسین کو کیمپ جسٹس لا کے انہی 120افراد کے حوالے کیا گیا۔ یہ بات اہم ہے کہ صدام حسین کو امریکیوں نے پھانسی سے پہلے آخری وقت تک اپنی تحویل میں رکھا، جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی کہ ہر کام امریکا کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔
بغداد کی یہ صبح ایک عجیب طرح سے طلوع ہو رہی تھی۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے، صدام حسین راضی بہ رضا لگ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ موت کا خوف انہیں چھو کر نہیں گزرا۔ وہ گارڈز کی معیت میں اس طرح چل رہے تھے، جیسے بہ طور صدر کسی Inauguration میں جا رہے ہوں۔ صدر دروازے سے صدام حسین کو سرخ ریلنگ والے پھانسی کے کمرے میں لایا گیا، جہاں تین نقاب پوش جلادوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ نقابوں کے پہنے ہونے کے باوجود صدام حسین کے لیے ان کو پہچاننا مشکل نہیں تھا۔ ان کی گہری بھوری جلد اور ان کا لہجہ چغلی کھا رہا تھا کہ ان کا تعلق عرا ق کے جنوب میں واقع اس علاقے سے ہے، جہاں ان کے دور اقتدار میں غیر ملکی اشارے پر ان کے خلاف دو بغاوتیں ہوئیں۔ یہاں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے، مثلاً ڈپٹی پراسیکیوٹر منکث، ڈپٹی چیف جج (ہائرٹریبیونل) منیر الحداد، رکن پارلیمنٹ سمیع العسکری۔ کیمپ کراپر سے کیمپ جسٹس کا سفر کچھ زیادہ نہیں تھا، مگر صدام حسین نے سردی کے پیش نظر سر پر اونی ٹوپی پہن لی تھی۔ یہ ٹوپی 1940ء کی دہائی والے سٹائل کی تھی۔ سفید شرٹ، کالاپاجامہ اور کالا کوٹ ماضی کی یادگار معلوم ہو رہے تھے۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے: کمرے میں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی ، اور کمرہ بہت زیادہ ٹھندا لگ رہا تھا۔ یہاں صدام حسین نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی کہ کس کس کی مہر ہے۔ سر محضر لگی ہوئی۔ صدام حسین کو جج کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ صدام بیٹھ گئے، تو جج نے بلند آواز سے موت کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔ صدام حسین نے پورے جوش سے اور یقین کے ساتھ نعرے لگائے: ’’اللہ اکبر، عراق زندہ باد، عراقی عوام زندہ باد، فلسطین عربوں کا ہے۔‘‘ جب تک جج موت کا حکم نامہ پڑھتا رہا، صدام حسین مسلسل نعرے لگاتے رہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ جج خاموش ہوا، تو صدام حسین بھی خاموش ہو گئے۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک عجیب ولولہ انگیز منظر تھا۔ صدام حسین کی آنکھوں میں ایک چمک، ان کے لہجے میں ایک دمک، اور ان کے اعصاب میں ایک سکون تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں: آدمی مجرم ہو تو اسے یہ کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
ساڑھے پانچ کا وقت تھا۔ باہر بغداد میں فضا مؤذن کی اذان سے گونج رہی تھی، اور اندر تختہ دار پر صدام حسین امریکا کے خلاف اذان حق اور نعرۂ تکبیر بلند کر رہے تھے۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر …… اللہ اکبر، اللہ اکبر
اشھد ان لاالہ الا اللہ اشہد ان لاالہ الا اللہ
اشہدان محمد رسول اللہ، اشہد ان محمد رسول اللہ
پھانسی سے پہلے کی آخری قانونی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ صدام حسین کو پھانسی گھاٹ کی ریلنگ کی طرف چلنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ صدام حسین نپے تلے قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ متوقع الربیعہ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ صدام حسین بہ دستور سر پر اونی ٹوپی پہنے اور ہاتھ میں قرآن پاک کا نسخہ تھامے ہوئے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے، اب و ہ سر سے اونی ٹوپی اتار دیں۔ ان کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد، ایک گارڈ خود ہی آگے بڑھ کر اسے اتار لیتا ہے۔ پھر صدام حسین سے کہا جاتا ہے، وہ اپنا قرآن پاک کا نسخہ کس کو دینا چاہیں گے؟ وہ کہتے ہیں، اسے ان کے دوست عود البندر٭ کے بیٹے کے سپرد کر دیا جائے۔
صدام حسین کے ہاتھ ان کی پشت پر باندھ دیے جاتے ہیں۔ صدام، متوفق الربیعہ کی طرف دیکھتے ہیں، اور مسکرا کر کہتے ہیں: ’’ڈرو نہیں۔‘‘ متوفق، جو صدام حسین کی حوصلہ مندی سے مرعوب نظر آتا ہے، اس کی سمجھ میں نہیں آتا، وہ صدام حسین کے اس،اچانک حملے کا کیا جواب دے۔ وہ خاموش ہو رہتا ہے۔ کمرے میں چند منٹوں کے لیے ایک بار پھر گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے۔ صدام حسین بلند آواز سے درود شریف پڑھنے لگتے ہیں۔
اللھم صلی علی محمد ﷺ وعلی آل محمدﷺ
متوفق الربیہ آگے بڑھ کر صدام حسین سے سرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں: ’’ڈر لگ رہا ہے؟‘‘ صدام حسین مڑ کر متوفق کی جانب دیکھتے ہیں اور پھر حیات بخش لہجے میں گویا ہوتے ہیں: ’’نہیں، بالکل نہیں! مَیں ایک مجاہد ہوں۔ مجاہد موت سے نہیں ڈرتا۔ مَیں نے اپنی ساری زندگی
٭ یاد رہے چند دن بعد عود البندر کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی۔
جارحیت کے خلاف لڑتے، اور کافروں کے خلاف جہاد کرتے گزاری ہے، اور جو جہاد کا راستہ منتخب کرتا ہے، اور جہاد کے راستے پر چلتا ہے، اسے موت سے خوف نہیں آتا۔ شہادت کی موت میری آرزو تھی اور مَیں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری یہ آرزو پوری کر دی ہے۔‘‘
متوفق ایک لمحے کے لیے رکتا ہے، اور محمد صادق الصدر کے قتل کے بارے میں پوچھتا ہے۔ مقتدا کا نام سن کر صدام حسین نفرت سے زمین پر تھوک دیتے ہیں۔ مرنے والے کو آخری لمحوں میں اتنا بے خوف دیکھ کر مقتدا کے حامی مشتعل ہونے لگتے ہیں۔ مقتدا کے حامیوں کو کچھ نہیں سوجھ رہا کہ وہ کیا کریں؟ صدام حسین موت کے اتنا قریب پہنچ کر بھی ان پر بھاری پڑ رہا تھا۔ سرخ ریلنگ کے قریب پہنچ کر صدام حسین کے پائوں کو اس طرح باندھ دیا جاتا ہے کہ وہ صرف چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر تختہ دار کے عین اوپر پہنچ سکیں، اتنی دیر میں گارڈ چیخنے کے انداز میں مقتدی الصدر کے نام کے نعرے لگانے لگتے ہیں: ’’مقتدیٰ! مقتدیٰ! مقتدیٰ‘‘
صدام حسین کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھرتی ہے، اور وہ نعرہ لگانے والو ں کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں: ’’کیا تم لوگ اپنی بہادری اسی طرح دکھاتے ہو؟‘‘
ایک گارڈ چلا کر کہتا ہے: ’’تم نے ہمیں برباد کر دیا۔‘‘
صدام حسین اس کے جواب میں کہتے ہیں: ’’مَیں نے تمہیں بے کسی، محتاجی اور غربت سے بچایا، اور تمہارے دشمنوں امریکیوں او رایرانیوں کو تباہ کیا۔‘‘
ایک گارڈ چلاتا ہے: ’’سیدھے جہنم میں جائو۔‘‘
صدام پورے یقین اور اعتماد سے کہتے ہیں: ’’جہنم میں تم جائو گے، مَیں تو جنت میں جا رہا ہوں۔‘‘ مقتدیٰ کا ایک حامی پھر چیختا ہے: ’’لعنت ہو تم پر ……‘‘
صدام حسین ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں: (مجھ پر نہیں) ’’تم پر ……‘‘
ہجوم کا شور بلند ہوتا جاتا ہے۔ صدام حسین اب ہجوم سے توجہ ہٹا کے، پھر سے مسنون درود شریف کا ورد کرنے لگتے ہیں:
اللھم صل علی محمد ﷺ وعلی آل محمد ﷺ ……
اس کے بعد صدام حسین بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھتے ہیں:
’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشہد ان محمد رسول اللّٰہ ﷺ‘‘
صدام حسین کے اردگرد شور بڑھتے دیکھ کر، ڈپٹی پراسیکیوٹر نے مداخلت کرتے ہوئے گارڈز کو دور رہنے کی ہدایت کی۔ اس کا کہنا تھا: ’’مَیں تمہیں صدام پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اور اگر تم لوگ باز نہ آئے تو مَیں یہاں سے چلا جائوں گا۔‘‘
پھر ایک اور آواز بلند ہوتی ہے: ’’کچھ تو خدا کا خوف کرو۔‘‘
قانونی طور پر، پھانسی کے وقت پراسیکیوٹر کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے، اس لیے شور کچھ دیر کے لیے مدھم پڑ جاتاہے۔
صدام حسین ریلنگ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان کا سر، بلند ہے۔ آنکھوں میں موت کا خوف کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ وہ اللہ اکبر، عراق زندہ باد، اہل عراق زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، اور امریکا اور ایران پر ملامت بھیج رہے ہیں۔ صدام حسین کی سرکشی نے پھانسی گھاٹ کے آس پاس موجود ہر آدمی کو دم بخود کر رکھا تھا۔ ایک جلاد آگے بڑھ کر صدام حسین کے چہرے پر کالا نقاب پہنانا چاہتا ہے۔
صدام حسین اسے اشارے سے روکتے ہیں، اور حوصلہ مند آواز میں کہتے ہیں: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں، مَیں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
جلاد پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پھر جلاد کہتاہے: ’’گردن کے گرد سکارف لپیٹ لیں۔‘‘
صدام حسین سر کے ہلکے سے اشارے سے ہاں کہتے ہیں۔ جلاد ان کی گردن کے گرد سکارف لپیٹ دیتا ہے: اور پھر پھانسی کا رسہ ان کے گلے میں ڈال کر کسنے لگتا ہے۔ صدام حسین کے چہرے پر ایک حیات بخش کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
جلاد کہتا ہے: کوئی آخری خواہش؟
صدام کہتے ہیں: ’’نہیں، تم اپنا کام کرو۔‘‘
صدام حسین آخری بار اللہ اکبر، عراق زندہ باد، عراقی قوم زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ بلند آواز میں کہتے ہیں: ’’فلسطین عربوں کا ہے۔‘‘ اس کے بعد امریکا اور ایران پر ملالت بھیجتے ہیں اور پھر ہر طرف سے یک سو ہو کر کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگتے ہیں:
اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد رسول اللّٰہ ﷺ
ایک بار پھر ان کی آواز گونجتی ہے، اور شاید آخری بار……
اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمد رسول اللّٰہ ﷺ
اتنے میں کوئی تختہ دار کا لیور کھینچ دیتا ہے۔ (انا اللہ وانا الیہ راجعون)