اگر ہم پاکستان کے ستر سالوں پر جذباتی ہوئے بغیر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے آزادی کے بعد کیا کھویا کیا پایا۔ آزادی کے بعد 1947ء تک تو ہم نے آزادی کا سفر مکمل کیا، بحیثیت قوم ہمارا سفر تو 14اگست 1947ء کے بعد شروع ہوا۔ انگریز سے آزادی اور متحدہ ہندوستان میں نہ رہنے کا فیصلہ اس لیے کیاتھاکہ آزاد ہونے والی ریاست ہر قسم کے استحصال سے پاک، خوش حال قوم اور ایک ترقی یافتہ وجمہوری ریاست کی تکمیل کی جاسکے۔ یقینا جب بات حقائق پر کی جائے تو اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس خودمختار ریاست و قوم کے ستر سالوں کے سفر میں لاتعداد نشیب وفراز ہیں۔ حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن گیا۔ لیکن جو ممالک ایٹمی طاقت نہیں، کیا وہ دنیا کی ناکام ریاستیں یا قومیں ہیں، جن میں نہایت جدید، ترقی یافتہ، خوش حال اور جمہوری ریاستیں سرفہرست ہیں۔ آج قوموں کی ترقی کا معیار وہاں کی ریاست کا زیادہ سے زیادہ جمہوری (Democratise) ہونا، تعلیم یافتہ معاشرہ، صحت کا نظام، سفری سہولتیں، روزگار کے مواقع، فی کس آمدن، غربت کا نہ ہونا، قانون کی بالادستی اور دیگر نکات ہیں جو کسی قوم کی کامیابی کا ثبوت ہیں۔ اس کے ساتھ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذکر کیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا کی واحد مثال ہے جہاں اکثریت نے اپنے سے کم آبادی والی ریاستی اکائی سے علیحدگی یا آزادی حاصل کرلی۔ اور اس پر بحیثیت قوم ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سانحے کی تمام تر ذمہ دار دویا چار شخصیات ہیں۔ قومی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ ایک جذباتی بیان ہے۔ کچھ تو معاملہ تھا کہ اکثریت آبادی (مشرقی پاکستان) نے اپنے سے کم آبادی (مغربی پاکستان) کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کیا۔
بحیثیت قوم ہمارا سیاسی سفر دل خراش ہے۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے، وفاق میں رہنے والی اکائیاں کیا پاکستان میں برابر کی سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حصہ دار ہیں؟ ہمارے ہاں پنجاب کے چند بڑے شہروں میں رہنے والا ایک طبقہ مسلسل پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی ایک نہایت جذباتی تشریح کررہا ہے۔ وہ لوگوں کے حقوق کی بجائے، علامہ اقبالؒ کے اشعار اور اپنے جذبات میں لتھڑی خواہشات پر قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی عطاکردہ ریاست کے باسیوں کی بجائے اُن تصورات کو پیش کرتا ہے جن کا زمین اور حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر پاکستان کے لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں، خوش حالی عام ہوجائے، انصاف کا بول بالا ہوجائے، صحت کی سہولیات عام ہوجائیں، معاشرہ تواہم پرستی کی بجائے سائنٹفک بنیادوں پر ترقی کرجائے تو ہم اُس پاکستان کی تکمیل کر پائیں گے جس کے لیے قائداعظمـؒ نے علیحدہ ریاست کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر ہم ان ستر سالوں کو غور سے دیکھیں تو ایک دلچسپ اور عجیب حقیقت ابھر کر سامنے نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ تقریباً ہر دس سال بعد پاکستانی قوم آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو ایک کامیاب قوم میں بدلنے کی خواہاں ہوتی ہے۔ 1947ء سے 1957ء، اور پھر 1967ء، اس کے بعد 1977ء اور پھر 1986ء اور آج تک ذرا سیاسی کیلنڈر بنائیں تو عوام بڑی کروٹ لیتے ہوئے نظر آئی ہے۔ مگر کامیابی اُن کا مقدر نہ بن سکی۔
جو لوگ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے اور ایک مضبوط دفاعی نظام کو پاکستان کی طاقت اور کامیابی قرار دیتے ہیں، اُن کے لیے سابق سوویت یونین ایک بڑی دلیل کے طور پر اُن کے اس موقف کو سراسر مسترد کرتا ہے کہ قومیں صرف دفاعی نظاموں کے ڈھانچوں پر کامیاب دی جا سکتی ہیں۔ قوموں کی کامیابی علمی، سائنسی، معاشی، اقتصادی اور سماجی ترقی سے جنم لیتی ہے۔ نہ ہی بڑی قوم آبادی کے لحاظ سے بڑی قوم بن سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے چرب زبان دانشوروں کی بھی کمی نہیں جو آبادی کے سیلاب کو ایک بڑی قوم سے تعبیر کرنے میں پیش پیش ہیں۔ دنیا میں آج بھی بڑی قومیں وہی ہیں جن کا ٹیکنالوجی میں مقام ہے، اپنے ہاں خوش حالی، عالمی معیشت میں اثرورسوخ قائم ہے۔ اگر ہم کلونیل ازم کی تاریخ دیکھیں تو بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کیسے چند ترقی یافتہ یورپی ریاستوں نے اپنی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر براعظموں میں بسنے والے اربوں لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔
ہر دس سال بعد پاکستان کے عوام اس گلے سڑے نظام کے خلاف بغاوت پر اترتے ہیں۔ کبھی اس بغاوت کا سودا کردیا جاتا ہے اور کبھی اس اپنے آپ کو بدلنے کی خواہش کو سازشوں سے بھول بھلیوں میں داخل کردیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اتنے سادہ ہیں کہ وہ اوپری طبقات کے دھوکوں میں آ جاتے ہیںاور ان کی برپا کی گئی بغاوتیں کامیاب کیسے نہ ہو پائیں۔ میرے نزدیک عوام سادہ بھی ہیں اور اوپری طبقات کے شکنجے بڑے مضبوط ہیں۔ وہ ان بغاوتوں سے چالاکی اور استحصالی انداز میں کھیلنے کے گر جان گئے ہیں۔ عوام سادہ اس لیے ہیں کہ اُن کا سیاسی وسماجی شعور اس قدر پختہ نہیں جس قدر ایک بغاوت کے لیے فکری شعور کی معراج درکار ہوتی ہے۔ ہمارا سماج صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی تواہم پرستی کا شکار ہے۔ سیاسی شخصیات کو اپنا دیوتا ماننے والا سماج کبھی انقلاب برپا نہیں کرسکتا۔ شخصیت پرستی درحقیقت تواہم پرستی کا ہی ایک اظہار ہے۔ ہمارے ہاں عوام کا ایک بڑا طبقہ اجتماعی تبدیلی کی بجائے ایک شخصیت کو دیوتا مان کر تبدیلی کے لیے بغاوت کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ ایک شخص کو اپنا مسیحا سمجھ لیتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور اب عمران خان، یہ اس سماج میں سیاسی مسیحا مانے جاتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں ان کے بت خانے آباد ہیں۔ جو لوگ آج عمران خان عمران خان کررہے ہیں، اُن کو اتنا کامل یقین ہے کہ اگر عمران خان ایک بار وزیراعظم بن جائیں تو قوم کی شخصیت ہی بدل جائے گی۔ 1997ء کے انتخابات کی ناکامی کے بعد عمران خان میرے ہاں ایک ڈنر پر تشریف لائے، جو انہی کے دوستوں اور اہم ساتھیوں کی خواہش پر رکھا گیا تھا۔ وہ ایک بھرپور محفل تھی۔میں نے اس ڈنر میں تجربہ کار سیاسی لوگ اور دانشور مدعو کیے۔ طویل گفتگو کے بعد میں نے عمران خان صاحب سے عرض کیا، ’’خان صاحب، آپ اس ملک کے حکمران بن سکتے ہیں لیکن آپ کا ذہن اس خدشے کا ثبوت ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے، چوںکہ آپ اپنی گفتگو میں اپنے Charismatic ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، کرشمہ ساز شخصیات لوگوں کو ابھار تو سکتی ہیں، انقلاب برپا نہیں کرسکتیں۔ اور یاد رکھیں آپ اگر وزیراعظم بن گئے تو اس کے بعد آپ مجھے کہیں گے کہ فرخ سہیل گوئندی میرے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے، مجھے بیوروکریسی نے کچھ کرنے نہیں دیا۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘
آج عمران خان ایک سیاسی دیوتا ہیں اور انہوں نے اپنے اردگرد جو لوگ اکٹھے کرنا شروع کیے ہیں، وہ انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ انقلاب میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کام حکومت میں آنے کے دو سال بعد شروع کیا۔ آپ نے تو یہ کام حکومت بنانے سے پہلے ہی شروع کردیا۔ پاکستان، خصوصاً پنجاب کا ایک بڑا شہری طبقہ موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہا ہے۔ اور اس طبقے کو یقین ہے کہ اب تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ایک طبقہ قائم و رائج سیاسی نظام کے بطن سے اور دوسرا طبقہ اسی نظام کے اندر پیوند کاری کرکے تبدیلی کا علمبردار ہے۔ افسوس، یہ صرف خواہشات کا سراب ہے۔ حکمران طبقات اور نظام اور تبدیلی برپا کرنے والے عوامی طبقات درحقیقت تبدیلی کی اس فکری اساس سے ابھی تک محروم ہیں جو دنیا کے کسی بھی کونے میں تبدیلی کا سبب بنی۔ ہمارا سیاسی نظام، سیاسی دیوتائوں اور سماج، سیاسی تواہم پرستی میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ہاں شخصیات سیاست کا عنوان ہیں۔ چاہے وہ سیاسی لیڈرز کی شکل میں شخصیات ہوں، چاہے سکینڈلز میں گھری خواتین، حکمران طبقات کی شادیوں کی کہانیاں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اسی پستی کا عروج ہے جسے ہم تبدیلی کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔