گزشتہ ہفتے امریکی صدر نے سی آئی اے کو شام کے خلاف جنگ روکنے کا سرکاری حکم جاری کیا۔ گویا ثابت ہوا کہ شام میں یہ بشارالاسد یا نیولبرل ازم یا سول وار نہیں بلکہ شام میں اس جنگ کا سبب واقعتاً سی آئی اے تھی۔ یقینا سی آئی اے شام میں اپنی غیرسرکاری درپردہ سرگرمیاں توجاری رکھے گی لیکن اس لمحے اسے سی آئی اے کی ’’باضابطہ شکست‘‘ ضرور کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس آفیشل شکست اس لمحاتی یا عارضی ’’فتح‘‘ کا جشن بھی منایا جا سکتا ہے، جو شاید شامی مسلمانوں پر اس مغربی حملے کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو۔ وہ جسے لوگ Arc of Resistance کہتے ہیں(شیعہ اور سیکولر حلقوں کا) وہ اب مضبوط ہوچکاہے جبکہ مغرب سامراجی جارحانہ حملے میں دراڑ آچکی ہے۔ امریکی جنرل ویزلے کلارک نے برسوں پہلے 9/11 کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں امریکی عزائم کو آشکار کرکے یہ کھیل سب کے سامنے عیاں کردیا تھا: یہ کہ سات ممالک پر حملہ کیا جائے گا (عراق، لیبیا، شام، لبنان، صومالیہ، سوڈان اور ایران)۔ فرانس کے سابق وزیر خارجہ رولینڈ ڈوما نے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ برٹش سٹیٹ ، 2011ء کے شامی قتل عام کے آغاز سے دو سال پہلے سے شام کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ صحافی سیمور ہرش نے بھی 2007ء میں اپنے نیویارکر آرٹیکل میں لکھاتھا کہ امریکہ ایک بار پھر شام اور اس کے گردونواح میں سعودی بنیاد پرستوںکی خدمات حاصل کررہا ہے۔ اور اگر یہ سب انکشافات کافی نہیں تو وکی لیکس اس صدی کے آغاز میں دمشق میں امریکی سفات خانے کی ساز باز کا پردہ چاک کیا تھا جس کا ایجنڈا ہی عدم استحکام تھا۔ اور سی آئی اے ’’ڈپلومیسی‘‘ اس کا اصول۔ درحقیقت یہ سب پچھلے تقریباً ساٹھ سال سے جاری ہے۔ 1950ء کی دہائی سے، آپریشن سٹرگل کے وقت سے شام کے خلاف ایسے منصوبے سامراجی مقاصد میں شامل رہے ہیں۔یہ سب سازشیں 2011ء میں کسی ایٹمی بم کی طرح شام میں پھٹ پڑیں۔ اگرچہ اس کے خلاف شامی مزاحمت اور بالآخر ’’کامیابی‘‘ کو اتنا کریڈٹ نہیں دیا جارہاجس کی یہ مستحق ہے۔ شام کی یہ فتح، انسانیت کی فتح ہے۔ اگرچہ مغرب کی انسانیت اس سے نظریں چرا رہی ہے۔
مغرب کے ’’انسان دوست‘‘ شامی ہولوکاسٹ کا الزام شام کو ہی دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (جن دونوں کے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے قریبی روابط ہیں) شامی ریاست کو ہی لعن طعن کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مغربی انقلاب پسند حلقے بھی شام کو ہی الزام دیتے ہیں۔ نائوم چومسکی، حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ دیگر بائیں بازو کے حلقے شامی ریاست کی بجائے شام کے شمالی حصوں میں کُردوں اور کچھ دیگر تصوراتی انقلابیوں کی حمایت کرتے ہیں۔شام کی جنگ کی رُوداد کو مغرب نے جس مضحکہ خیز انداز میں مسخ کیا ہے، اس میں مغربی سامراجیت کا کوئی ذکر نہیں۔سی آئی اے اور اس کے طرزِعمل پر اب بھی کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا رہی: مخبروں، غداروں، صحافیوں اور مشنریوں وغیرہ کو خریدنا۔ لبرل ازم کے کلاسیک معاملے میں جب بات شام کی آتی ہے تو مغرب کی کھلے عام اور درپردہ ہر قسم کی دخل اندازی کو نظرانداز کرکے زور صرف ایک ہی فرد پر دیا جاتا ہے، شام کا صدر۔اور تنقیدی اور منطقی اندازِفکر کے عظیم مظاہرے میں مغربی بائیں بازوکا بھی بڑا حصہ صرف ایک ہی فرد پر تنقید کرتا ہے اور وہ ہے شام کا صدر۔جبکہ مغرب کے دائیں بازو کے حلقے ہمیشہ غیرملکیوں پر الزام دھرتے ہیں،یہی عادت اب مغربی بائیں بازو نے اختیار کرلی ہے۔یہ کھلے عام تنقید کیوں؟پوسٹ ماڈرن دَور کی اس بڑی سامراج مخالف فتح کوتسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟کیوں کہ اس فتح کا ذمہ دار ایک ’’ڈکٹیٹر‘‘ ہے؟ ایک ایسی ری پبلک کی فتح جس کا وجود خطرے میں تھا! کیا یہ نکتہ مغربی دماغوں میں نہیں بیٹھتا؟ کیا مغربی حلقے اُن مغربی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والی قتل وغارت سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں جو خود انہوں نے تیسری دنیا کی اقوام پر نافذ کیں؟ کیا وہ کسی متبادل سیاسی ماڈل کو قبول کرنے کو تیار نہیں؟
شامی صدر اس ڈوبتے جہاز سے اتر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک ریاست کے صدر کے طور پر طرزِعمل دکھایا۔ وہ اُن حالات میں ڈٹے رہے جب پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھنا زیادہ آسان تھا۔مغرب میں ریاستی سربراہان کسی بھی مشکل میں ناانصافی کے خلاف مزاحمت تک چھوڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یورپ میں کوئی ایک بھی ریاستی سربراہ، عوام کے دشمن یورپین سینٹرل بینک اور ناٹو کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رکھتا۔ شاید اسی لیے ان کے لیے ایسے کسی لیڈر کو دیکھنا ناقابل یقین ہے۔ گویا کچھ تو غلط ہے، یقینا وہ ’’ڈکٹیٹر‘‘ ہوگا۔ جبکہ درحقیت مغربی ’’سرمایہ دارانہ جمہوریت‘‘ ہے جو ڈکٹیٹر ہے، خصوصاً جب یہ غیرمغربی ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔
پوسٹ ماڈرن دَور میں ’’عرب انقلاب‘‘ کے لیے مغربی حمایت جعلی ہے۔ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ اسی لیے مغربیوں کا کھڑے ہوکر شام کو ’’انقلاب‘‘ پر لیکچر دینا سراسر مذاق ہے۔ کھل کر کہا جائے تو آج کے مغرب کا کوئی انقلابی استحقاق ہی نہیں، یہ کہیں بھی ’’انقلاب‘‘ کا ٹھیکے دار کیسے ہوگیا۔ اسے کیا حق ہے کہ یہ شام کو کسی بھی انقلابی معیار پر تولے جبکہ خود اس کی سامراجی طاقت شام کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ شام کے لوگ جو خود کو محض قتل و غارت گری سے بچانا چاہتے ہیں، ان پر سامراج اپنی خواہشات تھوپنے کا کیا حق رکھتا ہے۔ شام پر مغرب کی تنقید قطعی بے جا ہے۔ اور کھل کر کہا جائے تو شام سی آئی اے کی میڈیا وار کا شکار ہے۔اور شام کی نیو لبرل صورتِ حال؟دنیا کا ہر ملک اب کسی نہ کسی طور نیولبرل ہے۔ لیکن لیبیا کے سوا کسی دوسرے ملک کو شام کی طرح تہ وبالا نہیں کیا گیا۔ شامی قتل عام کی سبب کچھ اور تھا۔ یہ کہنا کہ شام کا یہ حال نیولبرل بریک ڈائون کے باعث ہوا، مضحکہ خیز ہے۔ اور پچھلے چھے سال سے سی آئی اے کو الزام دینے میں ہچکچاہٹ بزدلانہ اقدام ہے۔ سی آئی اے کے ماضی کے ریکارڈسے پوری دنیا واقف ہے، کیوبا، چلی، نکاراگوا، کانگو، انگولا، ویتنام، انڈونیشیا، لائوس۔۔۔ درپردہ جنگیں اور عدم استحکام کی درپردہ سازشیں اب کسی کے لیے بھی کوئی راز نہیں۔ تو شام کے معاملے میں سی آئی اے معصوم کیسے ہوگئی؟ دو الفاظ میں سارا قصہ یہی ہے: عرب بہار۔اس ’’بہار‘‘ کی خوف ودہشت کے چھے سال ۔ شام کے معاملے میں، کب سے سی آئی اے کی سرگرمیوں کو ’’بہار‘‘ کہا جانے لگا ہے؟ یہ محض توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے۔ آج شامی ریاست کی فتح کے بعد توقع ہے کہ ہم اصل شامی نشاۃِ ثانیہ دیکھ پائیں گے، شامی عوام کی حقیقی بہار۔
اور اس سے پہلے کہ کوئی ’’روسی سامراجیت‘‘ کا نام لے۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی معیشت، امریکی ریاست کیلی فورنیا سے بھی چھوٹی ہے۔ اس میں اتنی معاشی وسعت ہی نہیں کہ اسے ’’ایمپائر‘‘ کہا جاسکے۔ دوبارہ کہا جائے تو پچھلے کچھ برس سے شامی ریاست کا وجود ہی دائو پر لگا ہواتھا، اس لیے ریاست کو اپنی بقا کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔جنگوں میں ’’حلیف‘‘ ایک لازم حقیقت ہوتے ہیں۔اور اگر شام کی مدد کرنے میں روس کی عجلت کا ذکر ہے تواس کی بہترین مثال 1970ء کی دہائی میں انگولا کی مدد کی خاطر کیوبا کا آنا ہے۔ سی آئی اے کی جنگ میں کیوبا کا کود پڑنا ’’کیوبن سامراجیت‘‘ نہیں تھی بلکہ بین الاقوامی یک جہتی کا اقدام تھا۔ اور اس اقدام نے جدید افریقہ کی تاریخ بدل دی۔ یہ جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے اختتام کا آغاز ثابت ہوا۔
اور یہی اہمیت شام کی فتح کو حاصل ہے۔ شامی عوام نے حب الوطنی سے مل کر مغرب کو شکست دے کر نہ صرف اپنے ملک کو بچایا ہے بلکہ اس پورے خطے کو مزید تباہی کا نشانہ بننے سے بچا لیا ہے۔ اور اگر معاملہ یہی ہے تو یہ اسرائیلی عصبیت کے انجام کا آغاز ہے۔۔۔