• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
مذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولمذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولمذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولمذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

مذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • مذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
شام کی مزاحمت کو سلام — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
ستمبر 5, 2017
تم بیمار ہو — تحریر: سلیم اقبال
ستمبر 9, 2017
Show all

مذہب ،علم اور فن — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول

مذہب ، علم اور فن میں مہارت اورثقاہت چند روز کی محنت سے نہیں زندگی بھر کی ریاضت سے نصیب ہوتی ہے۔ اس مہارت و ثقاہت کے لئے دنیا تیاگنا پڑتی اور اسے اولین ترجیح بنانا پڑتا ہے۔ اس سفر میں کوئی اپنا اورغیر نہیں ہوتا جو اس میں معاون ہو وہ اپنا اورجو رکاوٹ بنے وہ غیرکہلاتا ہے ۔ کلاسیکل مزاج کے لوگ اپنے فن اور کام سے ہی مطمئن اورخوش ہوتے ہیں ۔ ان کی راحت اور روحانیت اُن کے کام سے ہی وابستہ ہوتی ہے۔ وہ دولت ، شہرت سے بے نیاز ، بس صاف ستھرااور بغیر ملاوٹ لوگوں تک علم وفن پہنچانے کے لئے بے قرار ہوتے ہیں۔ ان کے معاشی حالات جیسے بھی ہوں ان کا قلبی اطمینان اُن کے کام سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا وہ علم، فن اور مذہب کو ’’ وسیلہ‘‘ نہیں بلکہ منزل خیال کرتے ہیں یعنی وہ اپنے فن کو شہرت ،دولت اور عوامی پذیرائی کا ذریعہ خیال نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی خواہش اپنے دل میں پالتے ہیں ۔جو لوگ اسے ذریعہ بناتے اور استعمال کرتے ہیں وہ ہمیشہ علم و فن کی ثقاہت اور رازورموز سے محروم رہتے ہیں ۔
اگر آپ علم موسیقی کے میدان میں دیکھیں وہ اساتذہ جنہوں نے اس علم کو اپنی زندگی دیدی ۔ درحقیقت ،انہوں نے ہی اس کی خدمت کی ،کیونکہ انہوں نے اِسے سیکھا اور سکھایا ، ان کی بنائی ہوئی دھنیں اورساز آج بھی لوگوں کے دلوں پہ حکومت کرتے ہیں، اُن کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے اور انسان کو روحانی غذا دیتے ہیں ۔اُن کے علاوہ ایسے گلوکار بھی ہیں جنہو ں نے موسیقی کو ’’ذریعہ‘‘ بنایا۔ عوامی مزاج پہ اتر کر ایک گیت بنایا، اس گیت سے وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئے لیکن اُس کے بعد انہوں نے ہسپتال بنا لیا یا سیاست میں آ گئے چونکہ وہ باقاعدہ شاگرد تھے اورنہ ہی استاد … لہذا انہوں نے اِسے بطور ’’آلہ‘‘ استعمال کیا۔ عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق گایا اور عوام کو خوش کرنے کے عوض وہ سب کچھ پایا جو ان کے مقاصد تھے۔ چند سال پہلے کامیڈین امان اللہ نے بہت ہی خوبصورت مزاحیہ انداز میں اس حقیقت کواس طرح بیان کیا ۔’’اللہ کی شان دیکھو جنہیں گانا آتا ہے وہ(مہدی حسن) ہسپتال میں علاج کروارہے ہیں اورجنہیں گانا نہیں آتا وہ (ابرار الحق) ہسپتال بنا رہے ہیں‘‘۔اس جملے پہ کوئی ہنس لے تو وہ ہنس سکتا ہے لیکن اس جملے پہ رونے کا سامان بھی بہت ہے۔
محترم احمد جاوید صاحب جو اپنے مافی الضمیرکوعالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے پہ قادر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کے بعد، احمد جاوید صاحب کی اس مہارت اور ثقاہت کے پیچھے انکی سال ہا سال کی ریاضتہے، انہوں نے اپنے آپ کو مذہب ،فلسفہ اور تصوف سے وابستہ رکھا ہے۔ جب کبھی ان سے کوئی یہ کہے کہ’’ آپ اپنی بات آسان طریقے سے بیان کیا کریں‘‘ ۔اُن کا کہنا ہوتا ہے’’آپ اپنے معیار کو بلند کر لیں تاکہ آپ کو میری بات سمجھ آ سکے‘‘۔ بالکل اسی طرح ہم نے عوام کی سطح پہ لانے کی کوشش میں علم، فن اور مذہب کو سطحی اور غیر معیاری بنا کر رکھ دیا ہے، یہ کام ہمارے اُن اہلِعلم و فن نے کیا ہے جو کبھی بھی علم اور فن کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے انہیں منزل بنانے کے بجائے فقط سنگ راہ خیال کیا ہے ،یہی سلوک مذہب کے ساتھ بھی ہوا۔ مذہب کو ہم نے چند واقعات و آیات اور چند قصہوداستان تک قبول کر لیا۔ وہ لوگ شہرت، دولت کی بلندیوں کو پہنچ چکے ہیں جنہوں نے مذہب کے ساتھ وہی سلوک کیا جو نوزائیدہ گلوکاروں نے موسیقی کے ساتھ کیا…
میڈیا نے ایسے ’’انٹرنیشنل اسلامی سکالر ‘‘متعارف کروائے جنہوں نے دین کیاپیش کرنا تھا وہ اعلیٰ کردار بھی پیش نہ کر سکے۔ انہوں نے ایسے پروگرامز پیش کیئے جن کا آغازوہ تلاوت، ترجمہ و تفسیر سے کرتے، درمیان میں ماڈلز ، اداکارائیں اورگلوکارائوں کو مدعو کیا جاتا ،اُن سے ہر قسم کی لغو گفتگو کی جاتی باقاعدہ موسیقی بھی ہوتی اورآخر میں پاکستان کے ترانے پہ پروگرام کا اختتام ہوتا… آج کل وہ(انٹرنیشنل اسلامی سکالر) کبھی کبھی مذہب پہ پروگرام کرتے ہیں لیکن اکثر کرنٹ آفیئرز کے پروگرام کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہم نے چرب زبانی اور قصہ کہانی کو دین کا نام دے دیا ہے۔ ایسا ہی کچھ سلوک رقص اور شاعری کے ساتھ بھی ہوا ہے ۔
ہمارے استاذ محترم ہمیشہ مذہب اور علم وفن سے وابستہ لوگوں کی مثال بھوسہ اور گندم سے دیا کرتے تھے۔ وہ فرماتے تھے ’’گندم تھوڑی اور بھوسہ زیادہ ہوتا ہے، اس وجہ سے معیاری کام مقدار میں تھوڑا دکھائی دیتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو تاریخ میں زندہ رہتا ہے، مذہب اورعلم وفن کو استعمال کرنے والے کا کام ’’بھوسے‘‘ کی طرح ہوتا ہے جو نظر زیادہ آتا ہے لیکن ہوتا وہ جھاگ کی طرح ہے جو زیادہ دیر تلک دکھائی نہیں دیتا‘‘۔

مناظر: 259
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ