چالیس سال قبل ایک مشہور فارماسیوٹیکل ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہنری گیڈسن نے اس بات پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا کہ ان کی ادویات کی مارکیٹ صرف بیمار لوگوں تک محدود ہے، ان کی خواہش ہے کہ ان کی کمپنی صحت مند لوگوں کو بھی ادویات بیچ سکیں۔ آج ادویات بنانے والی کمپنیاں ہنری گیڈسن کی اسی خواہش کی تکمیل کرتی نظر آ رہی ہیں۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا ہدف صحت مند لوگ ہیں، اس مقصد کے لیے نامور مارکیٹنگ کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جن کی مارکیٹنگ کا محور تندرست اور توانا لوگوں کو ادویات بیچنا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج فارماسیوٹیکل انڈسٹری کا حجم ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور اسکا شمار دنیا کی منافع بخش انڈسٹریز میں ہوتا ہے۔
میڈیکل سائنس میں یہ بات واضح ہے کہ “ہر دوا ایک زہر ہے اگر اسکا صحیح استعمال نہ کیا جائے”۔ ادویات کیمیائی مرکب ہوتی ہیں جن کا ہر صورت انسانی جسم پر اثر ہوتا ہے ، بیماری کو ختم کرنےکے لیے یہ کیمیائی عمل پیدا کرتی ہیں اور اس بیماری کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ادویات کسی صحت مند انسان کو دی جائیں تو یہ انسانی جسم پر مضر اثرات چھوڑتی ہیں اور قدرتی طور پر اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی جسم ان ادویات کےخلاف اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر لیتا ہے اور یہ دوایاں آئندہ نسلوں کے لیے بے اثر رہ جاتی ہیں۔
فارماسیوٹیکل مارکیٹنگ میں دوائی بیچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے بیماری کو بیچا جائے یہ اصول “Sell The Concept” کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ معاشرے میں کسی بیماری کو فرضی طور پر بنایا جائے اور مختلف طریقوں سے یہ ابلاغ کیا جائے کہ “تم بیمار ہو” اور یہ بیماری بہت بڑا ناسور ہےاور اس سے انسانی نسل کی بقاء خطرے میں ہے اب اس بیماری کو ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے اور یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ کسی پرانی بیماری کو نیا نام دے کر زیادہ خطرناک طریقے متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس طریقے سے پہلے داوایوں کی مارکیٹ بنائی جاتی ہے جس میں ان کمپنیوں کی ادویات کا استعمال ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ ذیل میں فرضی بیماریاں بنانے کے مختلف طریقے زیرِبحث ہیں:
۱۔ انسانی جسم قدرتی طور پرمختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ ہر انسان کے لیے لازم و ملزوم ہیں، ان قدرتی تبدیلیوں کو ایسے طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے کہ بیماریوں کی شکل اختیار کر لیں۔ اور ہر انسان جس نے اس تبدیلی کا شکار ہونا ہے وہ اپنے آپ کو بیمار تصور کرنے لگ جائے۔ جیسا کہ خاتون کی زندگی میں ہارمونل تبدیلیاں ہر ماہ ہوتی ہیں اور اسکی وجہ سے جسمانی اور دماغی طور پر بھی اثرات ہوتے ہیں ان اثرات کو بیماری کہا جانے لگا ہے اب ہر خاتون Pre-Mestural Dysphoric Disorder” کا شکار ہے یا اس نے عمر کے ایک حصے میں یقینی طور پر Climacteric Complaintsکا شکار ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے کام کے دباو یا حالات کی وجہ سے دفتری کام میں میں عدم دلچسپی کو Adult Deficiency Disorder کہا جانے لگا ہے۔
۲۔ بیماریوں کی تعریف کرنے اور ان کے علاج تجویز کرنے کے لیے مختلف ادارے ، ایسوسی ایشنز اور سوسائٹیز موجود ہیں ۔ جن میں کچھ عمومی ہیں اور کچھ کسی بیماری کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے اجلاسات کو یہی فارماسیوٹیکل کمپنیاں سپانسر کرتی ہیں اور ان کے شریک ممبران کو بھاری رشوت دے کر اپنے پسند کے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ بیماری کی علامات کو اس حد تک وسیع رکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسکی زد میں آسکیں۔ بیماری اور صحت کے درمیان لکیر کو مبہم رکھا جاتا ہے۔
۳۔ مفاد عامہ کی خاطر یہ کمپنیاں صحت آگہی مہم چلاتی ہیں جو ان کے بقول یہ انکی معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اس میں دوائی کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں کسی بیماری کے حوالے سے آگہی پیدا کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے طب سے منسلک افراد کے لیےمختلف لیکچر، سیمنار اور ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اور عوام کے لیے ٹی وی، اخبارات اور پمفلٹ کے ذریعےفرضی بیماری کو ہوا دی جاتی ہے- اس مہم کا مقصد بھی دراصل بیماری بیچنا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیمار بنایا جائے تا کہ ادویات کی مارکیٹ بنے ۔
۴- انسانی جذبات اور ڈر ان کمپنیوں کا اہم ہتھیار ہیں۔ اپنی دوائی بیچنے کے لیے معاشرے کا ہر فر د جنسی بیماری کا شکار ہے، ہر شخص وزن کی زیادتی یا کمی کا شکار ہے، کسی بھی فرد کی جلد کا رنگ ٹھیک نہیں ہے، بڑھاپا ایک بیماری ہے، ہر فرد کو دل کا عارضہ ہے یا ہو سکتا ہے، ہر خاتون نے بڑھاپے میں ہڈیوں کی بیماری کا شکار ہونا ہے، ہر شخص وٹامن کی کمی کا شکار ہے، معاشرے میں زنک، آئرن اور آئیوڈین کمی ہو گئی ہے- ان تمام فرضی بیماریوں کو اچھی خوراک اور جسمانی ورزش یا معمولاتِ زندگی میں تبدیلیوں کے ذریعے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کمپنیاں اس خوفناک حد تک ان بیماریوں کا پراپیگنڈہ کرتی ہیں جن سے ان کی ادویات کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔
۵۔ بیماریوں کی تشخیص کے لیے آلات اور مشینیں بھی زیادہ تر انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہیں، جنہیں اسطرح سے ڈیزائن کیا جاتا ہے جس سے من پسند نتائج حاصل کیے جائیں اور زیادہ سے زیادہ افراد اس بیماری کی زد میں آسکیں یا کم از کم اسکا خطرہ ضرور ان میں ظاہر ہو۔ اور Prophylactic Treatment کے نام پر اسکا علاج کیا جائے، یعنی کہ جس بیماری کا وجود تو نہیں ہے لیکن ممکنہ طور پر لاحق ہو سکتی ہے اس کا علاج شروع کیا جائے-
اسوقت پوری دنیا کی صحت کا نظام ان ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور یہ نظام ان درندوں کے ہاتھوں مکمل طور پر یر غمال ہے، مختلف ملکوں کے صحت کے محکمے دیوالیہ ہو چکے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی طور پر ایسے آزادانہ ادارے بنائے جائیں جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرِاثر نہ ہوں اور صحت کے حوالے جو گائیڈلائنز مرتب کی جائیں اس میں مفادِعامہ کو پیشِ نظر رکھا جائے نہ کہ ان ملٹی نیشنلز کے منافع کو۔