• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
تبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندیتبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندیتبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندیتبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

تبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • تبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
سی پیک کے منصوبے کا جائزہ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
اکتوبر 9, 2017
غلط تربیت کے غلط نتائج — تحریر: اریبہ فاطمہ
اکتوبر 9, 2017
Show all

تبدیلی یا زوال — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

جو لوگ یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ نوازشریف کو نااہل کروانے ، اقتدار سے یا باہر کرنے یا مسلم لیگ (ن) حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے احتساب کا عمل شروع ہوگا اور اس عمل کے بطن سے ایک نیا پاکستان جنم لے گا، وہ وزیراعظم نوازشریف کی اقتدار سے بے دخلی اور نااہلی کے بعد برپا سیاسی صورتِ حال کے بعد ایک عجیب تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ جس تبدیلی کا تصور لیے بیٹھے تھے، وہ ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سیاسی معجزوں پر یقین رکھنے والا سماج ہمیشہ معجزوں اور مسیحائوں کا منتظر ہوتا ہے۔ ہمارا سماج اس روایت سے شدت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اسی لیے وہ تبدیلی اجتماعی کوشش یا جدوجہد کی بجائے کسی ایک فرد کی شکل میں دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اُن کا مسیحا کبھی وردی کے بغیر اور کبھی وردی میں ہوتا ہے۔ ہم اپنے سماج کو شعور، فکر، ادراک، منطق، علم اور سیاسی نظریے کی بجائے کسی ایک فرد کی مسیحائی میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں ہر ایک یا دو دہائی بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک مسیحا اور ایک دجال نظر آتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے خوابوں سے تخلیق کردہ مسیحا کی مسیحائی کے منتظر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ اپنے خوابوں سے طے کردہ دجال کو گرانے، مٹانے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں کے علاوہ ہم نے متعدد آرمی چیفس کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا، پھر اس پر یقین کیا، اسی طرح بغیر یونیفارم کے مسیحا۔ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔ مسیحا اور دجال کی لڑائی کی بنیاد پر خبریں، رپورٹس اور تجزیے انہی پر مشتمل ہیں۔ حتیٰ کہ خواتین کے سکینڈلز اور شادیاں اور طلاقیں، مسیحا اور دجال کی تصوراتی کہانیوں کے اہم حصہ ہیں۔ کبھی لوگوں نے ایک جج کو مسیحا مانا اور کبھی جرنیل اور سیاست دان کو۔
ایک تواہم پرست سماج جس قدر مذہبی حوالے سے تواہم پرست ہے، اسی قدر سیاسی تواہم پرستی بھی اپنے عروج پر ہے۔ اسی سیاسی تواہم پرستی سے سیاسی شخصیت پرستی، سیاسی بت پرستی اور موروثی سیاست جنم لیتی ہے۔ میری ایک پسندیدہ کتاب ’’مسلمان اندلس میں‘‘ ہے، جو ایک غیر جانب دار انگریز مؤرخ نے مسلم سپین کی شان دار تاریخ پر تحقیقی بنیادوں پر لکھی ہے۔ سٹینلے لین پول کی کتاب ’’مسلمان اندلس میں‘‘ سپین میں مسلمانوں کی جہاں شان دار تاریخ کو بھرپور انداز میں دلیل کے ساتھ پیش کرتی ہے، وہیں پر مسلم ہسپانیہ کے زوال پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ زوال کے دنوں میں مسلم ہسپانیہ کے لوگوں کا ایک پہلو بڑا قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ زوال کے برسوں میں ہسپانوی مسلمان ایک سلطان کو نکالنے کے لیے دن رات ایک کردیتے تھے اور اس کی جگہ دوسرے شخص کی سلطانی کے لیے کوشش اور سازش کرتے تھے۔ وہ سلطان کی تبدیلی کو ریاست اور سماج کی تبدیلی سے تعبیر کرتے تھے۔ یہ عمل دہائیوں تک جاری رہا لیکن زوال کا عمل نہ تو رکا اور نہ ہی کم ہوا، اس لیے کہ زوال کا عمل اپنی جگہ تو موجود رہا بلکہ سلطانوں کو نکالنے اور لانے کی سازش اور کوشش بھی اس زوال کے عمل کو Enhance کرتیں۔ ظاہری طور پر وہ حکمران شخص کی تبدیلی کو ہی ’’تبدیلی‘‘ تصور کیے ہوتے۔ اور جب یہ عمل مکمل ہوا تو ریاست اپنے زوال کی حدوں کو چھو گئی اور یوں حکمرانوں کو بدلنے والا سماج اور ریاست ہی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ جب اپنے وقت کی ترقی یافتہ ریاست مسلم سپین نے اپنے سماج میں تبدیلی، ترقی، روشن خیالی، جدیدیت، منطق اور استدلال کی جگہ شدت پسندی، مذہبی انتہا پسندی اور دھونس دھاندلی کو دینا شروع کی تو زوال اس کا مقدر بن گیا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے صدر جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پھر بے نظیربھٹو، پھر نوازشریف، جنرل مشرف، اور اب پھر نوازشریف سمیت تمام حکمرانوں کو ہٹاتے دیکھا۔ اِن حکمرانوںکو بدلنے کی سازشیں، ہجوم اور ہنگامے برپا ہوئے، حکومتیں بدل گئیں، لیکن سماج یا نظام نہیں بدلا، اس لیے کہ ہم نے سارا نظام اور نظامِ حکمرانی نہیں بدلا۔ ایسی باتیں پڑھنے والوں کو کتابی باتیں لگتی ہیں، اس لیے ہم شخصیات کو موضوع بنانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اور جو فرد، یا سماج شخصیات کو موضوع بناتے ہیں اور پسماندگی کی آخری منزل پر ہوتے ہیں۔
آج ایک طبقہ عمران خان کی مسیحائی کا منتظر ہے، نوازشریف کی بے دخلی اور نااہلی کے بعد وہ پاکستان کو بدلنے سے تعبیر کررہے تھے۔ اُن کے لیے نااہل قرار دئیے گئے وزیراعظم کی شریک حیات محترمہ کلثوم نوازشریف کا انتخاب میں کھڑا کیا جانا سبق ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں۔ ہماری سیاست میں ’’اعزاز‘‘ پانے والی تمام سیاسی جماعتوں کے اندر خاندانی سیاست اس زوال کی سب سے بڑی نشانی قرار دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن زوال کی یہ نشانی اپنے اپنے حلقہ مداحین میں باعث فخر ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور اسی طرح لاتعداد معروف ومقبول سیاسی شخصیات کے چشم وچراغ جس طرح سیاسی منظرنامے میں اتارے جاتے ہیں، کیا اسے نظام کی تبدیلی سے تعبیر کیا جائے یا زوال سے۔ اکثریت اسے نظام کی تبدیلی اور اپنا اپنا فخر قرار دیتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں، اگر اقتدار عمران خان کے ہاتھوں میں آئے، تین چار سال وہی فلم دوبارہ چلتی نظر آئے گی جو 2014ء کے بعد اب تک چل رہی ہے۔ اس لیے کہ جب تک ہم مسیحائوں کے منتظر اور سیاسی معجزوں کی توقعات اور دعائوں ، تعویذ گنڈے، ٹونے ٹوٹکے دھاگے سے بدلنے کی خواہشات کے محلات تعمیر کیے رکھیں گے، اس زوال کا دائرہ گھومتا رہے گا۔ ممکن ہے عمران خان تبدیلی کا شان دار خواب لیے بیٹھے ہوں۔ لیکن خوابوں سے نہ نظام بدلتے ہیں اور نہ ہی ملک بنتے ہیں۔ یہ افسانوی الفاظ، جملے اور تصورات ہیں کہ خواب نے ملک بنا ڈالا۔ انسانی اجتماعی جدوجہد ہی انسانی تاریخ کو بدلتی ہے۔ نبی آخرالزماں رسول کائنات حضرت محمد ﷺنے دنیا میں سب سے بڑی حقیقت دین اسلام کو اپنی جدوجہد بلکہ جہد مسلسل سے منوایا، انسانی تاریخ کو اس کامیابی کو اس لیے بڑی کامیابی کہا جاتا ہے کہ پیغمبر آخرالزماں ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں دین اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ معجزوں کی طاقت رکھنے والی اس عظیم ہستی نے اپنے عمل، جدوجہد اور فکر سے دنیا کی پسماندہ ترین سرزمین کو بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے دینی عقیدے کے مطابق، یہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہے، اگر یہ انقلاب شخصیت پرستی، تواہم پرستی، بدعت، موروثیت، مسیحائیت اور معجزہ گیری کے بغیر جہد مسلسل سے برپا ہوا تو آج ہم اپنے سماج، ریاست اور نظام کو کس طرح محض مسیحائوں اور معجزوں سے بدلنے کے منتظر ہیں؟ اگر ہم اس ملک، نظام اور سماج کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں دلیل، منطق، استدلال، انصاف، سماجی انصاف، سماجی اور عوامی فکر کی بنیاد پر بدلنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر ہر برپا ہونے والی تبدیلی، تبدیلی نہیں بلکہ زوال ہے۔

مناظر: 239
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ