جو لوگ یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ نوازشریف کو نااہل کروانے ، اقتدار سے یا باہر کرنے یا مسلم لیگ (ن) حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے احتساب کا عمل شروع ہوگا اور اس عمل کے بطن سے ایک نیا پاکستان جنم لے گا، وہ وزیراعظم نوازشریف کی اقتدار سے بے دخلی اور نااہلی کے بعد برپا سیاسی صورتِ حال کے بعد ایک عجیب تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ جس تبدیلی کا تصور لیے بیٹھے تھے، وہ ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سیاسی معجزوں پر یقین رکھنے والا سماج ہمیشہ معجزوں اور مسیحائوں کا منتظر ہوتا ہے۔ ہمارا سماج اس روایت سے شدت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اسی لیے وہ تبدیلی اجتماعی کوشش یا جدوجہد کی بجائے کسی ایک فرد کی شکل میں دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اُن کا مسیحا کبھی وردی کے بغیر اور کبھی وردی میں ہوتا ہے۔ ہم اپنے سماج کو شعور، فکر، ادراک، منطق، علم اور سیاسی نظریے کی بجائے کسی ایک فرد کی مسیحائی میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں ہر ایک یا دو دہائی بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک مسیحا اور ایک دجال نظر آتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے خوابوں سے تخلیق کردہ مسیحا کی مسیحائی کے منتظر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ اپنے خوابوں سے طے کردہ دجال کو گرانے، مٹانے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں کے علاوہ ہم نے متعدد آرمی چیفس کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا، پھر اس پر یقین کیا، اسی طرح بغیر یونیفارم کے مسیحا۔ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔ مسیحا اور دجال کی لڑائی کی بنیاد پر خبریں، رپورٹس اور تجزیے انہی پر مشتمل ہیں۔ حتیٰ کہ خواتین کے سکینڈلز اور شادیاں اور طلاقیں، مسیحا اور دجال کی تصوراتی کہانیوں کے اہم حصہ ہیں۔ کبھی لوگوں نے ایک جج کو مسیحا مانا اور کبھی جرنیل اور سیاست دان کو۔
ایک تواہم پرست سماج جس قدر مذہبی حوالے سے تواہم پرست ہے، اسی قدر سیاسی تواہم پرستی بھی اپنے عروج پر ہے۔ اسی سیاسی تواہم پرستی سے سیاسی شخصیت پرستی، سیاسی بت پرستی اور موروثی سیاست جنم لیتی ہے۔ میری ایک پسندیدہ کتاب ’’مسلمان اندلس میں‘‘ ہے، جو ایک غیر جانب دار انگریز مؤرخ نے مسلم سپین کی شان دار تاریخ پر تحقیقی بنیادوں پر لکھی ہے۔ سٹینلے لین پول کی کتاب ’’مسلمان اندلس میں‘‘ سپین میں مسلمانوں کی جہاں شان دار تاریخ کو بھرپور انداز میں دلیل کے ساتھ پیش کرتی ہے، وہیں پر مسلم ہسپانیہ کے زوال پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ زوال کے دنوں میں مسلم ہسپانیہ کے لوگوں کا ایک پہلو بڑا قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ زوال کے برسوں میں ہسپانوی مسلمان ایک سلطان کو نکالنے کے لیے دن رات ایک کردیتے تھے اور اس کی جگہ دوسرے شخص کی سلطانی کے لیے کوشش اور سازش کرتے تھے۔ وہ سلطان کی تبدیلی کو ریاست اور سماج کی تبدیلی سے تعبیر کرتے تھے۔ یہ عمل دہائیوں تک جاری رہا لیکن زوال کا عمل نہ تو رکا اور نہ ہی کم ہوا، اس لیے کہ زوال کا عمل اپنی جگہ تو موجود رہا بلکہ سلطانوں کو نکالنے اور لانے کی سازش اور کوشش بھی اس زوال کے عمل کو Enhance کرتیں۔ ظاہری طور پر وہ حکمران شخص کی تبدیلی کو ہی ’’تبدیلی‘‘ تصور کیے ہوتے۔ اور جب یہ عمل مکمل ہوا تو ریاست اپنے زوال کی حدوں کو چھو گئی اور یوں حکمرانوں کو بدلنے والا سماج اور ریاست ہی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ جب اپنے وقت کی ترقی یافتہ ریاست مسلم سپین نے اپنے سماج میں تبدیلی، ترقی، روشن خیالی، جدیدیت، منطق اور استدلال کی جگہ شدت پسندی، مذہبی انتہا پسندی اور دھونس دھاندلی کو دینا شروع کی تو زوال اس کا مقدر بن گیا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے صدر جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پھر بے نظیربھٹو، پھر نوازشریف، جنرل مشرف، اور اب پھر نوازشریف سمیت تمام حکمرانوں کو ہٹاتے دیکھا۔ اِن حکمرانوںکو بدلنے کی سازشیں، ہجوم اور ہنگامے برپا ہوئے، حکومتیں بدل گئیں، لیکن سماج یا نظام نہیں بدلا، اس لیے کہ ہم نے سارا نظام اور نظامِ حکمرانی نہیں بدلا۔ ایسی باتیں پڑھنے والوں کو کتابی باتیں لگتی ہیں، اس لیے ہم شخصیات کو موضوع بنانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اور جو فرد، یا سماج شخصیات کو موضوع بناتے ہیں اور پسماندگی کی آخری منزل پر ہوتے ہیں۔
آج ایک طبقہ عمران خان کی مسیحائی کا منتظر ہے، نوازشریف کی بے دخلی اور نااہلی کے بعد وہ پاکستان کو بدلنے سے تعبیر کررہے تھے۔ اُن کے لیے نااہل قرار دئیے گئے وزیراعظم کی شریک حیات محترمہ کلثوم نوازشریف کا انتخاب میں کھڑا کیا جانا سبق ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں۔ ہماری سیاست میں ’’اعزاز‘‘ پانے والی تمام سیاسی جماعتوں کے اندر خاندانی سیاست اس زوال کی سب سے بڑی نشانی قرار دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن زوال کی یہ نشانی اپنے اپنے حلقہ مداحین میں باعث فخر ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور اسی طرح لاتعداد معروف ومقبول سیاسی شخصیات کے چشم وچراغ جس طرح سیاسی منظرنامے میں اتارے جاتے ہیں، کیا اسے نظام کی تبدیلی سے تعبیر کیا جائے یا زوال سے۔ اکثریت اسے نظام کی تبدیلی اور اپنا اپنا فخر قرار دیتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں، اگر اقتدار عمران خان کے ہاتھوں میں آئے، تین چار سال وہی فلم دوبارہ چلتی نظر آئے گی جو 2014ء کے بعد اب تک چل رہی ہے۔ اس لیے کہ جب تک ہم مسیحائوں کے منتظر اور سیاسی معجزوں کی توقعات اور دعائوں ، تعویذ گنڈے، ٹونے ٹوٹکے دھاگے سے بدلنے کی خواہشات کے محلات تعمیر کیے رکھیں گے، اس زوال کا دائرہ گھومتا رہے گا۔ ممکن ہے عمران خان تبدیلی کا شان دار خواب لیے بیٹھے ہوں۔ لیکن خوابوں سے نہ نظام بدلتے ہیں اور نہ ہی ملک بنتے ہیں۔ یہ افسانوی الفاظ، جملے اور تصورات ہیں کہ خواب نے ملک بنا ڈالا۔ انسانی اجتماعی جدوجہد ہی انسانی تاریخ کو بدلتی ہے۔ نبی آخرالزماں رسول کائنات حضرت محمد ﷺنے دنیا میں سب سے بڑی حقیقت دین اسلام کو اپنی جدوجہد بلکہ جہد مسلسل سے منوایا، انسانی تاریخ کو اس کامیابی کو اس لیے بڑی کامیابی کہا جاتا ہے کہ پیغمبر آخرالزماں ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں دین اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ معجزوں کی طاقت رکھنے والی اس عظیم ہستی نے اپنے عمل، جدوجہد اور فکر سے دنیا کی پسماندہ ترین سرزمین کو بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے دینی عقیدے کے مطابق، یہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہے، اگر یہ انقلاب شخصیت پرستی، تواہم پرستی، بدعت، موروثیت، مسیحائیت اور معجزہ گیری کے بغیر جہد مسلسل سے برپا ہوا تو آج ہم اپنے سماج، ریاست اور نظام کو کس طرح محض مسیحائوں اور معجزوں سے بدلنے کے منتظر ہیں؟ اگر ہم اس ملک، نظام اور سماج کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں دلیل، منطق، استدلال، انصاف، سماجی انصاف، سماجی اور عوامی فکر کی بنیاد پر بدلنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر ہر برپا ہونے والی تبدیلی، تبدیلی نہیں بلکہ زوال ہے۔