سی پیک کے پراجیکٹ کی کل مالیت 46 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جس میں صرف توانائی و بجلی کے شعبے میں 33.79 بلین ڈالر، سڑکوں پہ 5.90 بلین ڈالر، ریل پہ 3.69 بلین ڈالر، لاہور میں ٹریفک کے لیے 1.60 بلین ڈالر، گوادر پورٹ کے لیے 0.66 بلین ڈالر، اور چین پاکستان فائبر اوپٹیکس کے لیے 0.04 بلین ڈالر مختص ہیں۔ یہ سارے پراجیکٹ اگلے چھے سال میں مکمل ہو جائیں گے۔
سی پیک کے منصوبے میں 4 بڑی شاہرایں ہیں جو پاکستان سے چین جائیں گی۔ اس منصوبے میں 40 بڑے پراجیکٹس ہیں جن میں سے 16 بلوچستان، 8 خیبر پختونخواہ، 13 سندھ، 12 پینجاب کے حصے میں آئیں گے۔ اس پراجیکٹ کے نتیجے میں 10400 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہو گی۔ بجلی کے بڑے منصوبوں میں سے پنجاب میں 1000 میگاواٹ سولر پاور پارک، 870 میگاواٹ سکی کناری (خیبر پختونخواہ) ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 720 میگاواٹ کاروٹ (AJK) ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، متحدہ توانائی پاکستان کا 100 میگاواٹ، سچل کمپنی کا 50 میگاواٹ اور ہائیڈرو چین کا 50 میگاواٹ کا منصوبہ شامل ہے۔ پاکستان کے پی ٹی وی اور چین کے سی سی ٹی وی میں معاہدہ بھی ہوا ہے جس کے وجہ سے دونوں چینل آپس میں اشتراک کریں گے۔ گوادر اور کرامے جبکہ لاہور اور Zhuhai شہروں کو سسٹر شہر کا درجہ دینے کا بھی معاہد ہوا ہے[1]۔
بلوچستان میں جو بڑے سولہ پراجیکٹ لگنے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پنجاب کے 12 منصوبوں میں درج ذیل ہیں:
سندہ کے تیرہ منصوبے درج ذیل ہیں:
خیبر پختونخواہ کے درج ذیل منصوبے ہیں:
سی پیک کے پراجیکٹ میں 9 خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے جن میں درج ذیل اقتصادی زون شامل ہیں:
ان سارے پراجیکٹس کے دفاع کے لیے پاکستان 12000 افراد پہ مشتمل ایک فورس بھی تشکیل دے گا جو ان کی حفاظت کریں گے۔ [1-3]
حالیہ دنوں میں ہمارے وزیراعظم نے سی- پیک کے تمام تر پلاننگ کو پلاننگ منسٹری سے چین کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ اسی عادت کا تسلسل ہے جس پہ ن لیگ چلتی رہی ہے کہ ساری طاقت کو ایک ہاتھ میں رکھا جائے۔ اسی پالیسی پہ چلتے ہوئے سابقہ بادشاہ نے کوئی فورن منسٹر نہیں بنایا تھا۔ سی-پیک کی پلاننگ مرکزی سطح پہ ہونے کے علاوہ تمام اداروں کو اس میں شامل ہونا چاہے اور اس کے لیے ایک الگ سے منسٹر ہونا چاہیے تھا تاکہ منصوبے بروقت تکمیل کو پہنچیں اور طاقت بھی ایک جگہ پہ نہ سکڑے۔ لیکن ہمارے حکمران طبقے کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے کسی ایک علاقے میں ٹیوب ویل لگوانا ہو تو اس کی منظوری بھی وفاقی وزیر سے لینی پڑتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بڑے منصوبے کے نتیجے میں آنے والے سماجی و معاشی فوائد کو ایک طبقے تک محدور نہ رکھا جائے۔ لیکن حکمرانوں کی وسائل کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جو پالیسی ہے وہ اس بات کی غماز ہے کہ وہ اختیارات کو شیئر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
[1] T. Boyce, China-Pakistan Economic Corridor, ; Sandia National Laboratories (SNL-NM), Albuquerque, NM (United States), 2017, pp. Medium: ED; Size: 36 p.
[2] D. Bhattacharjee, China Pakistan Economic Corridor, (2015).
[3] Wali Zahid.