پاکستان قیامت تک قائم رہے گا! یہ نعرہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ یہ نعرہ حقائق اور قانون فطرت کے برعکس ہے۔ اگر ہم پچھلے آڑہائی ہزار سال میں قائم ہونے والی مضبوط سے مظبوط سلطنت کو دیکھیں تو ہمیں سب زیادہ دیر تک زندہ رہنے والی دو سلطنیتیں ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک مشرقی رومن سلطنت یا بزنتین سلطنتہے، جس کا قیام 330ء کے دوران ہوا اور اس کا دارالحکومت ترقی کا شہر استنبول تھا، اس سلطنت کو عثمانی ترکوں نے 1453ء میں فتح کیا۔ یہ عرصہ کم و بیش 1123 سال بنتا ہے، جس کے دوران سلطنت کئی لاکھ مربعہ میل سے سکڑ کر صرف استنبول شہر تک محدور ہو گئ تھی۔ عثمانی خلافت کا قیام 1299ء میں ہوا اور 1922ء میں ختم ہو گئی۔ اس سلطنت کی عمر 623 سال بنتی ہے۔ برٹش سلطنت بھی جو ماضی قریب میں ایک طاقتور سلطنت تھی، آہستہ آہستہ دم توڑ گئی اور اس کو راج کرنے کے لیےکم و بیش دو سے تین سو سال ہی ملے۔ اگر یہ سلطنتیں اتنا لمبا عرصہ تک قائم رہنے کے بعد ختم ہو سکتی ہیں تو پاکستان کے موجودہ نظام کی عمر ایک یا دو سو سال سے زیادہ نہیں لگتی۔
کسی بھی سلطنت کی عمر کا دورانیہ وہاں کے سماجی نظام کی سوچ سے ملتا ہے۔سلطنت باہر سےختم ہو گئی یا اندر سے۔ اگر اس کا نظریہ اور اس پہ قائم معاشرہ طاقتور ہے تو کبھی بھی سلطنت اندر سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر سلطنت دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کو اپنے سماج میں جگہ دیتی ہے، تو وہ سلطنت جلدی ختم نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیاء کا سماج اور بالخصوص پاکستان، تبدیلیوں کو جب محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنا اثر دکھا چکی ہوتی ہیں۔
جب دنیا میں پہلا صنعتی انقلاب (1850ء) آ رہا تھا تو یہاں کا سماجی نظام اپنی اجتماعیت کھو رہا تھا اور یہاں کی لیڈرشپ اپنی آزادی ایک ایسی قوم کے سپرد کر رہی تھی جو صرف کاروبار کی سوچ رکھتی تھی۔ برطانوی سوچ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائزسمھتی تھی اور معاشرے میں نفرت پھیلانا بھی جائز تھا۔ اس کاروباری قوم نے یہاں نفرت کے جو بیج بوئے ہم نے اس کی آبیاری کی اور اپنے سماجی نظام کو نفرت کی بنیاد پہ پروان چڑہایا۔ نفرت کی بنیاد پہ انڈیا کے ساتھ مقابلہ بازی کو اپنی سوچ کا محور بنایا گیا۔ برصغیر کے راجے پہلے بھی لڑتے تھے اور اسی وجہ سے یہاں پہ کوئی اچھا سماج پیدا نہیں ہوا اور یہاں کے لوگوں کو باہر سے آ کر ہی لوگ چلاتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی چل رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار صرف پاکستان کا حکمران طبقہ نہیں، دونوں طرف سے یہ کھیل برابر جاری ہے۔
پھر دوسرا اور تیسرا صنعتی انقلاب آیا، تو پاکستان اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا تھا کیوں کہ یہ وہ دور تھا جس وقت پاکستان بن چکا تھا، لیکن افسوس ہم نے اس کو بھی ضائع کر دیا۔ اب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف جا رہی ہے اور یہ انقلاب مغرب نہیں، بلکہ ایشیاء سے نکلنے جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اگر ہم اس انقلاب میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر قوی امید ہے پاکستان کا موجودہ سماج بھی بدل جائے گا، اور ہم قیامت تک تو پتہ نہیں، لیکن کافی عرصہ تک پاکستان کی موجودہ سرحدوں کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا تبدیلیاں کی جائیں، کہ ہم قیامت تک زندہ رہ سکیں؟
سب سے پہلی تبدیلی تو سوچ کی ہے۔ سوچ کون سی؟ سیاسی سوچ۔
سیاست میں ہمیں جن لوگوں نے جکڑا ہوا ہے اور جیسے جکڑا ہوا ہے، وہ ہے ہماری ضرورتیں۔ یہاں کے کسانوں کو تھانے کے ذریعے اور ڈیروں کے نظام نے جکڑا ہوا ہے۔ کسانوں کے مسائل اجتماعی بنیادوں اور اداروں کے ذریعے حل کرنے کی بجائے سیاست دان اپنے ڈیروں کے ذریعے حل کرتے ہیں، اور یہ گلی کے سیاست دان خود اگلے ڈیروں پہ جا کر داد رسی کرتے ہیں، اور بات چلتے چلتے لندن تک جاتی ہے۔
ہمیں ان ڈیروں کو خیر آباد کرنا ہوگا اور اپنے مسائل اداروں کے ذریعے حل کرنے ہوں گے اور اس کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اس کے بعد آتا ہے شعور۔ ہمیں دنیا میں علم کے ان ذرائع سے وابستہ ہونا پڑے گا، جس کی وجہ سے ہم دوسرے انسانوں کو انسان سمجھیں۔ گروہی سوچ اور دو قومی نظریے کی بدولت مخصوص مذہب سے نفرت کی سوچ، ہمیں اقوام عالم سے تعاون لینے اور دینے سے روکے گی اور ہم تعاون کے بغیر کیسے طاقتور ہوں گے؟ ہمیں دو قومی نظریے کو خیر آباد کہہ کے ملک کو ایک زندہ نظریہ پہ پروان چڑہانا ہوگا۔
ہمیں اپنی تاریخ کو اجتماعی انداز میں سمجھنا ہوگا اور دنیا کے تمام علوم کو اپنی زبان میں لا کر علم والے معاشرہ میں بدلنا ہوگا۔ علم والا معاشرہ اپنی سوچ کی وجہ سے پیداواری ہوتا ہے، اور وہ ایسی ایسی چیزیں پیدا کرتا جو دنیا خریدتی ہے اور وہ امیر ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کو چھوڑنا ہوگا کہ ہم ماضی میں کیسے ہارے۔ ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہے۔ سلطنتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ اصل معاشرہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو اتنا مضبوط ہونا پڑے گا کہ وہ جو بھی معاشی، صنعتی اور سیاسی ادارے بنائیں، ان میں اچھے لوگ اوپر آئیں اور وہ اجتماع کی سوچ رکھتے ہوں۔
لیکن یہ سب کچھ موجودہ رہنماؤں اور موجودہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہو کر تو مشکل ہی نظر آتا ہے۔ یہ اس حد تک بدبودار ہو چکی ہیں، کہ ان سے خیر کی توقع کرنا بھی بے وقوفی ہے۔ ستر سال پہلے ہم نے ان سے اپنی امیدیں وابستہ کی تھی۔ آدھا پاکستان مایوس ہو کر الگ ہوگیا۔ اب باقی پاکستان کو چاہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔ اس لیے پاکستان کو ایک نئے نظریے پہ تیار نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ جو ملک کی موجودہ سرحدوں کو بھی قائم رکھے۔ فرقہ واریت سے بھی بچائے اور ایک باعزت معاشرہ تشکیل دے۔ ایسی قیادت ہی ملک اور اس معاشرہ کو باعزت طور پہ قیامت تک زندہ رکھے گی۔