عائشہ کا ٹیوشن میں پہلا دن تھا وہ میرے پاس سیکنڈ ائیر کی ایک طالب علم تھی۔پہلے دن میں نے اسکو انٹرو دیناتھا اس انٹرو میں میری گفتگو کا زیادہ تر موضوع والدین کی عزت وادب رہا کیونکہ میں اس بات سے آگاہ تھی کہ ماسٹر لیول کا طالب علم بھی علم کے میدان میں ٹاپ لسٹ پر ہوتا ہے لیکن اس کے والدین پچھتارہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اس کو اتنی اعلیٰ تعلیم کیوں دلوائی اکثر ایسا نہ ہوتا تو کبھی” پڑھے لکھے ان پڑھ“ کا محاورہ نہ بولا جاتا۔۔۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوۓ میں نے اس کو سمجھایا کہ ہماری تعلیم کا فائدہ تب ہوگا جب وہ ہمارے عمل میں دیکھائی دے گا۔یہ حقیقی بات ہے کہ تعلیمی اداروں میں رشتوں کی اہمیت نہیں بتائی جاتی ۔تعلیمی اداروں میں والدین کی خدمت پر مضمون تو پڑھایا جاتا ہے مگر اس خدمت کا احساس تو پیدا ایک احساس والدین رکھنے والا ہی کرسکتاہے۔میں کافی سمجھایا ۔وہ ایسے سر ہلا ہلا کی میری باتوں سے اتفاق کررہی تھی کہ ابھی گھر جاتے ہی عمل شروع کردے گی ۔مجھے بھی محسوس ہورہا تھا کہ بات اس کے دل تک جارہی ہے۔
کچھ دن گزرے کہ اس کی امی جان اسے چھوڑنے آئی اور اس کی شکایات کی لمبی لسٹ لے کر آئی۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کی آنسوؤوں میں درد تھا ۔اس درد میں انتھک محنت تھی جو وہ ان کے لیے کرتی تھی۔بہت مشقت سے وہ ان کو پڑھارہی تھی۔۔ان کا درد مجھے محسوس ہورہاتھا۔اور مجھے افسوس بھی ہورہاتھا ۔عائشہ پہ نہیں اپنے آپ پہ۔۔۔۔۔میں سوچ میں پڑگئ ۔
میں عائشہ سے اس دن کچھ نہ کہہ سکی لیکن کچھ دن بعد میں اس سے دوبارہ مخاطب ہوئی۔اور میں کہنے لگی۔
عائشہ مجھے ایک چیز سمجھ آگئی ہے کہ ہم۔والدین کی عزت کیوں نہیں کرتے ؟
کیونکہ ہم والدین سے پہلےآنے والی دو ہستیوں سے محبت نہیں کرتے یہ کیسے ممکن ہے کہ جو
اطیعو اللہ واطیعوالرسول
پہ عمل نہ کر رہاہو اس کے دل میں والدین کی محبت پیدا کر دی جاۓ۔ہم پہلے دو مرحلوں کو چھوڑکر تیسرے کا سوچ رہے ہیں۔والدین بھی اس چیز کو مدنظر رکھتےہیں کہ ان کی خدمت نہیں کی جاتی ان کی نافرمانی ہوتی ہے۔آج تک مجھے ایےوالدین کی تلاش ہی جو اس بات سے پریشان ہوں کہ میری اولاد اللہ اور اسکے رسول سے محبت نہیں کرتی ۔ان کے احکام کو رد کرتی ہے کیونکہ وہ بھول گئے ہیں پہلے دو مرحلے وہ بچوں میں اطیعواللہ و اطیعو الرسول کی محبت ہی نہیں پیدا کر پاتے۔میں اس سے پوچھا عائشہ کیا آپ رب سے ملاقات کرتی ہوں اس کے حضور پانچ وقت جبین جھکاتی ہو ۔۔جس کا سب سے پہلےے حساب لیا جانا ہے ۔
اس نے سر جھکا لیا اور صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اس فرض میں کوتاہی برتتی ہے۔
دنیا جب اطیعواللہ و اطیعوالرسول کو چھوڑ کر تیسرے مرحلے کا رونا روۓ گی تو رب تو ناراض ہوگا ۔
جب ہم اپنے بچوں کے دلوں کو اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کی محبت کی طرف رغبت دلاۓ گے تو اللہ تیسری محبت خود بخود ان کے دلوں میں پیدا کردے گااس کے لیے ہمیں اپنی اولاد کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ تم مجھ سے پیار کرو۔
واللہ۔۔ہمیں نماز کی فکر نہیں ہمیں فرائض کی فکر نہیں ۔۔۔حتی کی رسول ؐ سے محبت کے دعویں ایسے ہیں کہ ن کی عاداتوں سے پیار نہیں ان کی سنتوں سے انس نہیں۔۔بچوں کو بس کلمہ آتا ہے نہ اللہ سے محبت نہ رسول ؐ کی سنت سے لگاؤ۔۔
محبت و اطاعت کا تعلق دعوؤں سے نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔محبت و اطاعت کا تعلق قربانیوں سے ہے۔۔۔
اپنی خواہشات کی قربانیاں ۔۔۔۔اپنے نفس کی قربانیاں۔۔۔۔اپنے اوقات کی قربانیاں۔۔۔۔کبھی ایسا ہوا کہ بچوں کو پاس بٹھا کر پیارے نبیؐ کی میٹھی میٹھی سنتیں بتائی ۔۔پھر کیسے گلے کے حقدار ہیں قصور ہمارا ہے ہماری تربیت کا ہے ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم قصوروار ہیں۔ہم الله کے نظام کی ترتیب تبدیل کررہے ہیں۔کیسے اثر ہوگا ہماری نئی ترتیب کا ہماری نئی نسل پہ ۔
ترتیب تو کلام پاک میں بھی یہی ہے۔