دہلی سلطنت 1206ء میں قائم ہو چکی تھی جو کہ 1526ء تک قائم رہی۔ اپنے قیام کے بعد برصغیر کا ایک بڑا علاقہ دہلی سلطنت کا حصہ تھا۔ جبکہ جنوب میں وجےنگر نام کی ایک سلطنت موجود تھی۔ ان دونوں سلطنتوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں بھی تھیں جن کے بادشاہ مسلمان یا ہندؤ تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ ہے کہ مذہب کے فرق کے باوجود ریاست کی سربراہی سیاست کا فن ہی طے کرتا تھا، اور ریاست کی عمر حکمرانوں کی معاشی اور معاشرتی کارکردگی ہی طے کرتی تھی، جبکہ مذہب کی وجہ سے حکمرانوں کو اچھا یا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دہلی سلطنت کا دورانیہ کم و بیش 320 سال بنتا ہے۔ اس دوران انہوں نے برعظیم پاک وہند کے معاشرے کو کس طرح بدلا زیر نظر مضمون میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔
زراعت
سلطنت کے قیام کے فوراً بعد یہاں کے سماج کو ترقی دینے کے لیے ان حکمرانوں کے اقدامات کی بدولت زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ زرعی پیداوار میں اضافہ کی وجہ سے باقی معاشی شعبوں میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ سب سے پہلے ہم زراعت میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں گے۔ زراعت کے شعبے میں سب سے پہلے حکمرانوں اور ریاست کی سطح پہ پلاننگ کی گئی، محکمہ زراعت قائم کیا گیا اور فصلوں کو تین حصوں میں بانٹا گیا۔ جن میں فوڈ کراپس مثلاً گندم، چاول، بارلے، جوار، جو، اور دالوں کی کئی اقسام کو شامل کیا گیا ۔ کیش کراپس جس میں کاٹن، اوپیم، اینڈی گو، اور گنا شامل کیا گیا۔ فروٹ کراپس میں آم، خربوزہ، تربوز، جامن، اور بیر شامل تھے۔ اس طرح فصلوں کی کم وبیش 23 اقسام کو متعارف کرایا گیا، جو پہلے برصغیر میں نہیں تھیں ۔ محمد تغلق نے اس وقت کے 20 ملین سکے ( تنقاز) محکمہ زراعت کے ذریعے کسانوں کو قرض کے طور پہ دیئے ۔ ان فصلوں کی سیرابی کے کے لیے ڈیم بنائے گئے، کنویں اور پرشین ویل کی ٹکنالوجی متعارف کرائی گئی جوکہ اس وقت تک کی سب سے ترقی یافتہ مکینکس کی شکل تھی اور خالصتاً ایشیائی ٹیکنالوجی تھی۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت پنجاب میں بہت خوشحالی آئی اور فصلوں کے بڑے بڑے پلاٹب کی سیرابی ممکن ہو گئی۔ فیروز تغلق کے زمانے میں دریائے جمنا سے نہریں نکالی گئیں جو کہ پنجاب اور ہریانہ کو سیراب کرتی تھیں۔
دیگر ٹیکنالوجیز
ریشم کے کیڑے کو تیار کرنے کے لیے پہلی دفعہ ملبری کے درخت کو استعمال کیا گیا اور ریشم کے کپڑوں کی پیداوار بڑھی (اور یورپ و ایشیاء کو ایکسپورٹ بھی بڑھ گئی)۔ جب زرعی پیداوار بڑھی تو اس سے دوسرے شعبے بھی متاثر ہوئے۔ پیپر کی صنعت کو برصغیر میں ترقی ملی جو کہ پہلے یہاں پہ نہیں تھی۔ زنک کی کشید بڑھی اور زنک انجینرنگ کا شعبہ ترقی کر گیا۔ گھریلو ضرورت کی تمام اشیاء اور برتن زنک کے بننا شروع ہو گئے۔ کپڑے بنانے کی لومز میں بھی تبدیلی آئی اور عمودی لومز کی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی جس کی بدولت کشمیر میں قالین کی صنعت پھیل گئی۔ چرخوں کی ٹیکنالوجی میں بھی تبدیلی آئی اور برصغیر کپڑے کی صنعت میں خود کفیل ہو گیا (اور برآمد بھی کرنے لگا)۔ دہلی سلاطین نے ٹیکس کیش اور فصل دونوں کی صورت میں لینا شروع کر دیا۔ جب حکومت کے پاس پیسے کی فراوانی ہوئی تو آرکیٹکچر کو ترقی ملی، جس سے سیمنٹ، ریاضی، انجینرنگ کے فنون کو ترقی ملی۔ جی -ٹی- روڈ جوکہ آج کے سی- پیک سے بھی بہت بڑا روڈ تھا، بنایا گیا۔ لوگوں کی نقل و حرکت بڑھی جس کی بدولت بنگال سے لیکر مشرق وسطی تک گلوبلائزیشن کی ایک نئی لہر چلی۔
ٹیکس اور انتظامیہ
اس دور میں زمین کے بڑے بڑے رقبے کو اقتاز کہتے تھے اور منتظم کو مقتی۔ زیادہ تر مقتی فوجی جنرل ہوتے تھے۔ زراعت کے شعبے کا نام دیوان کوہی تھا جو فصلوں کو معاشرتی ضرورت کے مطابق کاشت کرنے کے مشورے دیتا تھا اور عمل درآمد بھی کرواتا تھا۔ تمام رعایا سے برابر ٹیکس لیا جاتا تھا، کوئی مذہبی فرق نہیں تھا۔ علاؤالدین خلجی کے زمانے میں اس کو اور بہتر بنایا گیا اور غریبوں پہ ٹیکس کم کیا گیا۔ محمد تغلق کے زمانے میں افسر شاہی کی نااہلی کا بھی ذکر ملتا ہے جب انہوں نے بغیر کھیت میں جائے، دفتر میں بیٹھ کر ہی تخمینے کی بنیاد پہ ٹیکس لینا شروع کیا، جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی، ٹیکس فصل کی پیداوار کے حساب سے ہی ہوتا تھا۔ فیروز تغلق نے چرائی اور گھرائی ٹیکس کو ختم کر دیا جو کہ محمد تغلق کے زمانے میں تھا اور صرف جزیہ ٹیکس لاگو کر دیا جس سے مجموعی طور پہ ریایا خوش تھی۔ فیروز تغلق کے زمانے میں ریاست نے اپنے اخراجات کم اور فیکس کر دیئے جس سے حکمرانوں اور بیوروکریسی میں غلط فہمیوں کو کم کرنے میں مدد ملی۔
مجموعی طور پہ پیسے کی فراوانی ہوئی، اردو و ہندیجیسی عظیم زبانیں وجود میں آئیں۔ایک پیشے کے لوگ دوسرے پیشے میں باآسانی جانے لگے اور پرانہ معاشرہ جو صرف ذات پات کو اہمیت دیتا تھا کمزور ہوا اور معاشرہ کو سکون کا سانس ملا۔مختلف تہذیبوں کے ملاپ سے شمالی ہند جو آج کی پاکستانی قوم و ملک بھی ہے، میں ایک نئی نسل اور ریس پیدا ہوئی۔ اس سلطنت کی مظبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ ہلاکو خان اور چنگیز خان جو کہ خلافت عباسیہ، چین، یورپ سبھی کو کھا گئے تھے، یہ دہلی سلاطین کی ریاست ہی تھی جو پاک و ہند کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئی۔