سچ لکھنے کے لیے سچ سننے والا معاشرہ چاہیے۔ اگر ایسا نہیں تو میں واضح کہنا چاہوں گا کہ اگر مشرق کی بجائے مغرب میں رہ رہا ہوتا تو میرے قلم کی طاقت میری سوچ کے علم کے مطابق ہوتی۔ افسوس ہمارے ہاں روز بروز ہر چیز ’’مقدس‘‘ بنتی جا رہی ہے۔ میں عملی طور پر ایک ایکٹوسٹ رہا ہوں اور اُن دنوں جب ایکٹوسٹ کالعدم قرار دے دئیے گئے، یعنی تمام سیاسی جماعتیں ممنوع، میں اُن چند ہزار ایکٹوسٹس میں سے ایک ادنیٰ سا ایکٹوسٹ تھا جو اظہارِ خیال کی آزادی کے لیے سڑکوں پر آیا۔ مجھے یاد ہے کہ منہاج برنا کی ایک تحریک میں بڑھ چڑھ کر سب سے آگے پلے کارڈ اٹھائے، ایک نوجوان اٹھارہ سے بیس سال کا نوجوان، ایک ایکٹوسٹ ہونے پر آپ کی پشت پر درّے بھی پڑتے تھے اور پابندسلاسل بھی کردئیے جاتے تھے۔ اور قلم کے استعمال کا آغاز بھی ایامِ جوانی سے ہی کیا، ایک ہفت روزہ ’’صدائے وطن‘‘ کے پلیٹ فارم سے۔ تب میں پورے انیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا۔ اور یہ ہفت روزہ بعد ازاں بند اور ایڈیٹر کو جیل میں قید کردیا گیا۔ میں ایک جوشیلا مگر نظریاتی ایکٹوسٹ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا کہ اگر پورا یا زیادہ سچ کا علم بلند کرنا ہے تو سیاسی جماعت کے بندھنوں سے آزاد ہو جائوں اور اپنے قلم، حروف اور فکر کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائوں۔ میرا رزق اب انہی حروف کی بدولت ہے، جو میں لکھتا، بولتا اور شائع کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کوئی کاروبار نہیں۔ اور میرا منشور سچائی ہے۔ اس دوران پہلے روزنامہ ’’وقت‘‘ اور بعد میں روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا۔ میرے بھائی عطاالرحمن مجھے ’’نئی بات‘‘ میں بڑی محبت اور احترام کے ساتھ لائے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ جو لکھو گے وہ شائع ہوگا۔ اور میں اُن کے شکریے کے ساتھ یہ کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ جو لکھتا ہوں، وہی شائع ہوتا ہے۔ اپنے اخبار کی طرف سے مجھے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
آج جب میں چاروں طرف دیکھتا ہوں تو ملک میں دو کام اپنے عروج پر ہیں۔ کالم نگاری اور ٹاک شوز۔ میرے کالم اخبار میں اشاعت کے بعد سوشل میڈیا کے مختلف بلاگرز بھی اپنی سائٹس پر شائع کرتے ہیں۔ اس دوران مجھے بڑے عجیب اور تکلیف دہ تجربات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بیشتر لوگ تجزیہ نہیں بلکہ وہ پڑھنا چاہتے ہیں جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے بھی کہ ہمارے کالم نگار درحقیقت سیاسی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اُن کو مختلف سیاسی وابستگیوں سے تعلق رکھنے والے قارئین ملے ہوتے ہیں۔عمران خان،نوازشریف،آصف علی زرداری ،فضل الرحمن،جماعت اسلامی یا کسی اورسیاسی جماعت کے حامیوں میں پڑھے جانے یا ان کے حلقوں میں مقبول کالم نگار۔اسی لیے جب میں کوئی کالم عمران خان کی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہوں تو اس کے حامی سخت ناپسندیدگی کا اظہار جبکہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی یا دوسرے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔اور ایسے ہی دوسرے رہنماؤں کے حامی اور مخالف۔ اگر میں یہ لکھتا ہوں کہ نواز شریف بڑے گھر میں رہتا ہے تو نواز شریف کے سارے مخالف قارئین خوش اور دوسرے کسی کالم میں یہ لکھوں کہ عمران خان بڑے محل نما گھر میں رہتا ہے تو ایسا ہی ردّعمل عمران کے حامیوں کا ناپسندیدگی میں اور عمران کے مخالفین کا ردّعمل خوشی پر مبنی آتا ہے اور بالکل ایسے ہی بلاول ہائوس جیسے بڑے گھروں میں رہنے والوں کا۔ یہ حقائق ہیں، ہم انہیں کیسے جھٹلا سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ زیادہ تر قارئین اب اپنی اپنی پسند اور جھوٹ پڑھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اُن کی ایسی ہی عادتیں بنا دی گئی ہیں۔ اگر فوج مقدس گائے نہیں تو کیا عمران خان، نوازشریف، آصف علی زرداری مقدس گائے نہیں بنا دئیے گئے؟
میرے نزدیک کسی رہبر کیا، کسی عام شخص کی کردارکشی بھی ایک غیراخلاقی فعل ہے۔ مگر یہاں تو کسی کے سیاسی عمل پر تنقید یا تجزیے کو حرفِ آخر یا حرفِ جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے میری عرض یہ ہے کہ جیسے ناخالص دودھ پینے والوں کو ایک عرصے بعد خالص دودھ ہضم ہونا مشکل ہوجاتا ہے، اسی طرح زمینی حقائق کو تسلیم کرنا، سچ کو پڑھنا اور سیاسی تجزیہ یا تنقید پڑھنے کا ہمارا حوصلہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یقینا قارئین کے ساتھ اتنا جھوٹ اور گلیمر شیئر کیا گیا ہے کہ قارئین اب سچ اور نان گلیمر کو پڑھنے کی استطاعت کھوتے جارہے ہیں۔ مثلاً یہ ایک جھوٹ ہے کہ جنرل ضیا کی تقریر پر اقوامِ متحدہ میں تلاوتِ قرآن کریم ہوئی۔ ڈکٹیٹر ضیا نے پوری قوم ہی نہیں تمام مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا اور اس کے گواہ موجود ہیں کہ کس طرح جنرل ضیا نے اقوامِ متحدہ میں اپنی ویڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن میں اس دوران قرآن کریم کی تلاوت کو بہ یک وقت تکنیکی زبان میں Voice over کرکے صرف اپنے اقتدار کے جواز ڈھونڈنے کے لیے ایسا کیا۔ مگر لوگ آج تک یہ سچ سننے یا پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے سچ سننے سے آنکھیں بند کرکے بس چند ایک کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ سچ کی تلاش وتحقیق سے اجتناب برتتے ہیں، بس جذباتی گفتگو، تجزیہ یا تحریر ہماری تشنگی کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ سچ پڑھنے کی عادت ہی نہیں ڈالی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مکمل اسباب کیا تھے۔ دراصل ہم نے لاتعداد جھوٹ پال رکھے ہیں اور اسی لیے اب ہرکوئی ’’مقدس گائے‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی مقدس گائے ہے۔ پی ٹی آئی کی اپنی، مسلم لیگ (ن) کی اپنی، پاکستان پیپلزپارٹی کی اپنی، دوسری سیاسی جماعتوں کی اپنی۔ یہ سیاسی لوگ،ا ن کے مداح اور ان کی حمایت میں لکھنے والے اگر فوج کو ’’مقدس گائے‘‘ قرار دئیے جانے پر نالاں ہوتے ہیں تو پھر اِن کو اِن مقدس گایوں پر نالاں نہیں ہونا چاہیے۔
میں نے نوٹ کیا ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد اِن رحجانات کی طرف شعوری طور پر راغب کی گئی ہے۔ قارئین کے سیاسی بت بھی ہیں اور قلمی بت بھی۔ بھلا ایک Spokesman قسم کا کالم نگار کیسے بے رحم تجزیہ کرسکتا ہے؟ ایسے Spokesman کالم نگار تو درحقیقت ان سیاسی درباروں کے ملاں نورتن ہیں۔ تجزیہ تو بے رحم ہوتا ہے۔ سیاسی تجزیہ تو انصاف کے ترازو کی طرح ہوتا ہے۔ عدالت، فراہم کیے گئے ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ دیتی ہے۔ ملزم جیسابھی ہو، اگر ثبوت اس کے خلاف ہیں تو وہ مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی سیاسی تجزیہ زمینی حقائق، واقعات اور تجزیہ نگار کے وژن کے مطابق ہوتا ہے۔ اور ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تجزیہ نگار کوئی بھی ہو، اس کا حرف، حرفِ آخر اور اس کا تجزیہ، آخری تجزیہ یا آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک عمل ہے، سیاسی فکر، سیاسی تجزیہ،Thesis، Antithesis اور Synthesisکے مسلسل عمل میں ہر وقت گھومتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں قارئین سیاسی تجزیات سے درحقیقت کالم نگار کے قلم سے اپنے سیاسی رہنما کی حمایت اور دوسروں کی مخالفت پڑھنا یا سننا چاہتے ہیں۔ کسی فلم کی طرح، ایک ہیرو تو دوسرا ولن۔ اور پھر وہ شخص یا سماج تو اپنی فکری گہرائی کی آخری حدیں چھو رہا ہوتا ہے جہاں فکر، نظریے، منشور یا حقائق کی بجائے شخصیات زیربحث ہوں۔
ایک دلچسپ مثال ہمارے ہاں انہی کالم نگاروں یا تجزیہ نگاروں میں ایک مختلف تجربہ ہے۔ ایک ’’محترم دانشور‘‘ ردِعمل کی بنیاد پر اپنے قلم اور زبان کو مسلسل استعمال کررہے ہیں۔انہوں نے بھی کمال کردیا۔ جہاں ہر قلم کار یا تجزیہ نگار کسی نہ کسی گلیمر کا علمبردار بنا ہوا ہے، ان محترم دانشور نے مسترد، مسترد، مسترد کی بنیاد پر ردِعمل کا انداز اپنا رکھا ہے۔ اُن کو اپنے حصے کے ’’لوگ‘‘ مل گئے ہیں۔ وہ کوئی لمحہ، لفظ، حرف ضائع نہیں کرتے، کہ جب تک وہ اپنی تاریخ، اپنے لوگوں، اپنے عوام، اپنے معاملات کو مکمل طور پر مسترد نہ کریں۔ اُن کے ہاں کوئی حل نہیں۔ بس Rejection ہی Rejection ۔ جس غصے، رعب، تکبر اور ہٹ دھرمی سے وہ بولتے ہیں، میں نے مہذب اور سیکولر مغرب میں کسی دانشور کو ایسے تکبر اور فیصلہ کن انداز میں بولتے نہیں سنا۔
افسوس، زوال کا عمل ہر طرف برپا ہے۔بیماری کی تشخیص درست مگر بیماری کا علاج تو تلاش کرنا چاہیے۔ تب ہی سماج بدلے گا۔ بہت پہلے میرے ایک نہایت قابل احترام دوست ڈاکٹر انور سجاد کہ اِن جیسوں کے دم سے پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کے حوالے سے ایک شان اور شناخت بنانے میں کامیاب ہوا۔ انہوں نے کہا، جب ہم لوگوں کو گھٹیا، بھدا اور بیہودہ ڈرامہ دکھلائیں گے تو پھر ناظرین کو ایسا ہی دیکھنا چاہیں گے۔ ایسے ہی اہل قلم اگر لوگوں کو خواہشات، ضروریات، مفادات اور شخصیات کے بوجھ تلے دبے تجزیے پڑھوائیں گے تو قارئین منطق، حقیقت، دلیل اور وژن کی بجائے اپنی ذہنی تسلی بلکہ ذہنی عیاشی پر مبنی کالموں پر ہی متفق ہوں گے۔