ہم سمجھتے ہیں کہ مرے ہوئے لوگ صرف قبرستان میں ہوتے ہیں نہیں، بالکل نہیں،میں نہیں مانتا!وہ لوگ جن کے جسم سے روح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے انکو مرا ہوا کہنا ایک عام سی بات ہےاور اسکو سمجھنا اور قبول کرنا بہت آسان ہے۔اب ایک قسم اور بھی ہے جن کو مرا ہوا کہا جا سکتا ہے جن کے جسم میں روح بھی ہے لیکن برائے نام ہے۔ایک مرے ہوئے انسان سے مراد وہ ہے جو کسی کا اچھا برا نہیں سوچ سکتا،کسی کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتا،کسی کے غم و خوشی میں شریک نہیں ہو سکتا۔لیکن ایسے لوگ جو روح کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی احساس کا جزبہ نہیں رکھتے اُن کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟
یہ ایک غلط رویہ ہے ہمارے معاشرے کا کہ مرا ہوا “مرگیا” حالانکہ اسکی زندگی کا دوسرااہم پہلو شروع ہوا جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے،پر جو اپنی زندگی میں روح کا ساتھ ہوتے بھی مر گیا وہ خاک زندگی پائے گا اصل مرنے کے بعد۔ایک بار کا مرنا تو ٹھیک پر ایک سے زائد دفعہ مرنا قابل افسوس ہے”مجھےکیا بُراتھا مرنا اگر ایک بار ہوتا”۔
ہمارے معاشرے میں ہر شعبہ میں مرے ہوئے لوگ موجود ہیں،نہیں یقین تو ہمارےسسٹم کی انتظامیہ کے لوگوں کو دیکھ لیں جو آپ کو نشریات میں ایک دوسرے کو مرا ہوا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں پر ہم سمجھ نہیں پاتے۔جوآئین میں ترمیم کے نام پر جاگیردار،وڈیرےاور سرمایہ دار کو تحفظ فراہم کرنے کے بِل پاس کرتے نظر آتے ہیں جن کو سزا تو دور انکی نااہلی بھی ثابت نہیں کی جا سکتی۔عدلیہ کو یہ حق نہیں کے وہ کسی سرمایہ دار یا جاگیردار کو روک سکے مقننہ عوام کے لیے خوفناک اور جاگیردار کے لیے خوبصورت ادارہ بن چکا ہے۔ایسے معاشرے میں پھر مرے ہوئے لوگ ہی اوپر آئیں گے اور نچلے طبقے کو بھوک، افلاس اور فرقہ واریت سے ماریں گے۔
آج کے دور میں زندہ وہی ہے جس کا ضمیر زندہ ہے جو علمی بحثوں سے نکل کر مفادِ عامہ کا کام کرے، جو اسلام کے اصولوں کو بنیاد بنا کر خود کو صالح اجتماعیت کے ساتھ ملائے ،انفرادیت کا رد کرےاور اسوہ حسنہ کو اپنائے گا۔ زندہ وہی ہے جو دوسروں کا احساس کرے ،ملکی ترقی میں کردار ادا کرے،جو بغیر رنگ نسل و مذہب احسن کام کرے گا۔اگر مستقبل قریب میں ہم زندوں میں شامل نہ ہوئے اور تجلیِ الٰہی کو سمجھنے سے قاصر رہے تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ہم پر کوئی اور قوم مسلط کر دے اور وہ قادرمطلق ہے.والسلام