پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے میانوالی میں یونیورسٹی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اگر تحریک انصاف نہ بنتی تو عوام پرانے سیاست دانوں کے غلام بنے رہتے۔‘‘ اپنی اس تقریر میں انہوں نے متعدد ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن پر تفصیل سے بحث کی ضرورت ہے جس میں سرفہرست سوال درج بالا ہے۔ انہوں نے اس تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے نوجوان دوسروں اور مغرب کے ثقافتی غلام بن چکے ہیں۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ محمد علی جناح کے افکار سے روگردانی کرنے کے سبب ہم بحیثیت قوم کامیابی کی کسی منزل کو نہیں چھو سکے۔
یقیناً ایک پارٹی کے رہنما کے طور پر وہ ایسی باتیں اور دعوے کریں گے تو ہی وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اُن کے اس سوال کا مختصر جواب تو یہی ہے کہ انہوں نے ایسی کون سی نئی فکر پاکستان کے عوام کو پیش کی ہے جس کے سبب پاکستان کے عوام پرانے سیاست دانوں کی غلامی سے باہر نکل آئے ہیں۔ اُن کی جماعت عملاً انہی سیاست دانوں کی غلامی میں جا چکی ہے جس کی غلامی سے آزادی دلوانے کے وہ دعوے دار ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ ایک مزید مقبول پارٹی کے طور پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے مگر حقیقت میں پاکستان تحریک انصاف اسی سیاسی فکر، اس معاشی واقتصادی فلسفے کے ساتھ اور اسی کی روایتی ’’سیاسی قیادت‘‘ کی قیادت میں سیاست کررہی ہے جو اس ملک پر روزِاوّل سے مسلط ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں اور ووٹرز کے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنے کے خواہاں ہے جو اس سیاسی قیادت کی غلامی سے نجات اور ایک خوش حال وترقی یافتہ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن افسوس پاکستان تحریک انصاف تو عملاً سٹیٹس کو کی پارٹی بننے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ اس کے ہاں وہ سیاسی جونکیں در آئی ہیں، جنہوں نے اس ملک کے عوام کو ہمیشہ مایوس اور ناامید کیا، پاکستان تحریک انصاف تو نئی سیاسی قیادت کو جنم دینے میں ناکام رہی اور جن چند ایک نئے لیڈرز نے اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے جنم لیا۔ یہ پارٹی تو اس روایتی قیادت کو اپنے ہاں شامل کرکے فیصلہ کن کردار دیتے ہوئے نگل گئی جو اس نئی پارٹی کے ا ندر پیدا ہوئے۔ 1997ء سے 2011ء (30اکتوبر2011ء کے لاہور میں جلسے) تک پاکستان تحریک انصاف آج کی تحریک انصاف سے مختلف جماعت تھی۔ 2011ء کے بعد اور خصوصاً 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک نئی پاکستان تحریک انصاف نے جنم لیا۔ 2013ء میں انتخابی کامیابی نے یہ پارٹی، عوام کی پارٹی کی بجائے سٹیٹس کو پارٹی بنتی چلی گئی۔ اس کی تمام تر ذمہ داری تو خود اس کے بانی رہنما جناب عمران خان پر آتی ہے، جو اس پارٹی میں حتمی طاقت رکھتے ہیں۔ سٹیٹس کو، اسٹیبلشمنٹ اور ’’آقائی سیاست دانوں‘‘ کو پارٹی میں لاکر اُن کو فیصلہ کن قائدانہ کردار دینے کا یہ تمام عمل اور ذمہ داری تو جناب عمران خان کی ہے۔ اب وہ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے عوام کو روایتی سیاست دانوں کی غلامی سے نکال باہر کیا؟ عمران خان اگر اپنے اس دعوے پر سچے ہوتے تو وہ اپنی پارٹی کو ان سیاسی جونکوں سے محفوظ رکھتے جو ہمیشہ ہی کبھی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے لوگوں کا سیاسی جذباتی استحصال کرتے رہے ہیں۔ کاش وہ اپنی جماعت کو سٹیٹس کو کی لڑی میںنہ پروتے اور اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں نہ ڈالتے۔
لگتا ہے عمران خان عوام کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے، انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام سے زیادہ خفیہ طاقتوں پر انحصار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بحیثیت سیاسی رہبر وہ عوام کو متبادل معاشی واقتصادی ایجنڈا دینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کیسے عوام کو سیاسی غلامی سے نجات دلا دی؟ لفظوں سے کھیلتے ہوئے لچھے دار تقاریر اور حقائق مکمل متضاد ہیں۔ حقائق کی تلخی کو خوب صورت الفاظ میں چھپانا ہی تو عوام کا جذباتی استحصال ہے۔ ہمارے رہبر اور خطیب انہی الفاظ کی خوب صورتی سے عوام کی امیدوں سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ کاش عمران خان، واقعی اپنے حمایتیوں کی امیدوں پر پورے اترتے، لیکن وہ ایسا کرنے سے شعوری طور پر گریزاںہیں۔ وہ نظام کو بدلنا نہیں، بس مرمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی کلونیل ریاستی ڈھانچے کے اندر ’’گڈ گورننس‘‘ کے دعوے اُن کے نزدیک ’’گوڈ گورننس‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی بجائے وہ اقتدار میں ہوں۔ وہ اسی اقتدار کی کرسی جو سٹیٹس کو کی کرسی ہے، وہ یہاں سے نوازشریف اور اُن کی جماعت کو ہٹا کر خود براجمان ہونے کو ’’گوڈ گورننس‘‘ سمجھتے ہیں۔
کرپشن ایک پُرکشش نعرہ ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں ہر فرد ہر روز معاشی استحصال کا شکار ہے، وہاں پر 200ارب ڈالر باہر کے ممالک میں لوٹ مار کے سبب چلے گئے۔ اس ایشو کو قومی سیاست کا حصہ بنانا درست، مگر جناب عمران خان سمیت تمام رہنما ہر روز جاری 95فیصد عوام کے استحصال پر کیوں چپ ہیں۔ اس استحصال کا حجم 200ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ استحصال، کرپشن سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب استحصال نہیں ہوگا، تو حکمران طبقات لوٹ مار کرنے سے قاصر ہوں گے۔ استحصال کا خاتمہ ہی کرپشن کا راستہ روک سکتا ہے۔ عمران خان صاحب، آپ نے کچھ بھی نہیں بدلا۔ ہاں اپنی جماعت کو بدل دیا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد آپ نے اس قیادت کو اپنی پارٹی کے اندر غیراہم بنایا اور کونے کھدروں میں لگا دیا جو اس پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور عوام کو غلام بنانے والے روایتی سیاست دانوں کو پارٹی کی سٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھا دیا۔ ’’تبدیلی‘‘ آپ اپنی جماعت میں لے آئے ہیں۔ اس قیادت کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جو اس ملک کا دہائیوں سے خون چوس رہی ہے اور اگر آپ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو آپ اپنی پارٹی کو اسی غلام داری نظام کی ایک مزید پارٹی میں مکمل طور پر بدل دیں گے جن کے خلاف آپ کے دعوے ہیں۔