• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
عمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندیعمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندیعمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندیعمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

عمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • عمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو! — تحریر: محمد عباس شاد
نومبر 13, 2017
آج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہ
نومبر 16, 2017
Show all

عمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے میانوالی میں یونیورسٹی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اگر تحریک انصاف نہ بنتی تو عوام پرانے سیاست دانوں کے غلام بنے رہتے۔‘‘ اپنی اس تقریر میں انہوں نے متعدد ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن پر تفصیل سے بحث کی ضرورت ہے جس میں سرفہرست سوال درج بالا ہے۔ انہوں نے اس تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے نوجوان دوسروں اور مغرب کے ثقافتی غلام بن چکے ہیں۔ اقبالؒ اور قائداعظمؒ محمد علی جناح کے افکار سے روگردانی کرنے کے سبب ہم بحیثیت قوم کامیابی کی کسی منزل کو نہیں چھو سکے۔

یقیناً ایک پارٹی کے رہنما کے طور پر وہ ایسی باتیں اور دعوے کریں گے تو ہی وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اُن کے اس سوال کا مختصر جواب تو یہی ہے کہ انہوں نے ایسی کون سی نئی فکر پاکستان کے عوام کو پیش کی ہے جس کے سبب پاکستان کے عوام پرانے سیاست دانوں کی غلامی سے باہر نکل آئے ہیں۔ اُن کی جماعت عملاً انہی سیاست دانوں کی غلامی میں جا چکی ہے جس کی غلامی سے آزادی دلوانے کے وہ دعوے دار ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ ایک مزید مقبول پارٹی کے طور پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے مگر حقیقت میں پاکستان تحریک انصاف اسی سیاسی فکر، اس معاشی واقتصادی فلسفے کے ساتھ اور اسی کی روایتی ’’سیاسی قیادت‘‘ کی قیادت میں سیاست کررہی ہے جو اس ملک پر روزِاوّل سے مسلط ہے۔

پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں اور ووٹرز کے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنے کے خواہاں ہے جو اس سیاسی قیادت کی غلامی سے نجات اور ایک خوش حال وترقی یافتہ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن افسوس پاکستان تحریک انصاف تو عملاً سٹیٹس کو کی پارٹی بننے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ اس کے ہاں وہ سیاسی جونکیں در آئی ہیں، جنہوں نے اس ملک کے عوام کو ہمیشہ مایوس اور ناامید کیا، پاکستان تحریک انصاف تو نئی سیاسی قیادت کو جنم دینے میں ناکام رہی اور جن چند ایک نئے لیڈرز نے اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے جنم لیا۔ یہ پارٹی تو اس روایتی قیادت کو اپنے ہاں شامل کرکے فیصلہ کن کردار دیتے ہوئے نگل گئی جو اس نئی پارٹی کے ا ندر پیدا ہوئے۔ 1997ء سے 2011ء (30اکتوبر2011ء کے لاہور میں جلسے) تک پاکستان تحریک انصاف آج کی تحریک انصاف سے مختلف جماعت تھی۔ 2011ء کے بعد اور خصوصاً 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک نئی پاکستان تحریک انصاف نے جنم لیا۔ 2013ء میں انتخابی کامیابی نے یہ پارٹی، عوام کی پارٹی کی بجائے سٹیٹس کو پارٹی بنتی چلی گئی۔ اس کی تمام تر ذمہ داری تو خود اس کے بانی رہنما جناب عمران خان پر آتی ہے، جو اس پارٹی میں حتمی طاقت رکھتے ہیں۔ سٹیٹس کو، اسٹیبلشمنٹ اور ’’آقائی سیاست دانوں‘‘ کو پارٹی میں لاکر اُن کو فیصلہ کن قائدانہ کردار دینے کا یہ تمام عمل اور ذمہ داری تو جناب عمران خان کی ہے۔ اب وہ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے عوام کو روایتی سیاست دانوں کی غلامی سے نکال باہر کیا؟ عمران خان اگر اپنے اس دعوے پر سچے ہوتے تو وہ اپنی پارٹی کو ان سیاسی جونکوں سے محفوظ رکھتے جو ہمیشہ ہی کبھی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے لوگوں کا سیاسی جذباتی استحصال کرتے رہے ہیں۔ کاش وہ اپنی جماعت کو سٹیٹس کو کی لڑی میںنہ پروتے اور اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں نہ ڈالتے۔
لگتا ہے عمران خان عوام کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے، انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام سے زیادہ خفیہ طاقتوں پر انحصار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بحیثیت سیاسی رہبر وہ عوام کو متبادل معاشی واقتصادی ایجنڈا دینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کیسے عوام کو سیاسی غلامی سے نجات دلا دی؟ لفظوں سے کھیلتے ہوئے لچھے دار تقاریر اور حقائق مکمل متضاد ہیں۔ حقائق کی تلخی کو خوب صورت الفاظ میں چھپانا ہی تو عوام کا جذباتی استحصال ہے۔ ہمارے رہبر اور خطیب انہی الفاظ کی خوب صورتی سے عوام کی امیدوں سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ کاش عمران خان، واقعی اپنے حمایتیوں کی امیدوں پر پورے اترتے، لیکن وہ ایسا کرنے سے شعوری طور پر گریزاںہیں۔ وہ نظام کو بدلنا نہیں، بس مرمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی کلونیل ریاستی ڈھانچے کے اندر ’’گڈ گورننس‘‘ کے دعوے اُن کے نزدیک ’’گوڈ گورننس‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی بجائے وہ اقتدار میں ہوں۔ وہ اسی اقتدار کی کرسی جو سٹیٹس کو کی کرسی ہے، وہ یہاں سے نوازشریف اور اُن کی جماعت کو ہٹا کر خود براجمان ہونے کو ’’گوڈ گورننس‘‘ سمجھتے ہیں۔
کرپشن ایک پُرکشش نعرہ ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں ہر فرد ہر روز معاشی استحصال کا شکار ہے، وہاں پر 200ارب ڈالر باہر کے ممالک میں لوٹ مار کے سبب چلے گئے۔ اس ایشو کو قومی سیاست کا حصہ بنانا درست، مگر جناب عمران خان سمیت تمام رہنما ہر روز جاری 95فیصد عوام کے استحصال پر کیوں چپ ہیں۔ اس استحصال کا حجم 200ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ استحصال، کرپشن سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب استحصال نہیں ہوگا، تو حکمران طبقات لوٹ مار کرنے سے قاصر ہوں گے۔ استحصال کا خاتمہ ہی کرپشن کا راستہ روک سکتا ہے۔ عمران خان صاحب، آپ نے کچھ بھی نہیں بدلا۔ ہاں اپنی جماعت کو بدل دیا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد آپ نے اس قیادت کو اپنی پارٹی کے اندر غیراہم بنایا اور کونے کھدروں میں لگا دیا جو اس پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور عوام کو غلام بنانے والے روایتی سیاست دانوں کو پارٹی کی سٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھا دیا۔ ’’تبدیلی‘‘ آپ اپنی جماعت میں لے آئے ہیں۔ اس قیادت کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جو اس ملک کا دہائیوں سے خون چوس رہی ہے اور اگر آپ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو آپ اپنی پارٹی کو اسی غلام داری نظام کی ایک مزید پارٹی میں مکمل طور پر بدل دیں گے جن کے خلاف آپ کے دعوے ہیں۔

مناظر: 244
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ