پاکستانی سیاست اپنی عمر کے اکہترویں سال سے گزر رہی ہے، لیکن ابھی تک اس کی کوئی کَل بھی سیدھی نہیں ہوئی۔ جو امراض اسے اوائل عمر میں لاحق ہوئے تھے، وہ نہ صرف جوں کے توں ہیں، بلکہ وہ پیچیدہ امراض کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ جن کا علاج روایتی طریقے سے ممکن نہیں رہا۔ قومی نظاموں کی ایسی ہی حالت کے لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’فکُّ کلِّ نِظام‘‘ (ہر فرسودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے) کا نسخہ تجویز کیا تھا۔ پاکستانی سیاسی جوار بھاٹے میں وقفے وقفے سے ایسے طوفان اٹھتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسی فضا بنائی جاتی ہے، جس میں وقتی اور عارضی تبدیلیوں کو قوم کی اُمنگوں اور حقیقی انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے پس منظر میں وہی روایتی سیاسی عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور سیاست دان اپنے اپنے مفادات، حالات اور اپنے وجود کو بچانے کے لیے اپنی پوزیشنیں بدلتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں حالیہ سیاسی حالات میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کے بدلتے کرداروں کو سمجھا جاسکتا ہے۔
28؍ جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رُکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم پاکستان کو نااہل قرار دیتے ہوئے اقتدار سے علاحدہ کردیا تھا۔ یاد رہے کہ دسمبر 2015ء میں پاناما لیکس سامنے آنے کے بعد 3؍ اپریل 2016ء کو پاکستانی وزیراعظم اور اُن کے بچوں کے نام بھی پاناما آف شور کمپنیوں میں سامنے آئے تو حزبِ اختلاف کے سیاسی دھڑوں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تو وزیراعظم کے اتحادی سیاست دانوں نے خم ٹھوک کر حکومت مخالف حلقوں کو پیغام دیا کہ وزیراعظم کو کوئی مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اور اسے اتحادی سیاسی عمل اور نظام کو بچانے کا نام دیتے رہے۔ مشترکہ جلسوں میں مخالف سیاسی قوتوں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ بعض قومی سلامتی کے اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
حکمران خاندان کے خلاف کیس میں سر تا پا رشوت اور بدعنوانی میں لتھڑی سیاست کے اَن داتا سیاست دانوں اور حکمرانوں کے کردار سے ان کا مقام متعین کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح حکمران خاندان نے جھوٹی گواہیوں، من گھڑت دستاویزات، دھونس اور ڈھٹائی سے اپنا دفاع کرنا چاہا اور انھیں بیش تر اتحادیوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ لیکن جب حکمران خاندان غیرمؤثر ہوکر دیوار سے لگ گیا تو نہ صرف اتحادی، بلکہ حکمران پارٹی کے سیاست دانوں کے بیانات بھی بدلنے لگے۔ بیش تر حکومتوں کے اتحادی ایک مذہبی پارٹی کے سربراہ نے 9؍ اپریل 2016ء کو پارلیمنٹ کے دروازے پر کھڑے ہوئے کہا کہ: ’’پاناما لیکس ایک عالمی سازش ہے۔ اور جے یو آئی پوری طرح وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہے۔ اور میں مخالفین کو بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔‘‘ (روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور) اسی طرح 4؍ مئی 2016ء کو اپنی مخالف صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بنوں میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایک مشترکہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’چوہوں کو مارنے والوں نے پنجاب کے شیر کو للکارا ہے۔ چوہوں سے ڈرنے والے شیر کا مقابلہ کیا کریں گے؟‘‘ (روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ لاہور) جب کہ اس کے برعکس 20؍ اکتوبر 2017ء کو چنیوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ’’عدلیہ اور فوج پر تنقید سے غیرملکی فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘۔ ’’شریف فیملی کے خلاف احتساب کا عمل اداروں نے شروع کر رکھا ہے‘‘۔ ’’احتساب کا عمل اگر شروع ہے تو اس سے گزرنا ہی پڑے گا۔‘‘ ع
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
یہ بہ طور نمونہ ہے، ورنہ ہماری سیاست کے بیش تر کردار ایسے ہی ہیں کہ جب وہ اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو دیکھتے ہیں تو اپنے ہی اتحادیوں کے خلاف آئین اور قانون کی حمایت کا سہارا لینا شروع کردیتے ہیں۔ اپنے آپ کو لوہے کے چنے قرار دینے والے طاقت کے مرکز سے صلح کروانے والوں کی تلاش میں ہیں۔ گھونسلے بدلتے ان سیاسی پرندوں کو یقین ہوتا ہے کہ جب اقتدار کے پاؤں کے نیچے سے زمین سِرکنا شروع ہوجائے تو اس نظام میں اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو ساحل نصیب نہیں ہوتا۔ اس سے قبل 2015ء میں جب نیشنل ایکشن پلان لانچ کیا گیا تو اس وقت بھی ’’جہادی فلسفے‘‘ کی مبلغ جماعتوں کے ’’جہادی جذبات‘‘ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے تھے۔
آخر کیا وَجہ ہے کہ ہماری سیاست ایسے کرداروں سے کیوں خالی ہے کہ جو قوم و ملت کی طرف سے عائد قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ کرگزرے۔ دراصل ہماری خوف زدہ سیاسی قیادت قومی ویژن سے عاری اور اپنے پاؤں میں بہت سی بیڑیاں رکھتی ہے کہ جو لیڈر بیرونِ ملک اثاثوں، اقاموں اور مفادات کے اسیر ہوں، وہ کسی مشکل وقت میں قربانی سے زیادہ سمجھوتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ماضی قریب کے سیاسی بحرانوں میں یورپ اور خلیجی ممالک نے ہماری سیاسی قیادت کے درمیان جو کردار ادا کیا تھا، اس کے اثرات آج بھی ہماری اس سیاست پر محسوس کیے جاسکتے ہیں کہ معزول وزیراعظم اپنے سابقہ سرپرستوں کی حمایت سے محروم ہونے کے سبب کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
موجودہ صورتِ حال میں ایک حلقہ گرتے ہوئے مصنوعی سیاسی ڈھانچے کے دفاع میں رطب اللسان ہوجاتا ہے کہ یہ سارا عمل سیاسی عمل کو کمزور کرکے سیاسی قوتوں کے کردار کو مائنس کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک مزید بحرانوں کا شکار ہوگا۔ جب کہ دوسرا حلقہ قومی حکومت یا ٹیکنوکریٹ کی حکومت کو ہمارے مسائل کا واحد حل قرار دیتا نظر آتا ہے۔
دراصل یہ دونوں نقطہ ہائے نظر زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔ کیوں کہ اس ملک میں سِرے سے کبھی کوئی آزاد سیاسی اور جمہوری عمل شروع ہی نہیں ہوا تو اس کو ختم کرنے کا کیا مطلب؟ جب کہ دوسری طرف سپر بیوروکریٹ جو میرٹ کو قتل کرکے سیاست دانوں کی کرپشن کے تحفظ کے ذمہ دار رہے ہیں، ان سے بھلا کیسے خیر کی امید کی جاسکتی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک آزاد قومی اور جمہوری پارٹی کے قیام کے بعد قومی جمہوری انقلاب کے ذریعے ایک آزاد سیاسی اور اقتصادی ڈھانچہ قائم کیا جائے، جو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد، خوش حال اور قومی جمہوری معاشرے کی بنیاد ربن سکے۔