پاکستان کا محل وقوع “مطالعہ پاکستان” کے مطابق انتہائی اہمیت کا حامل ہے، مشرق میں دنیا کی دوسری بڑی آبادی والا دشمن ملک انڈیا ہے، جن سے ہمارےکوئی ثقافتی، لسانی، مذہبی، تہذیبی، تجارتی تعلقات استوار نہیں ہو سکتے کیوں کہ (بمطابق مطالعہ پاکستان) ہم الگ قوم ہیں. گوکہ حج کے بعد آگرہ کا تاج محل دیکھنا ہمارے اکثر پاکستانیو کی آخری خواہش ہے.انڈیا کے ساتھ تجارت نہ ہو سکنے کی ایک وجہ انتہائی خطرناک” ہموار” راستے ہیں جن میں ریلوے اور سڑکیں شامل ہیں جو آزادی سے پہلے کی موجود ہیں.
مغرب میں افغانستان ہے. ہمارا سب سے طویل بارڈر اس کے ساتھ ہے جس کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا(ڈیورنڈ لائن). افغانستان سے ہمارے گہرے مذہبی تعلقات رہے ہیں. زبان پشتو اور فارسی ہے، ماضی بعید سے ہندوستان میں جس نے بھی حکومت کی وہ براستہ کابل(افغانستان) وارد ہوا، پاکستان بننے کے فوراً بعد اس سلسلہ کے تدارک کا اہتمام کیا گیا، اس راستے کو تباہ کر کے (افغان، روس جنگ) اس راستے کو مسدود کیا، اب ہماری مغربی سرحد انتہائی محفوظ ہو گئی. افغان ہماری دودھ اور شہد کی نہروں کے تحفہ پر بے حد ممنون ہیں اور دعاؤں میں یاد بھی رکھتے ہیں.
جنوب مغرب میں ایران واقع ہے، ایران تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے، لیکن یہ ذخائر فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کی ملکیت ہیں اور ہم ٹھہرے سنی اکثریت. ان ذخائر سے فائدہ اٹھانا کیونکر ممکن ہے. ان کی زبان فارسی ہے اور ہم کٹر اردودان. ایران سے بھی اقدار مشترک معلوم نہیں ہوتے.
شمال میں چائنا ہے، آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک. چائنا اور پاکستان میں بہت کچھ مشترک ہے جیسے مذہب، وہاں پر مسلمان، اہل کتاب اور ہم جیسے انسان صدیوں سے آباد ہیں. وہ بھی ایشین ہیں، تہذیب میں کچھ خاص فرق نہیں، وہ بھی کپڑے پہنتے ہیں اور ہم بھی، ان کے ہاں بھی شادی کی رسم ادا کی جاتی ہےاور ہمارے ہاں بھی نکاح کی، ایک صرف ناک کی ساخت اور حجم میں فرق ہے، اتنی ساری مشترک اقدار کے ساتھ اتنا سا اختلاف تو برداشت کیا ہی جاسکتا ہے. زبان بھی ملتی جلتی ہے( بمطابق ایلوپیتھک ڈاکٹر ) . انتہائی ہموار بلند پہاڑی راستے ہیں. تو کاروبار اور تجارت سمجھ بھی آتی ہے. دوستی بھی ہمالیہ سے بلند درجے کی ہے، اللہ تبارک وتعالی مزید برکت ڈالے.
مناظر: 100