• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
آج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہآج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہآج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہآج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہ
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

آج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہ

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • تعلیم | تربیت
  • آج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہ
عمران خان نے اپنی پارٹی بدل دی — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
نومبر 16, 2017
پیپلز پارٹی ساکھ کی بحالی میں سرگرداں — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
نومبر 19, 2017
Show all

آج کا طالب علم — تحریر: اریبہ فاطمہ

طالب علم کیا ہے؟؟
کیا وہ بچہ جو ابتدائی کلاسوں میں بیٹھا کھیلنے میں مصروف ہے ۔” یا“  پھر وہ جو پرائمری کی جماعتوں میں بیٹھا بچہ جو ہر وقت جھگڑنے کی تیاری میں تیار رہتا ہے۔ یا
پھر وہ بچہ جو مڈل کلاس میں بیٹھے اساتذہ کو حقیر جاننے کے فرائض سرانجام دے رہا ہے؟
اگر یہ بھی نہیںتو پھر وہ ہے طالب علم جو میٹرک کے ساتھ ساتھ روحانی ماں باپ(اساتذہ)کے ساتھ غیراخلاقی رویہ رکھنے میں مصروف ہے۔
ہمارے معاشرے میں طالب علم ان کو کہا جاتا ہے۔
نہیں۔۔۔مجھے میرے استاد محترم بتاتے تھے کہ” طالب“ تو ایک فاعل ہے جس کا مطلب ”طلب کرنے والا“ہے اور ”علم“ سے مراد ایسے تمام خزانے جنہوں نے انسان کو اشرف المخلوقات کارتبہ عطا کیا۔
اس سے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ” طالب علم “ وہ ہے جو علم جیسے خزانوں کی طلب رکھنے والا ہو۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے اردگرد بہت سے طالب خوراک،طالب مال ،طالب نفس ،طالب عزت ، طالب فرمائش والے تو دیکھتے ہیں لیکن طالب علم آج کے جدید دور میں ہمیں شاذو نادر نظر آئیں گے۔
ہر نفس اپنی طلب کی چاہ میں اتنا مصروف ہے کہ تن من لٹانا پڑے تو گریز نہیں کرتا۔حتی کہ اپنی طلب کو پورا کرتے کرتے بہت سے جان بھی لوٹادیتے ہیں ۔یہ محض میرا تجزیہ نہیں بلکہ ہم سب ایسے لوگوں کو اردگرد پاتے ہیں۔
بہت مشکل سے ہی ہمیں علم کا طالب نظر آئے گا مڈل ،میٹرک ،انٹر ،ایف اے ،گریجوایشن اور ماسٹر کرنے والے بھی طالب علم نہیں وہ تو صرف کلاس میں آنکھیں بند کرکے بیٹھے ڈگری لینے اور مقام و مرتبہ کے حصول میں مگن ہیں۔
میرے تجزیے کے مطابق ساٹھ فیصد لوگ تو ایسے ہیں جو علم کی طلب کے حامی ہی نہیں محض اپنے عزیزوں کے لیے اداروں میں جاتے ہیں اور کچھ وقت بیٹھ کر بنا کچھ حاصل کیے جیسے جاتے ہیں ویسے ہی واپسی کی راہ پکڑ لیتے ہیں۔کیونکہ جس شخص کو پیاس ہی نہیں تو ڈھیڑوں مشروبات بھی سامنے سجی ہوں وہ نہیں پئے گا۔کسی بھی چیز کے حصول کے لیے طلب اشد ضروری ہے۔اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کو علم کی پیاس دینے والا ہی کوئی نہیں۔یہاں غور طلب بات ہے کہ نمبرز کی پیاس ہرگز علم کی پیاس نہیں۔
دوسرا گروہ ایسے افراد کا ہے جو علم کی خواہش اور پیاس رکھتے ہیں۔لیکن جس چیز کی ان کے وجود کو پیاس ہوتی ہے ان کو وہ نہیں مل پاتی ۔اپنی پیاس کو پس وپشت ڈال کر اپنے عزیزوں کی خواہش پہ چل رہے ہوتے ہیں اسکی مثال اس شخص جیسی ہے جو سخت گرمی میں ٹھنڈے کی طلب رکھے ہوئے ہیں اور اسے زبردستی گرم پانی پلایا جا رہا ہے وہ جتنا مرضی پانی پی لے اس کی پیاس تب تک نہیں بجھ سکے جب تک اس کو ٹھنڈا پانی نہ مل پائے۔
ہمارے معاشرے میں ۳۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جن کو پیاس ہوتی کسی اور شعبے کی ہے لیکن ان کے والدین ان پر اپنی مرضی کے شعبے لاد دیتے ہیں وہ مجبور ا رینگتے رینگتے ان شعبوں کو عبور کرتے جاتے ہیں۔قارئین اکرام علم کا تعلق آزادی کے ساتھ ہے قید علم نہیں سیکھاتا۔
۸ فیصد لوگوں کا گروہ ایسا ہے جو جس چیز کی طلب رکھتے ہیں اس کو پالیتے ہیں۔ایسے لوگ self dependant ہوتے ہیں ۔دوسروں پر ان کی ترجیحات کا انحصار نہیں ہوتا ۔یہ اپنےمقام کو پالیتے ہیں۔یہ لوگ اگر ناکام بھی ہوجائے تو مطمئن رہتے ہیں ان میں اٹھ کر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔یہ دل کی بات سنتے ہیں اگر کہیں جاکر پتہ چلے کہ ہماری پیا س علم غلط تھی تو وہ اپنی راہیں بدل لینے میں دقت محسوس نہیں کرتے۔
ماؤزے تنگ کہتا ہے۔
”ہزار میل کے سفر کی ابتدا ایک قدم سے ہوتی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ جو قدم اٹھایا ہے اسکی سمت کیا ہے۔“
اس لیے ایسے طالب علم اگر جان لیں کہ ان کا قدم راہ راست کے مخالف تھا تو وہ نیا قدم اٹھا کر نئے سفر کی ابتدا کرنا جانتے ہیں۔ان لوگوں کی راہوں میں مشکالات بہت سی آتی ہیں۔تنہا ہوجاتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے والا نہیں ہوتا۔

مناظر: 249
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

دسمبر 20, 2018

عِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیم


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ