• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
عِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیمعِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیمعِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیمعِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیم
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

عِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیم

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • عِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیم
اپنی ذات میں موجود خامیوں کو تسلیم کریں — تحریر: لائل سسمین :مترجم تجمل یوسف
نومبر 13, 2018
قوت مدافعت کیسے بڑھائیں؟ — تحریر:ڈاکٹر خان
دسمبر 22, 2018
Show all

عِلم برائے فروخت — تحریر: انجینئر طلحہ علیم

علم مومن کی معراج ہے. علم وہ موتی ہے جسے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے بھی نکالنا پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں. علم، اعمال و کردار کی بلندی کا سبب ہے. جو کسی بھی معاشرے میں مثبت نتائج کے حصول کیلئے ناگزیر ہیں. مگر! علم کیسا ہونا چاہئے؟
اِس کا جواب آنحضرت صل اللہ علیہ والہ و سلم کی سیرتِ مبارکہ سے بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے ہمیشہ “علمِ نافع” کی طلب کی اور اِسی بنیاد پر جماعت کی تشکیل اور سوسائٹی کا نظام بنایا. علم نفع بخش تبھی ہوسکتا ہے جب وہ سوسائٹی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو. جس سے لوگوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کا ایسا نظام قائم ہو جو بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے عوام الناس کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرے.
جو علم عام عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کرے وہ یقیناً نفع بخش نہیں ہو سکتا اور اِس کا حصول طبقاتی کشمکش کا ذریعہ بن جاتا ہے . علم  استحصال کا سبب کیسے بنتا ہے؟ 
آج جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کئے ہوئے ہے تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد دولت کی اساس پر معاشرے کے غریب عوام کی لوٹ کھسوٹ اور  استحصال پر مبنی ہے. اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ کے صنعتی انقلاب نے سرمایہ دارانہ اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسی سوسائٹی تشکیل دی جس میں دولت کو محنت کے مقابلے میں اوّل مقام دیا گیا جس کی اساس پر محنت کش طبقے کا استحصال ناگزیر تھا. سرمایہ داروں کی اِس مطلق العنانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں اِس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں نے کئی تحریکات منظم کیں، یونینز بنائیں، حتیٰ کہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے اپنی جانیں تک قربان کیں. آج اگر ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش طبقے کا طرزِ زندگی ترقی پذیر ممالک کے محنت کش طبقے سے بہتر ہے تو اُس کے پیچھے اُن کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مسلسل جدوجہد ہے. 
بہرحال سرمایہ داروں کو اُن کی ناک پر بیٹھی یہ مکھی ہرگز پسند نہ تھی. چنانچہ محنت کش طبقے کی سرمایہ دار مخالف تحریکوں سے نجات پانے کے لیے علم اور اہلِ علم کا استعمال شروع ہوا. گریجویٹس کی ایسی کھیپ تیار کی گئی جو غریب عوام کے خلاف سرمایہ داروں کی آلہء کاری کا کام کرتے رہیں. 1859 میں “میساچوسٹس بورڈ آف ایجوکیشن” کے سیکرٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ” سرمایہ دار اب ایسے تعلیم یافتہ طبقے کا خواہش مند ہے جو اُس کی ڈگڈگی پر ناچ کر اُن کے مفادات کا تحفظ کرے اور سرمایہ داروں کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو کچل ڈالے”. چنانچہ تعلیمی نصاب ایسا بنایا گیا جو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو باغی قرار دے کر سرمایہ داری کا حامی بنائے.
سرمایہ دارانہ اِنہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہمارے اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز پوری تندہی سے کوشاں ہیں جو انسانی شکل میں ایسے روبوٹس پروگرام کر رہے ہیں جنہیں تہذیب کے خول میں رکھ کر اپنی فکری و نظریاتی آزادی سے محروم رکھا جائے. 
ہم دیکھتے ہیں کہ گریجوئیٹس کی ایک پوری کھیپ ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے مفادات کا تحفظ کئے ہوئے ہے. اکاؤنٹنٹ ہو یا مینیجر حتیٰ کہ ایک ریسرچر بھی اپنا علم سرمایہ دار کے حق میں رام کرتا ہے. جس سے محنت کشوں کا استحصال ناگزیر ہے. 
معیشت کا پہیہ تب ہی چلتا ہے جب ایک کسان کھیت میں ہل چلاتا ہے،ایک مزدور فیکٹری میں کام کرتا ہے یہی لوگ ملک کی پیداواری قوتوں میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں. جو عالم یا دانشور محنت کش طبقے کی بدحالی پر پردہ ڈال کر اپنے علم کی بولی لگائے اور جھوٹ کو سچ کی سیج پر سجائے تو اُس کا یہ علم  فتنہ کے مترادف ہے.
علم (نافع) انسان کے فکر و عمل کو جلا بخشتا ہے اُس کا نظریہ بلند کرتا ہے جس کا عکس سوسائٹی کے مسائل کے حل کی صورت میں سامنے آتا ہے. یہی علم اگر ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے لئے استعمال ہونے لگے اور اِس کے حاملین کو سرمائے کے عوض خرید لیا جائے تو یہ علم مجموعی طور پر نفع بخش نہیں رہتا. 
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم  علم نافع اور علم غیر نافع کا فرق سمجھیں اور معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے عدل و انصاف کی بنیاد پر جدوجہد اور کوشش کریں کہ اسی سے علم کا حق ادا ہو سکتا ہے. 
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو 
مناظر: 276
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ