سب سے بہتر ہونے کی جدوجہد کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ درحقیقت یہ جیتنے والا رویہ ہے۔ تاہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو ہر حال میں خامیوں سے پاک سمجھنا بہت ہی بڑی غلطی ہے۔ اگر آپ کی یہ سوچ ہے تو پھر آپ مایوسی کو ہی دعوت دے رہے ہیں کیونکہ مسلسل کمال ناممکن ہے۔ کیا آپ اپنی ذات میں کاملیت سے کچھ کم پر راضی ہو سکتے ہیں؟جب آپ ہر چیز میں کمال چاہتے ہیں اور اس سے کم پر راضی نہیں ہوتے تو سوائے اپنے آپ کو اذیت دینے کے آپ اور کچھ نہیں کررہے ہوتےدرست رویہ یہ ہے کہ آپ کمال کی تلاش جاری رکھیں لیکن اس میں درجہ بندی ضرور کرلیں اس کے لیے ذیل میں چند تجاویز دی جاتی ہیں۔
٭ ایک کاغذ کے وسط میں لکیر کھینچ کر اسے دو حصوں میں تقسیم کریں۔ بائیں طرف ’’کاملیت کی راحتیں‘‘ لکھیں۔ دائیں طرف ’’کاملیت کے ایذائیں‘‘ کے تحت کاملیت کی خرابیوں کو بیان کریں۔ اب یہ دیکھیں کہ ان دونوں میں سے کس حصے کے نکات زیادہ معقول اور قابل عمل ہیں؟
٭ اس کاغذ کا دوبارہ جائزہ لیں۔ جو نکات آپ نے راحتوں والے حصے میں درج کیے ہیں ان کو یہ یقینی بنانے کے لئے ازسرنو جانچیں کہ آیا وہ واقعی معقول اور قابل عمل ہیں اور کہیں یہ خطرات مول لینے سے بچنے ،کنٹرول برقرار رکھنے اور آپ کی اَنا کے تحفظ کا ذریعہ تو نہیں۔
٭ جو دوسرے کمال پرست ہیں ان سے دریافت کریں کہ ان کے اس رویے سے انہیں کیا خوشی ہوتی ہے یا کیا ایذا پہنچتی ہے۔
٭ جو لوگ آپ کے قریب ہیں ان سے دریافت کریں کہ آپ کے کمال پرستی کے رویے کے ان پر، آپ دونوں کے تعلقات اور خود آپ کی اپنی ذات پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
٭ اپنے زندگی کے تین پہلوؤں کی نشاندہی کریں جو آپ کو بہت پسند ہیں مگر چونکہ آپ کامیاب شخص بننے کی کوشش میں مصروف تھے لہٰذا انہیں نظرانداز کرتے چلے آ رہے تھے۔ ان پہلوؤں کو اپنی زندگی میں واپس لانے کا عزم کریں۔
٭ اپنی کامیابیوں کا اندازہ لگائیں۔ اس پر افسوس کرنے کے بجائے کہ آپ کمال حاصل کرنے سے کتنے درجے پیچھے ہیں اس بات پر خوشی کا اظہار کریں کہ آپ نے کمال کی جانب کتنی پیش قدمی کی ہے۔
٭ موجودہ وقت یعنی آج پر توجہ دیں۔ ماضی کو اور گزرے کل میں آپ نے کیا کچھ کامیابیاں حاصل کر لی ہوتیں کے بارے میں نہ سوچیں۔
٭ کمال کو ایک سفرکے طور پر لیں۔ شاہد آپ اپنی منزل تک کبھی بھی نہ پہنچ سکیں، مگر اس سفر کو آپ بہت ہی خوشگوار ضرور بنا سکتے ہیں۔