• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
دغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمددغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمددغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمددغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

دغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • دغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمد
اسلام اور شادی سے پہلے انڈرسٹینڈنگ — تحریر: مدثر گل
دسمبر 5, 2017
تبدیلی — تحریر: وقاص افضل
دسمبر 5, 2017
Show all

دغا باز انکل سام اور دہشت گردی — تحریر: سعید احمد

شدت پسندی جس کا موجودہ نام دہشت گردی ہے ، کسی ایک مُلک ، مذہب ، سیاسی فلسفے یا نظام سے منسوب نہیں ہے ۔ یہ انسانی معاشرے کا ، جسے اب عالمی برادری کہا جاتا ہے ، ایک مشترکہ اور موروثی مسئلہ ہے ۔
جب ہم شدّت پسندی اور دہشت گردی کے اسباب کی چھان بین کرتے ہیں تو دومختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں ۔ ایک گروہ کا موقف ہے کہ تشدد کا میلان انسان میں فطرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تشدد ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کا ثمر ہے ۔
ان دونوں نقطہ ہائے نظر سے قطع نظر ، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تشدد ایک حقیقت ہے ۔ ہم پوری طرح جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ہم تشدد پر مائل رہتے ہیں اوریہ کوئی مفروضہ نہیں ہے ۔ اس تشدد کا ایک عمومی رویہ ہے جس کا اظہار ہماری روز مرہ زندگی میں ہوتا ہے ۔ ایک شخص غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کرتا ہے اور اسے ایک مذہبی فریضہ قرار دیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی کے مذہبی فرقے یا اعتقادات پر اعتراض کرتا ہے تو غصہ دستی بم کی طرح پھٹ پڑتا ہے اور لوگ مارنے مرنے پر تُل جاتے ہیں اور اسے مذہب کی حفاظت قرار دیتے ہیں ۔اگر کوئی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے اور اُس کا پسندیدہ شخص کسی دوسرے فرقے ، عقیدے ، مذہب ، یا نسل سے تعلق رکھتا ہے تو ہمیں حسد کی آگ جلا ڈالتی ہے ۔ اور اس قسم کے حسد کو تقدس کے مرتبے پر فائز کیا جاتا ہے ، کیونکہ ہم عورتوں کو اپنی املاک سمجھتے ہیں اور اپنی شدت پسندی کو اس تقدس سے جواز فراہم کرتے ہیں ۔

اس طرز تفہیم سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم ایک قسم کی شدت پسندی کو تو جائز سمجھتے ہیں جب کہ دوسری قسم کی شدت پسندی کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تشدد اور شدت پسندی کو جائز شدت پسندی اور ناجائز شدت پسندی میں تقسیم کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہمارے میلانات ، پسند ، نا پسند اور مروجہ حالات کے مطابق ہو تا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا جائز شدت پسندی نام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے یا شدت پسندی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے ؟ ایک ہی مکروہ رویہ۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ جب تک تشدد مجھے براہِ راست اپنا نشانہ نہیں بناتا تب تک میں اُسے در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا ۔ اور جب مجھے شدت پسندی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو میں اُسے بد قسمتی اور آسمانی ، ناگہانی آفت اور نحوست قرار دیتا ہوں ۔
شدت پسندی کی یہ صورت حال ہم میں سے ہر فرد کی انفرادی سطح سے لے کر اقوامِ عالم کی بین الاقوامی سماجی و سیاسی سطح تک یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے ۔اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دہشت و فساد کی چھان بین کریں تو تمام  فسادات کی ماں انکل سام(امریکا) ہے
دوسری عالمی جنگ میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے لے کر ویت نام کی جنگ تک ، اور موجودہ عہد میں عراق سے لے کر افغانستان کی جنگ سب کی سب اس دہشت گردی کی واضح مثالیں ہیں ، جن میں گوانتاناموبے، ابو غریب اور پاکستان اور افغانستان میں قائم خفیہ اذیت خانے  شامل ہیں اور سی آئی اے کے ذریعے دہشت گردی کو ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی گئی ہے ۔
اس دہشت گردی کی تازہ ترین مثالیں ڈرون حملوں میں مشکوک شدت پسندوں اور جنگ بازوں کے ساتھ شہریوں، بچوں اور عورتوں کی ہلاکت کے شرمناک واقعات سر فہرست ہیں۔
پوری عالمی برادری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ القاعدہ، داعش اور طالبان(اس کے مختلف گروہ) برانڈ لشکر ، جنگ باز مذہبی فرقے اور مکاتب فکر سب کے سب امریکی سی آئی اے کی مددگار تنظیموں کے طور پر وجود میں لائے گئے تھے ۔ان سب جنگ بازوں کو ایک مخصوص انداز میں نہ صرف  مقدس دہشت گردی سکھائی گئ ہے بلکہ  اسلام جیسے پر امن مذہب کوبھی بد نام کرنے کی کوشش کی۔
جدید تہذیب اور انسانی قدروں کا علمبردار امریکہ عالمی سیاسی اسٹیج کا سب سے عیار اداکار ہے ، جو اپنی ضرورت کے مطابق دنیا بھر میں دہشت گردی کی فصلیں کاشت کرتا اور تباہیاں اور ویرانیاں کاٹتا ہے ۔ اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہیگا ۔
اس بین الاقوامی چبوترے سے اُتر کر نیچے جھانکیں تو پاکستان دہشت گردی کی روایت کی حامل قوم کا گہوارہ نظر آتا ہے ۔ پاکستان میں پے در پے چار مارشل لاؤں کا ظہور امریکہ کی پشت پناہی سے ہماری قومی بساط پر دہشت گردی کی بے نظیر مگر مکروہ ترین مثال ہے ۔

مناظر: 244
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ