• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
محبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانیمحبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانیمحبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانیمحبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

محبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • محبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانی
قبض کے بارے جدید نقطہ نظر اور میرے مشاہدات — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
مارچ 25, 2018
محنت کشوں کے حقوق ؛مولانا عبید اللہ سندھی کا نقطہ نظر — تحریر: محمد عباس شاد
مئی 1, 2018
Show all

محبت ۔۔۔ تحریر: سیف آریانی

 محبت چیز کیا ہے ۔۔۔۔ہر کوئی اس میں جان دینے کی بات کیوں کرتا ہے حالانکہ لفظ محبت تو بڑا بھرپور بڑے ہی  مکمل احساس سے مزین لفظ ہے جس میں مٹ جانے یا کھوجانے کا کوئی اندیشہ  ہی نہیں ۔۔۔۔ یہ کون لوگ ہیں جن کامحبتوں پر اجارہ ہے اتنا کہ  وجد میں آکر جان لے لیتے ہیں اور نیک نام ہو جاتے ہیں , وہ غازی کہلاتے ہیں اورمیں شہید بھی نہیں کہ ہماری شہادت کا سورج رات کی تاریکی میں کھوگیا ہے اور ہم پر کسی نے کسی کو روتے پایا تو وہ بھی فقیہہ شہر کی نظر میں شک کے دائرےے میں رہے گا کہ وہی تو بتائیں گے کہ کب ماتم کرنا ہے اور کب میلاد منانا ہے  ۔۔۔۔۔آیا یہ جزبہ اتنا تلخ ہے اتنا شدید ہے کہ سانس لینے پہ پابندی ہے یاکہ یہ اس پہاڑی چرواہے کا گیت ہے جس کا ریوڑ سیر ہے اور وہ چین کی بانسری بجا سکتا ہے ۔۔۔۔یہ کسی اور رنگ میں کھو جانے کا نام ہے یا اپنے رنگ میں رنگ کر پالینے اور لامحدود ہو جانے کا۔۔۔۔۔یہ محبت ذاتی چیز ہے یا کائنات کا فخر جس نے آسمان کو گرنے سے روک رکھا ہے ۔۔۔۔یہ تلخی ہے یا شیرینی یا کہ ہم وہ بیمار ہیں جو ذائقہ تک بتانے سے قاصر ہیں ۔۔۔۔یہ کوئی گٹھن کو ئی پابندی ہے یا ایسا اختیار ہے جس کے سامنے سارا مادہ اور ساری توانائی سجدہ ریز ہیں ۔۔۔۔۔یہ ایک الگ بحث کہ بااختیار کی محبت اور بےاختیار کی مجبوری ایک چیز ہرگز نہیں کہ جو آپ کے پاس ہے وہ مجھے سوچنا بھی نہیں کہ میں نے پیدا ہوتے ہی اپنے ارد  گردایک ایسا دائرہ پایا جس کے بارے میں مجھے رٹوایا گیا کہ یہاں سے نکلے تو کالا دیو لے جاۓ گا تو میں مرتے دم تک صبر و شکر کے اس مرتبے پر فائز رہا جس پر نہ کسی اور کو رشک آیا نہ اطمینان کی دولت نصیب ہوئی حالانکہ صبر و شکر کا نتیجہ تو اطمینان ہی ہے ۔۔۔۔اچھا تو محبت سکھائی جاۓ گی یا یہ انسانی خمیر کا جزوِ لازم ہے جو اس کے ڈی این اے میں ہے جس میں کہ اجداد کا بویا بھی کاٹنا ہے کہ ہم عمر کا ایک حصہ ان مسائل کو سمجھنے میں گزار دیتے ہیں جن کو ہماری پیدائش سےپہلے حل ہوجانا چاہیۓ تھا نہ جانے ہمارے بزرگوں نے کس کی محبت میں جانیں دی ہیں کہ وہ ہم تو ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔تو کیا محبت کسی تھپکی کسی دلاسے یا کسی لوری کا نام ہے جو نیند کی وادیوں میں کھو جاۓ یا یہ بیدار کرنے والا سورج ہے جس کے دم سے سارا جگ روشن ہو , یہ تحریک ہے یا جمود ؟ کیونکہ میں نےایسے بھی لوگ دیکھے ہیں کہ خود کو یہاں سے گزرنے والےکسی نہ کسی فاتح قافلے کا خاک پا کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاک پا تو حرکت کا نتیجہ ہے تو گویا یہ تحریک ہے لیکن اگر یہ تحریک ہے تو اربوں لوگ اس راستےپہ کیوں آگۓ ہیں جہاں جہاں محبتوں کے کاررواں لٹ گۓ تھے ۔۔۔۔۔۔ اچھا تو میں محبت کے بارے میں اتنےسارے ابہام کیوں پیدا کرہا ہوں جب کہ محبت کو تو کوئی انتہائی واضح انتہائی مفصل اور شفاف شے ہونا چاہیۓ تھا ۔۔۔میں اسے سمجھنا کیوں چاہتا ہوں اور جتنا سمجھا ہوں اسے سمجھانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے تو کیا ہمارے حواس کے دفتر سے کسی نے وہ فائل چرالی ہے جس میں محبت کےاسرار و رموز درج تھے کہ یہاں لوگ محبت میں گالیاں بھی دیتے ہیں اور محبت کو گالی ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔آپ کو لگ رہا ہوگا کہ میں آپ کو محبت کے بارے میں کو ئی بہت ہی نئی اور پتے کی بات بتائوں گا لیکن جب محبت ہی اول و آخر ہے تو اس میں نئی بات بتانا مشکل ہے لیکن اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ ہم محبت کے بارے میں جانناکیوں چاہتے ہیں جبکہ اسے تو میسر ہونا تھا اور وہ بھی حسب ضرورت لیکن یہ محبت ہمیں کسی فلم میں بھی حسب ِ ذائقہ ہی ملتی ہے کہ یہاں وحشت اور دہشت کی طلب زیادہ ہے ۔۔۔ ہم جو نفرت آۓ روز سہتے ہیں اس کے بدلے میں صرف اتنا  چاہتے ہیں کہ کسی فلم کا ہیرو ہمارے روزمرہ حالات سے میل کھاتے کسی ولن کی پٹائی کردے تو ایک ہفتہ اس خوش فہمی میں گزرتا ہے کہ وہ ہیرو ہم تھے جب تک کوئی اور ولن ہوش کی دنیا میں واپس لے کر نہ آۓ ۔۔۔۔ہماری محبتیں کتنی ڈر گئی ہیں ,کتنی سہمی ہوئی کتنی نمناک ہیں ایک خود ترسی کی کیفیت سے دوچارہیں حالانکہ انہیں  تو فخر ہونا تھا انہیں تو ناز ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔ہم محبتوں سے اتنے ناآشناہیں کہ کوئی گرم جوشی سےملے تو پہلے یقین نہیں آتا بعد میں  اس پر شک کرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم محبتوں کے بیچ گزرے چند لمحات کو ایسی حسرت سے یاد کرتے ہیں جیسے کوئی مردہ کسی زندہ پر نوحہ کناں ہو کہ جیسے یہ وہ شہزادی ہو جسے جن لے گیا ہے اور اسے چھڑانا تیرے میرے بس کا روگ نہیں ,جسے قیدسے چھڑانے کوئی نیلی آنکھوں اور گورے گالوں والا شہزادہ آۓ گا  ,دیو کو مار کر شہزادی کو چھڑا لا ۓ گاپھر دونوں کی شادی ہو جاۓ گی تو ان کے بچے بھی شہزادے ہوں گے جن کی دادی کے اغوا کے قصے ہم اپنے ان بچوں کو سنائیں گے جن کی محبتیں کسی دیو کے قبضے میں ہیں لیکن وہ میرے تیرے بچے ہیں اور دیو کا سامنا کوئی شہزادہ ہی کر سکتا ہے  تو ہماری اس سوچ نے اس دیو کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ اب ہم  اس دیو کے ڈر سے محبت کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔۔۔۔۔اچھا تو یہ محبت حق ہے یا فرض ؟ کہ ایک ذرہ سی بے رخی دل پر ہاتھ رکھوا دیتی ہے ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ مسلہ یہ ہے کہ کبھی ہم اسے صرف حق سمجھتے ہیں فرض نہیں مانتے اور کبھی صرف فرض تلے ہانپتے ہو ۓ ڈھیر ہوجاتے ہیں جبکہ محبت کا مزاج کلی ہے یہاں عاشق ہی معشوق ہے ۔۔۔۔۔ انسان کی انسان سے محبت ہی خدائی  داد ہے ۔۔۔نفرتوں کے زور پر محبتیں کبھی نہیں پھیلتیں اس کے تو لب بھی شیریں ہیں اور ذائقہ بھی شہد ۔۔۔۔۔۔۔عزیزم محبت کوئی بھولی بسری داستان نہیں ہے نہ ہی وہ دیو جس کے قبضے میں ہماری محبت ہے اتنا طاقت ور ہے کہ محبتوں پہ بند باندھ سکے لیکن اس کا پھیلایا ہوا وسوسہ اس قدر جان لیوا ہے کہ جان لے کر بھی دور نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔تو یہ توسراسر ہلاکت ہے تو ہم شہید ہونے کی آرزو لے کر کہاں جائیں ۔۔۔۔۔۔محبت یقینا کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ سلسلہ ہے اور نفرت کا بھی شجرہٕ نسب ہے کہانی صرف اتنی سی ہے کہ ہمارا حسب ہی ہمارا نسب ہے ۔۔۔شہیدوں میں نام لکھوانے کے لۓ یقینا ایک عظیم شہادت کی ضرورت ہے اور ایک بت شکن انکار کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جسم ہماری روح کا مقبرہ نہیں تخت ہے جہاں سے محبت کے حق میں فیصلے صادر ہونے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقینا محبت ہی تہذیب ہے اور یہی جینے کے لۓ ہمیں ہر لمحہ سرگرم رکھتی ہے ۔۔

مناظر: 234
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ