محبت چیز کیا ہے ۔۔۔۔ہر کوئی اس میں جان دینے کی بات کیوں کرتا ہے حالانکہ لفظ محبت تو بڑا بھرپور بڑے ہی مکمل احساس سے مزین لفظ ہے جس میں مٹ جانے یا کھوجانے کا کوئی اندیشہ ہی نہیں ۔۔۔۔ یہ کون لوگ ہیں جن کامحبتوں پر اجارہ ہے اتنا کہ وجد میں آکر جان لے لیتے ہیں اور نیک نام ہو جاتے ہیں , وہ غازی کہلاتے ہیں اورمیں شہید بھی نہیں کہ ہماری شہادت کا سورج رات کی تاریکی میں کھوگیا ہے اور ہم پر کسی نے کسی کو روتے پایا تو وہ بھی فقیہہ شہر کی نظر میں شک کے دائرےے میں رہے گا کہ وہی تو بتائیں گے کہ کب ماتم کرنا ہے اور کب میلاد منانا ہے ۔۔۔۔۔آیا یہ جزبہ اتنا تلخ ہے اتنا شدید ہے کہ سانس لینے پہ پابندی ہے یاکہ یہ اس پہاڑی چرواہے کا گیت ہے جس کا ریوڑ سیر ہے اور وہ چین کی بانسری بجا سکتا ہے ۔۔۔۔یہ کسی اور رنگ میں کھو جانے کا نام ہے یا اپنے رنگ میں رنگ کر پالینے اور لامحدود ہو جانے کا۔۔۔۔۔یہ محبت ذاتی چیز ہے یا کائنات کا فخر جس نے آسمان کو گرنے سے روک رکھا ہے ۔۔۔۔یہ تلخی ہے یا شیرینی یا کہ ہم وہ بیمار ہیں جو ذائقہ تک بتانے سے قاصر ہیں ۔۔۔۔یہ کوئی گٹھن کو ئی پابندی ہے یا ایسا اختیار ہے جس کے سامنے سارا مادہ اور ساری توانائی سجدہ ریز ہیں ۔۔۔۔۔یہ ایک الگ بحث کہ بااختیار کی محبت اور بےاختیار کی مجبوری ایک چیز ہرگز نہیں کہ جو آپ کے پاس ہے وہ مجھے سوچنا بھی نہیں کہ میں نے پیدا ہوتے ہی اپنے ارد گردایک ایسا دائرہ پایا جس کے بارے میں مجھے رٹوایا گیا کہ یہاں سے نکلے تو کالا دیو لے جاۓ گا تو میں مرتے دم تک صبر و شکر کے اس مرتبے پر فائز رہا جس پر نہ کسی اور کو رشک آیا نہ اطمینان کی دولت نصیب ہوئی حالانکہ صبر و شکر کا نتیجہ تو اطمینان ہی ہے ۔۔۔۔اچھا تو محبت سکھائی جاۓ گی یا یہ انسانی خمیر کا جزوِ لازم ہے جو اس کے ڈی این اے میں ہے جس میں کہ اجداد کا بویا بھی کاٹنا ہے کہ ہم عمر کا ایک حصہ ان مسائل کو سمجھنے میں گزار دیتے ہیں جن کو ہماری پیدائش سےپہلے حل ہوجانا چاہیۓ تھا نہ جانے ہمارے بزرگوں نے کس کی محبت میں جانیں دی ہیں کہ وہ ہم تو ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔تو کیا محبت کسی تھپکی کسی دلاسے یا کسی لوری کا نام ہے جو نیند کی وادیوں میں کھو جاۓ یا یہ بیدار کرنے والا سورج ہے جس کے دم سے سارا جگ روشن ہو , یہ تحریک ہے یا جمود ؟ کیونکہ میں نےایسے بھی لوگ دیکھے ہیں کہ خود کو یہاں سے گزرنے والےکسی نہ کسی فاتح قافلے کا خاک پا کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاک پا تو حرکت کا نتیجہ ہے تو گویا یہ تحریک ہے لیکن اگر یہ تحریک ہے تو اربوں لوگ اس راستےپہ کیوں آگۓ ہیں جہاں جہاں محبتوں کے کاررواں لٹ گۓ تھے ۔۔۔۔۔۔ اچھا تو میں محبت کے بارے میں اتنےسارے ابہام کیوں پیدا کرہا ہوں جب کہ محبت کو تو کوئی انتہائی واضح انتہائی مفصل اور شفاف شے ہونا چاہیۓ تھا ۔۔۔میں اسے سمجھنا کیوں چاہتا ہوں اور جتنا سمجھا ہوں اسے سمجھانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے تو کیا ہمارے حواس کے دفتر سے کسی نے وہ فائل چرالی ہے جس میں محبت کےاسرار و رموز درج تھے کہ یہاں لوگ محبت میں گالیاں بھی دیتے ہیں اور محبت کو گالی ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔آپ کو لگ رہا ہوگا کہ میں آپ کو محبت کے بارے میں کو ئی بہت ہی نئی اور پتے کی بات بتائوں گا لیکن جب محبت ہی اول و آخر ہے تو اس میں نئی بات بتانا مشکل ہے لیکن اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ ہم محبت کے بارے میں جانناکیوں چاہتے ہیں جبکہ اسے تو میسر ہونا تھا اور وہ بھی حسب ضرورت لیکن یہ محبت ہمیں کسی فلم میں بھی حسب ِ ذائقہ ہی ملتی ہے کہ یہاں وحشت اور دہشت کی طلب زیادہ ہے ۔۔۔ ہم جو نفرت آۓ روز سہتے ہیں اس کے بدلے میں صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کسی فلم کا ہیرو ہمارے روزمرہ حالات سے میل کھاتے کسی ولن کی پٹائی کردے تو ایک ہفتہ اس خوش فہمی میں گزرتا ہے کہ وہ ہیرو ہم تھے جب تک کوئی اور ولن ہوش کی دنیا میں واپس لے کر نہ آۓ ۔۔۔۔ہماری محبتیں کتنی ڈر گئی ہیں ,کتنی سہمی ہوئی کتنی نمناک ہیں ایک خود ترسی کی کیفیت سے دوچارہیں حالانکہ انہیں تو فخر ہونا تھا انہیں تو ناز ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔ہم محبتوں سے اتنے ناآشناہیں کہ کوئی گرم جوشی سےملے تو پہلے یقین نہیں آتا بعد میں اس پر شک کرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم محبتوں کے بیچ گزرے چند لمحات کو ایسی حسرت سے یاد کرتے ہیں جیسے کوئی مردہ کسی زندہ پر نوحہ کناں ہو کہ جیسے یہ وہ شہزادی ہو جسے جن لے گیا ہے اور اسے چھڑانا تیرے میرے بس کا روگ نہیں ,جسے قیدسے چھڑانے کوئی نیلی آنکھوں اور گورے گالوں والا شہزادہ آۓ گا ,دیو کو مار کر شہزادی کو چھڑا لا ۓ گاپھر دونوں کی شادی ہو جاۓ گی تو ان کے بچے بھی شہزادے ہوں گے جن کی دادی کے اغوا کے قصے ہم اپنے ان بچوں کو سنائیں گے جن کی محبتیں کسی دیو کے قبضے میں ہیں لیکن وہ میرے تیرے بچے ہیں اور دیو کا سامنا کوئی شہزادہ ہی کر سکتا ہے تو ہماری اس سوچ نے اس دیو کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ اب ہم اس دیو کے ڈر سے محبت کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔۔۔۔۔اچھا تو یہ محبت حق ہے یا فرض ؟ کہ ایک ذرہ سی بے رخی دل پر ہاتھ رکھوا دیتی ہے ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ مسلہ یہ ہے کہ کبھی ہم اسے صرف حق سمجھتے ہیں فرض نہیں مانتے اور کبھی صرف فرض تلے ہانپتے ہو ۓ ڈھیر ہوجاتے ہیں جبکہ محبت کا مزاج کلی ہے یہاں عاشق ہی معشوق ہے ۔۔۔۔۔ انسان کی انسان سے محبت ہی خدائی داد ہے ۔۔۔نفرتوں کے زور پر محبتیں کبھی نہیں پھیلتیں اس کے تو لب بھی شیریں ہیں اور ذائقہ بھی شہد ۔۔۔۔۔۔۔عزیزم محبت کوئی بھولی بسری داستان نہیں ہے نہ ہی وہ دیو جس کے قبضے میں ہماری محبت ہے اتنا طاقت ور ہے کہ محبتوں پہ بند باندھ سکے لیکن اس کا پھیلایا ہوا وسوسہ اس قدر جان لیوا ہے کہ جان لے کر بھی دور نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔تو یہ توسراسر ہلاکت ہے تو ہم شہید ہونے کی آرزو لے کر کہاں جائیں ۔۔۔۔۔۔محبت یقینا کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ سلسلہ ہے اور نفرت کا بھی شجرہٕ نسب ہے کہانی صرف اتنی سی ہے کہ ہمارا حسب ہی ہمارا نسب ہے ۔۔۔شہیدوں میں نام لکھوانے کے لۓ یقینا ایک عظیم شہادت کی ضرورت ہے اور ایک بت شکن انکار کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جسم ہماری روح کا مقبرہ نہیں تخت ہے جہاں سے محبت کے حق میں فیصلے صادر ہونے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقینا محبت ہی تہذیب ہے اور یہی جینے کے لۓ ہمیں ہر لمحہ سرگرم رکھتی ہے ۔۔