ہندوستان کی ایسی فضا، جس میں مختلف قسم کے تعصبات کے زیراثر خطے کی تقسیم اور یہاں کی انسانی آبادیوں میں نفرت کے بیج بوئے جارہے تھے اور مختلف گروہ اپنے اپنے طبقاتی مفادات کے زیراثر مورچے بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے میں ہندوستان میں اصل مسئلہ، جو کہ غلامی کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی کی شکل میں ایک بہت بڑا چیلنج بن کر قوم کے سامنے آکھڑا ہوا تھا، اس پر ولی اللّٰہی جماعت کے ترجمان امام عبیداللہ سندھیؒ کا مزدوروں، محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق کی دوٹوک بات کرنا‘ ولی اللّٰہی جماعت ہی کا اعزاز ہے۔ ورنہ معاصر سیاسی جماعتیں فرقہ وارانہ حقوق کی جنگ میں خطے کی تقسیم کے لیے سرگرم تھیں۔ تاکہ وہ ایک مخصوص قطعہ زمین میں حق حکمرانی حاصل کرکے اپنے مفادات کو آئینی تحفظ فراہم کرسکیں۔
حال آں کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات سے برعظیم کے اس خطے کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور آزادی کے بعد اس قوم کے لیے آزاد سیاسی، اقتصادی اور معاشی نظام کا خاکہ کیا ہو۔
ایسے میں امام عبیداللہ سندھیؒ مزدوروں کے محروم طبقات کے متعلق فرماتے ہیں: ’’انسانیت کی بڑی تعداد کو اب تک ایک گروہ نے دبائے رکھا۔ یہ مختصر گروہ کُل قوت اور اقبال کا مالک تھا۔ انسانیت کی یہ بڑی تعداد کسان اور مزدور کماتے اور اوپر کا یہ مختصر گروہ ان کی کمائی کو اپناحق سمجھتا رہا۔ اور جو کماتے تھے، ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا اور جو اُن کی کمائی پر رہتے تھے‘ وہ کمانے کو ذلت کا نشان سمجھتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کماؤ طبقے پس ماندہ اور ذلیل ہوتے گئے اور کھاؤ طبقے دولت اور اقتدار کے نشے میں انسانی اَخلاق سے گر گئے اور مجموعی طور پر ساری انسانیت کو گُھن لگ گیا۔ غضب یہ ہوا کہ اس دور میں علم، لٹریچر اور مذہب کے جو معیار بنے‘ ان کے پیش نظر بھی بس اسی مختصر گروہ کی خوشنودی رہی۔ ان کے رویے سے اگر سکون و اطمینان ملتا تو زیادہ تر ان لوگوں کو ‘ اور ذہن کوجلا ہوتی تو ان کی۔ تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلتیں‘ تو صرف ان کے گھروں یا محلوں تک، جو مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسانوں اور مزدوروں کو اتنی مشقت کرنی پڑتی کہ انھیں کسی بات کا بھی ہوش نہ رہتا اور کبھی کبھار ان کے شعور کی آنکھیں کھل جاتیں‘ تو انھیں سلانے کے لیے خواب آور دواؤں کی کمی نہ تھی۔
‘‘ امام سندھیؒ کا خیال تھا کہ: ’’جب تک ملک کی عام آبادی کی معاشی حالت ترقی نہ کرے، اُس وقت تک سیاسی ترقی ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتے تھے کہ: ’’ہم محنت کش طبقےکے لیے روٹی، کپڑے، تعلیم اور صحت کی اصلاح کو نظرانداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اس میں ہم مسلم و غیرمسلم کا امتیاز بھی نہیں رکھتے۔
‘‘ ان کا کہنا تھا کہ: ’’ہم مروّجہ نظامِ سرمایہ داری کو ردّ کرتے ہیں اور اپنے ملک کے موجودہ نظامِ سرمایہ داری کو توڑ کر ایک ایسے نظام کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں، جو محنت کش طبقوں کی فلاح کا ضامن ہو اور اسی محنت کش طبقے کے زیراقتدار رہے۔‘‘ وہ یہاں کی سیاسی پارٹیوں کو اس بات کی تلقین کرتے رہے کہ ہمارے ملک کی پارٹیاں اس کو اپنا نصب العین بنائیں کہ : ’’ہمارے کاشت کار اور مزدوروں کا معیارِ زندگی یورپ کے باشندوں سے کم نہ ہو۔‘‘
اسی سوچ اور نظریے کے پیش نظر امام عبیداللہ سندھیؒ 1924ء میں ’’آزاد برصغیر کے دستوری خاکے‘‘ کا ’’ایک تاریخی منشور‘‘ پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
* ملک کے بڑے طبقوں یعنی کاشت کار، مزدور اور دماغی محنت کش کو چھوٹی صنفوں، یعنی زمین دار اور سرمایہ دار کی طرح جمہوری گورنمنٹ کے ہر ایک شعبے میں نمائندگی کا حق ان کی تعداد کے مطابق دے کر اسے محفوظ کر دیا جائے۔
* اقتصادی نظام مستقل طور پر ایسا قائم کیا جائے، جو محنت کش طبقے، یعنی کاشت کار، مزدور اور دماغی محنت کش کو قرض و افلاس سے بچانے کا ضامن ہو۔ اور ملک کو ایسے خارجی قرضے کا محتاج نہ بنائے، جس سے سیاسی آزادی سلب ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے۔
کسانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے پیشہ وروں کی ’’کسان سبھائیں‘‘ فیکٹری اور کارخانے میں کام کرنے والے مزدوروں کی ’’ انجمن ہائے مزدوراں‘‘ (قائم ہوں۔) *
*دفتروں اور تعلیم گاہوں میں کام کرنے والوں کی ’’ محافل محنت کشانِ دماغی ‘‘ بنانے کا ناقابل تنسیخ حق‘ محنت کش طبقے کو حاصل ہو گا۔ جن مجالس کے توسط سے وہ لوگ اپنے مطالبات پیش کریں گے اور انتخابات میں حصہ لیں گے۔ محنت کش طبقے کو حکومت سے ناراض ہونے کی صورت میں بھی ان مجالس کے فیصلے پر اسٹرائیک کا حق حاصل ہو گا۔
* کسانوں، مزدوروں اور دماغی محنت کشوں کو اپنی سبھاؤں، انجمنوں اور محفلوں کے توسط سے اپنے تناسب آبادی کے مطابق نمائندے بھیجنے کا حق حاصل ہو گا۔
* سوسائٹی کی دوسری جماعتوں یعنی زمین دار، ساہوکار، سرمایہ دار اور تاجر کو ان کی تعدادِ نفوس کے مطابق (پارلیمنٹ میں) حق نمائندگی ملے گا۔ کسی صورت میں بھی ان کی اہمیت کی بنا پر ان کو تعدادِ نفوس سے زیادہ حق نمائندگی نہیں دیا جائے گا۔
* انفرادی ملکیت (منقولہ وغیر منقولہ) محدود کر دی جائے گی۔ معین حد سے زیادہ جائیداد قومی ملکیت قرار دی جائے گی۔
* ملک کی اراضی قومی ملکیت قرار دی جائے گی۔ اور نظام زمین داری منسوخ کر دیا جائے گا۔ کسان اور گورنمنٹ کے سوا کسی کو اراضی سے تعلق نہ ہو گا۔
* ہر کاشت کار خاندان کو اس قدر اراضی ضرور دی جائے گی‘ جس قدر وہ خود کاشت کرسکے۔ اس زمین پر اس خاندان کا دوامی حق کاشت ایسے قانون کے ماتحت محفوظ کر دیا جائے گا جو کسان سبھاؤں کی کونسل کے مشورے سے بنایا جائے گا۔
* کسان سبھاؤں کو سرکاری امداد بہ صورت قرض بلا سود دی جائے گی۔ اور ان کے لیے زراعتی مشینری نرم شرائطِ ادائیگی پر مہیا کی جائے گی۔
* کسان آبادی کے لیے حکومت مفت طبی امداد اور صاف ستھرے گھروں کا انتظام کرے گی۔
* سودی لین دین قطعاً بند کر دیا جائے گا۔ محنت کش طبقے کے پُرانے قرض بے باق کردیے جائیں گے۔ حاجت مندوں کو امداد یا قرض بلا سود دینے کا مستقل انتظام ہو گا۔* مزدوروں کے کام کا ایک دن (۶) گھنٹے سمجھا جائے گا۔ ہندوستانی مزدور کو سرد ملکوں کے مزدوروں کی طرح ۶ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
آزادی کے بعد ہمارے ملک میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے دوچار مزدوروں اور محنت کشوں کے طبقے ہیں اور آئے دن اُن کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں اُن کے حقوق کی جنگ میں امام عبیداللہ سندھیؒ کے یہ افکار سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔