یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ہفتے ایک طرف مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے مختلف سطحوں پر سرگرمیاں جاری ر ہیں تو دوسری طرف تمام جماعتوں کے نا م نہاد عوامی نمائندے ایک بار پھر عوام کی قسمت بدلنے کے لیے انتخابی اکھاڑے میں اترچکے ہیں۔ وہ اپنے اپنے منشور کی صورت میں سہانے خواب سجا کر خریداروں کی تلاش میں ہیں، جب کہ مزدوروں سمیت عوام نہ صرف بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزر رہے ہیں، بلکہ جان لیوا مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات بھی بھگت رہے ہیں۔ جب کہ توانائی کے بحران سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہورہے ہیں۔ اس طرح مزدوروں کا نوے فیصدطبقہ ناکارہ ہوکر گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ بے روزگاری کا سیلاب چار سو پھیل چکا ہے۔ لوگوں کو بجلی، گیس اور پانی بھی دستیاب نہیں اور انھیں مہنگائی اور بے روزگاری کا بھی سامنا ہے، جب کہ ملک میں موجود بداَمنی کی فضا کے باعث جان و مال کا تحفظ شہریوں کے لیے پہلے ہی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ چناں چہ نام نہاد عوامی نمائندے نہ تو کبھی شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہیں اور نہ ہی مزدوروں کے لیے کوئی ایسی ’’لیبر پالیسی‘‘ بناتے ہیں، جس سے مزدور کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔
یہ صورتِ حال نئی نہیں، بلکہ جب پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کے معاشی وسائل پر چند خاندان قابض تھے اور کروڑوں انسان ان کے بے دام غلام تھے۔ یہاں کی منڈیوں میں محنت کشوں کے خون اور پسینے کے سستے سودے ہوتے تھے۔ آزادی کے پندرہ سال بعد تمام جدید معاشی وسائل 22 خاندانوں کے ہاتھوں میں سکڑ گئے۔ یہاں بیرونی قرضوں کے سبب صنعتی ترقی کے عمل کا ڈول ڈالا گیا تو وہ بھی چند خاندانوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اس پس ماندہ ملک کے 95 فی صد عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال کرہر وہ پالیسی اپنائی گئی اور ایسے قوانین مرتب کیے گئے، جن کا مقصد مٹھی بھر خاندانوں کوسارے ملک کی دولت پر سانپ بنا کر بٹھانا تھا۔ پاکستان کے تمام قوانین اور پالیسیاں چند خاندانوں کی خدمت کے لیے بنائی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند خاندان ملک کی 80 فی صد دولت پر قابض ہو گئے۔ اجارہ دار خاندانوں نے جاگیردار طبقے اور امریکی سامراج کے عملی تعاون سے پاکستانی عوام کا خوب خون چوسا اور ملکی دولت کو بیرونِ ملک منتقل کرتے رہے۔ سرمایہ داری نظام کی اس محفوظ ترین منڈی میں سرمایہ داروں نے دل کھول کر منافعے کمائے اور محنت کشوں پر ہر قسم کا ظلم و تشدد روا رکھا گیا۔آج تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ پیداواری وسائل پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔ اقتدار اور تعلیم انھیں چند گھرانوں کی ملکیت ہیں۔ 80 فی صد آبادی دیہاتوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ مزدور اور محنت کش روزگار سے محروم سارا سارا دن فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں۔
آج اس ملک کے حکمران، سیاسی لیڈرشپ بشمول مذہبی جماعتوں کے سربراہ اربوں پتی ہوچکے، جب کہ مزدور اپنی ناطاقتی کی وجہ سے جبری رضا مندی پر مجبور ہے۔ حضرت الامام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے ہاں ضرورت مند مزدور کی جبری رضامندی قابل اعتبار نہیں، بلکہ اس کی محنت کی پوری قیمت ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اس وقت ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کی زندگی کی ڈور اسی جبری رضا مندی سے بندھی ہوئی ہے۔
پتھر کوٹتی عورتیں، مانگتے ہاتھ اور کچرا چنتے بچے ہمارے نام نہاد جمہوری نظام کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ عوام اور مزدوروں کے نام پر حکومتیں حاصل کرنے والوں نے بھی ہمیشہ مزدوروں کا استحصال ہی کیا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ ہے، جس کے لیے یہ سارا اسٹیج سجایا جاتا ہے۔ جس کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آتی اور حسبِ معمول بے چارے عوام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر زورآور استحصالی طبقات کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔ چناں چہ عوام ایک جانب بری حکمرانی کی سزا بھگتتے ہیں اور دوسری جانب استحصالی طبقات کی عوام دشمن پالیسیوں کی زد میں آکر زندہ درگور ہوتے رہتے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن ذاتی مفاد کے لیے ہر محاذ پر متحد ہوجاتے ہیں اور عوامی حقوق کے اجتماعی منصوبے ان کے اختلافات کی بھینٹ چڑھ کر فنا ہوجاتے ہیں۔ آج حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے ووٹ بینک کے چرچے کررہی ہیں،اور ووٹ کو عزت دو کے سلوگن اپنائے ہوئے ہیں جب کہ عوام اس نام نہاد جمہوری نظام کے پیدا کردہ گھمبیر مسائل سے عاجز آکر جمہوریت سے ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ یہی وہ صورتِ حال ہے، جس میں پورے سیاسی نظام کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور پھر ہمارے ’’جمہوری سیاست دان‘‘ اس پر ٹسوے بہاتے ہوئے جمہوریت کے فضائل اور فوائد بیان کرتے ہیں، لیکن جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جمہوریت میں عوام کو کیا ملتا ہے۔
گزشتہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے پورے عرصۂ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایسا کوئی کریڈٹ ان کے کھاتے میں موجود نظر نہیں آرہا، جس کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں ان کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کی حمایت کی جاسکے۔ وفاق بشمول چاروں صوبائی حکومتوں نے عوام کے مسائل کے حل کے معاملے میں بے نیازی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا، بلکہ اپنی من مانیوں، اللے تللوں، اقربا پروری، میرٹ کے قتل عام، کرپشن کلچر کے فروغ، آئین و قانون سے سرکشی اور اپنی خراب حکمرانی کے نتیجے میں عوام کو منتخب جمہوری نظام سے بھی متنفر کردیا ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے حکمرانوں کو جمہوریت سے وابستہ فلاحی ریاست کے تصور کو پائیدار بنانے کے لیے اپنی تمام توجہ عوام کے روٹی، روزگار اور غربت و مہنگائی کے مسائل کے تدارک پر مرکوز کرنی چاہیے تھی اور بجلی، گیس کے بحران سے مستقل نجات دلانے کی کوئی ٹھوس، قابل عمل اور جامع پالیسی مرتب کرکے اسے اپنے دورِ اقتدار میں پایۂ تکمیل کو پہنچانا چاہیے تھا، مگر یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نہ صرف عوام کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ ملک میں بے روزگاری اور لاقانونیت کے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ انتخابی وعدوں کی صورت میں اب پھر وہ پاکستان کو ’’جنت‘‘ بنانے کے دعوے دار ہیں۔ اس وقت پے در پے قومی صنعتیں بند ہونے سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں، جو روزگار کے متبادل ذرائع دستیاب نہ ہونے کے باعث یا تو خودکشیوں پر مجبور ہیں یا جرائم کی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگر الیکشن کے بعد بھی یہی صورتِ حال برقرار رہی اور توانائی کے بحران کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تویہاں عوامی غیض و غضب کے سامنے بند باندھنا مشکل ہوجائے گا، جس میں ’’سلطانی جمہور‘‘ مستحکم ہونے کے بجائے اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گی۔ اس وقت جب کہ نئی اور پرانی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے لیے عوام کے پاس جانے کی تیاریاں کررہی ہیں، انھیں عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے بھی خود کو تیار رکھنا چاہیے اور عوام کو ووٹ کی طاقت کے فلسفے کو بھی سمجھنا چاہیے۔
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’اپنی طرز فکرمیں معاشی غلامی کے عہد‘‘ کو بھانپتے ہوئے مزدوروں کے معاشی حقوق کی آواز اٹھائی تھی اور امام عبید اللہ سندھیؒ نے فرمایا تھا: ’’ہم غریب اور مزدور کو وہ شعور دینا چاہتے ہیں، جس کے بعد کوئی سرمایہ دار اس کے ووٹ سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔‘‘ یہ عہد اُن نابغہ عصرولی اللّٰہی مفکرین کے انقلابی طرزِ فکر پر سوچ بچار کی از سرنو دعوتِ فکر دے رہاہے۔ آج نوجوان کو سوچنا چاہیے کہ اس قومی جمہوری عہد میں قومی انقلاب کی منزل تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے اور عوامی تائید و حمایت سے اپنے مؤقف کو بین الاقوامی سطح پر کیسے منوایا جاسکتا ہے۔ اس کا شعور حاصل کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔