یہ ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی سماج اور اس کی تعمیر وتشکیل میں محنت کش طبقوں کی غیر معمولی حیثیت ہے۔ کیوں کہ زندگی کی تمام تر رعنائیاں انھیں محنت کشوں کی رہینِ منت ہیں اور کاروبارِ حیات انھیں کے دم سے قائم ہے، لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں محنت کشوں کی حالتِ زار کس پستی کو چُھو رہی ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ سرمایہ دار طبقے کس طرح مزدور طبقوں کا استحصال کرتے ہیں اور اُن کی محنت سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں جاری استحصالی نظام کے کَل پُرزوں؛ سرمایہ دار، جاگیردار اور افسر شاہی کے مُٹھی بھر افراد کا گٹھ جوڑ اِن پسے ہوئے طبقات کو آکاس بیل کی طرح چوس رہا ہے۔
اب اس بات کو سمجھنا بھی کوئی مشکل امر نہیں رہا کہ نظام کی کلیدی آسامیوں سے لے کر تعلیم، فنی تربیت، اعلیٰ انتظامی عہدوں اور صنعت و حرفت کے دروازے محنت کش طبقوں کی اولادوں پر کیسے بند کردیے جاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کاروباری مواقع بھی اس درمیانی طبقے کی اولادوں کو مہیا کیے جاتے ہیں، جو ان کے اس ظالمانہ نظام میں شامل ہو کر لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن کر اپنی صلاحیتوں کو ان کی عیاشیوں کی نذر کردیتے ہیں۔ اس طرح سے پورا معاشرہ اس مہلک مرض کا شکار ہوجاتا ہے کہ معاشرے کے باصلاصیت نوجوان اس نظام سے قوم کو نجات دلانے کے بجائے بالادست طبقوں کے گماشتے اور محافظ بننے کی دوڑ میں شامل ہوکر غلامی در غلامی کے نظام کو جنم دے رہے ہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملک میں موجود مذہب اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں تو اس کھیل کا حصہ ہیں ہی، مزدوروں کے نام پر سیاست کرنے والے طبقے بھی سرمایہ پرستی کی اس کان میں جاکر نمک ہوتے جارہے ہیں۔ اب توحالت یہ ہے کہ مزدور تحریک نام کی عوامی قوت ہی ناپید ہوگئی ہے۔ محنت کشوں کے حقوق کی جگہ مغربی جمہوریت کے ’’انسانی حقوق‘‘ برانڈ نے لے لی ہے، جس کے باعث عوام انسانی حقوق کے نام پر دھوکا کھا کر اپنے ہی حقوق پامال کرنے والی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جس طرح اسلام اور جمہوریت کے نام پر لوٹاگیا ہے، اسی طرح ’’انقلاب اور مزدوروں‘‘ کے نام پر بھی دھوکا دیا گیا ہے۔ چناں چہ آج کل بھی سی پیک کی آمد کے بعد اقوامِ متحدہ اور عالمی سامراجی قوتوں کے تحت یہاں کی مزدور تحریکوں کو سامراجی چھتری تلے جمع کرنے کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہاں مزدور تحریکیں مخلص تھیں تو مذہب اور جمہوریت کے نام پر اتنے گہرے استحصالی عمل کے نتیجے میں مزدور تحریکیں یہاں کے مزدور طبقے میں شعور کیوں نہ پیدا کرسکیں؟ مزدور انجمنیں اپنے ارتقا کو کیوں نہ جاری رکھ سکیں؟ اب مزدور کاز سے مخلص طبقوں کو ان سوالات پر غور کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان میں محنت کش طبقوں کی صفوں میں چھپے استحصالی نظام کے گماشتوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔