اسلام نے انسان کے معاشی مسئلے کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔ کیوں کہ انسانیت کی ابدی اور دائمی رہنمائی کے اعزاز کے حامل دین کے لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ انسانی معاشرے کے اتنے اہم معاملے سے صَرفِ نظر کرلیتا۔ چناں چہ اس نے معاشیات سے متعلق ایسے اَساسی ضابطے، بنیادی اصول اور طرزِ فکر دیا، جس کی روشنی میں ہر عہد کے انسان معاشی جبر اور ناانصافی کے خلاف اپنے لیے معاشی مساوات، خوش حالی اور رفاہیتِ عامہ کا نظام قائم کرسکیں۔ جیسا کہ اس کا ثبوت سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ملتا ہے کہ جب آپؐ نے مکہ کے قبائلی معاشرے میں اس عہد کے مظلوم و مقہور اور معاشی جبر کے شکار انسانوں کی آزادی اور وقار کو بحال کیا۔ اسی طرح خلفائے راشدینؓ کے مابعد عہدِ نبوت بروئے کار لائے گئے معاشی اقدامات نے اس دور کی معاشی ناہمواریوں کا قلع قمع کرتے ہوئے عدل وانصاف پر مبنی معاشی نظام قائم کیا۔
آج کے دور میں انسان کے معاشی مسئلے نے خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔ اسی لیے آج کے دور کو معاشیات کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس جدید عہد میں جہاں معاشی وسائل کی تنظیم نے پیداواری عمل میں اضافہ کیا ہے، وہاں محنت کش طبقوں کا استحصال بھی دوچند ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں محنت وسرمائے کی کشمکش نے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب کسی بھی شعبے کی درُستگی کا انحصار معاشی شعبے کی درُستگی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنے فلسفے میں انسان کے معاشی مسئلے کو کلیدی حیثیت دی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج بہ شمول پاکستان بیش تر مسلمان ممالک بدترین معاشی استحصال کے سرمایہ دارانہ نظاموں کے زیرمنقار ہیں، جہاں کے عوام اپنے ہی ملک کے ’’شاہوں‘‘، ’’جمہوری آمروں‘‘ اور فرسودہ مذہبی طبقوں کے ظلم و ناانصافی کا شکار ہیں۔ وہاں کے فاقہ مست اور محنت کش طبقے زخمی احساسات اور مضطرب دلوں کے ساتھ کسی ایسی قیادت کا راستہ دیکھ رہے ہیں، جو انھیں اپنوں ہی کے ظلم سے نجات دلاسکے۔ لیکن عجیب ماجرا ہے کہ پاکستان میں نبی آخر الزماںؐ کے عشق کی دعوے دار مذہبی قیادتیں مزدوروں کے حقوق کی بات کرنے کے بجائے ایسی بحث وتکرار میں مصروف ہیں کہ جس کا فائدہ ملک میں قائم استحصالی نظاموں کو ہی پہنچ رہا ہے۔ ماضی کی نام نہاد فکرِ اسلامی کی دعوے دار جماعتیں جو مزدور اور کارخانہ داروں کی جنگ میں فیکٹریوں میں جاکر مزدوروں کو مذہبی حوالے سے خدا اور قسمت کی تقسیم پر راضی رہنے کے وعظ کہا کرتی تھیں، آج کی ساری مذہبی سیاست ان کی جیب کی گھڑی ہے، جب کہ ستر کی دہائی میں حریت پسند علما کی روایت سے جڑی دینی جماعتیں پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی جنگ میں اپنا وزن محنت کش طبقوں کے پلڑے میں ڈالا کرتی تھیں، لیکن آج ان جماعتوں کا رُخ موڑ کر معاشی آزادی کی جدوجہد کے بجائے فرقہ وارانہ مباحثوں اور سامراج کی طرف سے بچھائی گئی شطرنج کی بساط کی طرف موڑ دیا گیا ہے، تاکہ بہ وقتِ ضرورت مہروں کو اپنے مفاد کے مطابق استعمال کیا جاتا رہے۔