حضرت لقمان حکیم عرب کے ایک نیک اور دانشور انسان گزرے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی تھی ،وہ اپنے بیٹے (جسکا نام انعم تھا) کو سوسائٹی میں امن و امان سے رہنے کے لیے کچھ اصول سمجھاتے ہیں جس کو اپنا کر انسان سوسائٹی میں امن و آشتی سے رہ سکتا ہے اور سوسائٹی بھی ہر قسم کی انارکی سے بچ سکتی ہے۔ یہ اصول ایک طرف تو ہمیں خداپرستی کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف انہی اصولوں میں انسان دوستی کاسبق بھی موجود ہے۔
پہلااصول: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا (ہر قسم کے شرک و ظلم سے انکار
کسی سوسائٹی میں رہنے والے لوگ جب ایک ہی مرکز سے منسلک ہو ں تو ایسی سوسائٹی میں وحدت انسانیت کا عنصر پایا جاتا ہے اس کے برعکس اگر سوسائٹی مختلف خداؤں میں منقسم ہو تو ایسی سوسائٹی میں طبقات پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کو وحدت پر لانا بہت مشکل ہو جاتاہے، چنانچہ حضرت لقمان حکیم اپنے بیٹے کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنانا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے (کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دینا ۔ظلم کہلاتا ہے)۔
دوسرا اصول : والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک سے پیش آنا
سوسائٹی کا بنیادی نقطہ گھرسے شروع ہوتاہے ، اس لیے ضروری ہے کہ گھر میں نظم ونسق کا ماحول قائم ہو ۔ گھر کے افراد میں بنیادی اہمیت والدین کو حاصل ہےاور والدین میں بھی جس شخصیت کا حق فائق ہے وہ ماں ہے کیونکہ ماں بچے کو مختلف مراحل میں ، تکلیفیں برداشت کرکے تربیت دیتی ہے۔ تو ایسی ہستی کی عزت کرنا چاہیے اور ان کا حکم ماننا چاہیے مثلاً ان کی جسمانی خدمت یا مالی اخراجات وغیرہ میں کمی نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمام دنیوی معاملات میں اس کے ساتھ عام دستور کے مطابق معاملہ کرنا چاہیےاور ان کی بےادبی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کی بات کا جواب ایسے انداز سے نہیں دینا چاہیے جس سے ان کی دل آزاری ہو ۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ خالق یعنی اللہ کے ساتھ شرک کے معاملہ میں ان کی بھی بات نہیں ماننا چاہیے ۔ پہلے اصول میں خدا پرستی پر زور دیا گیا ہے جبکہ دوسرے اصول میں انسان دوستی کی بات کی گئی ہےلیکن دوسرے اصول میں یہ بات بھی سمجھائی گئی ہے کہ انسان دوستی کےلیے خدا پرستی پر ضر ب نہیں آنی چاہیئے بلکہ انسان دوستی خدا پرستی کا نتیجہ ہونا چاہیئے۔
تیسرا صول : جواب دہی سے آگاہی
لقمان حکیم اپنے بیٹے کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہی کا بھی ایک زبردست نظام موجود ہے۔ اس دن ذرہ برابر ظلم کا بھی حساب دینا ہوگا۔ چنانچہ اپنے بیٹے کو آخرت کی جو ابدہی کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیٹا اللہ تعالیٰ کے ہاں رائی کے دانے کے برابر گناہ یعنی ظلم کا حساب بھی دینا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ باریک بین ہے کوئی چیز کتنی بھی چھوٹی سے چھوٹی ہو جو عام نظروں میں نہ آسکتی ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنی ہی دور دراز پر ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنے ہی اندھیروں اور پردوں میں ہو اللہ تعالیٰ کے علم ونظر سے نہیں چھپ سکتی۔ غرضیکہ ہم دنیا کے کسی بھی میدان میں ہوں، تجارت کررہے ہوں، ملازمت کررہے ہوں، قوم وملت کی خدمت کر رہے ہوں، اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کے ایک ایک لمحہ سے پوری طرح واقف ہے اور ہمیں مرنے کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہوکر زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے کسی شخص پر ظلم کیا ہے یاکسی غریب کو ستایا ہے یا کسی کا حق مارا ہے تو ممکن ہے کہ ہم دنیا والوں سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اندھیر نہیں ہے اور ہمیں اس کا ضرور حساب دینا ہوگا۔۔ اس لیے سوسائٹی میں ہر قسم کے ظلم سے بچنا چاہیے۔
چوتھا اصول: تعلق مع اللہ کے لیے نماز قائم کرنا
اللہ تعالیٰ کےساتھ تعلق مضبوط کرنے کے لیے نماز کو پابندی سے قائم کرنا چاہئے جس کو معراج مومن کہتے ہے ۔ نماز کے نتیجے میں انسان کے اندر کچھ اچھے اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں وہ یہ کہ انسان ہمیشہ بھلائی کے کاموں میں مصروف ہوتا ہے اور منکرات (غلط کاموں ) سےبچتا رہتا ہے ۔ اور لوگوں کے لیے بھی ایسے معاشرے کے لیے کوشاں رہتا ہے جس میں ظلم کا عنصر نہ ہو اور عدل کا بول بالا ہو۔
پانچواں اصول: نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے منع کرنے کےلیے نظام قائم کرنا
حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ دوسروں کو بھی بھلائی کا حکم دے اور برائی سے منع کریں۔ لیکن اگر سوسائٹی میں ایسا نظام موجود نہ ہو جس کے ذریعےیہ کام ہوسکے تو انسان کو چاہیے کہ ایسے نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس جدوجہد میں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ۔ ان مشکلات میں صبر سے کام لیتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنا ، بہت عزمت والا کام ہے۔
عادلانہ نظام کو قائم کرنے کے لیے جماعت سازی کی ضروت ہوگی ، چنانچہ حضرت لقمان حکیم نے دعوت کے اصول بھی بتا دئیے کہ لوگوں سے گفتگو کرتے وقت ان کو مکمل توجہ دو اور منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو یعنی لوگوں کو حقیر سمجھ کر متکبروں کی طرح بات نہ کرو بلکہ خندہ پیشانی سے ملنا چاہیےاور دوران گفتگو آواز کو پست رکھو ، دوسروں پر دھونس جمانے اور انھیں ذلیل یا مرعوب کرنے کے لئے چلا کر بات نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب کوئی چلا چلا کر بولتا ہے تو بسا اوقات آواز میں بےڈھنگی اور بےسری پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر یہ بھی کوئی خوبی کی بات ہوتی تو یہ کام تو گدھے تم سے اچھا کرسکتے ہیں حالانکہ ان کی آواز سے سب نفرت کرتے ہیں ۔ سوسائٹی میں چلتے پھرتے وقت زمین پر اکڑ کر نہیں چلنا چاہیے بلکہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، نہ بہت دوڑ بھاگ کر چلو کہ وہ وقار کے خلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ چلنے میں بہت جلدی کرنا مومن کی رونق ضائع کر دیتا ہے۔ اور اس طرح چلنے میں خود اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو تکلیف بھی پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے، اور نہ بہت آہستہ چلو، جو یا تو ان تکبر اور تصنع کرنے والوں کی عادت ہے جو لوگوں پر اپنا امتیاز جتانا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
یہ حکیمانہ اقوال اللہ تعالیٰ نے اس لئے قرآن کریم میں نقل کئے ہیں تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ کی ان قیمتی نصیحتوں پر عمل کرکے ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل دیں ۔
نوٹ(یہ اصول قران کریم کے سورۃ لقمان ،آیت نمبر 12 تا 19 میں بیان کیے گئے ہیں)۔