”بیٹا یہ پرندے نہ جانے کہاں چلے گۓ ہیں؟“ کریم بابا نے اپنے جواں سال پوتے سالار سے پوچھا بابا کی آواز میں اداسی کا پہلو نمایاں تھا ۔” آجائیں گےبابا آپ کے پرندے بھی “۔سالار نئیں نسل کی آواز تھا ۔کٸ دنوں سے برتن میں مزید دانا ڈالنے کی نوبت نہیں آئِی“۔
کریم بابا کی نظر غلے سے لبریز برتن پر تھی ۔سامنے دو مٹی کے بڑے بڑے پیالے رکھے تھے ایک میں دانا تھا اور دوسرے میں پانی ۔” تو ٹھیک ہے نا بابا اس سال فصل بھی ان کی آفت سے محفوظ رہے گی اور دانا بھی “ ۔سالار کیاری میں دادا جی کے ہاتھوں لگے پھولوں کی پیاس بجھانے میں مگن تھا وہیں سے ہانک لگائی ۔”نہ بچے پرندوں کا یہاں سے چلے جانا نیک شگون نہیں ہے ۔جس جگہ آفت آنی ہوتی ہے وہاں سے پرندے پرواز کر جاتے ہیں “ ۔
بابا جی کے لہجے میں شفقت بھری سنجیدگی تھی ۔بابا کریم دین نے اپنی ریٹائیرڈ زندگی کو بوریت سے بچانے کے لۓ اپنی آباد ٢٠ ایکڑ زمین پر ١٥ سال پہلے ٹیوب ویل لگوایا تھا۔ پورا علاقہ زرخیز تھا لیکن یہاں تک پانی کی رسائی نہیں تھی آس پاس کے علاقوں کے لوگ اپنے مویشی یہیں چراتے تھے اس لۓ اپنے احاطے کے چاروں اطراف باڑ لگانے کے بعدمیں ایک کونے میں ایک چھوٹا سا جھونپڑی نما کچی مٹی کا کمرہ تھا اسی کمرے کے سامنے چھوٹا سا احاطہ کیاریوں سے مزین تھا جہاں سالار پائپ پکڑے پھولوں کو کافی دیر سےنہلارہاتھا ۔
اس پورے احاطے کی پاسبانی کمزور ٹہنیوں کو آپس میں ملاکر بناۓ گۓ دروازے پر تھی ۔بابا کریم دین کی یہ چھوٹی سی دنیا دو چھوٹے دریاٶں کے بیچ میں ذرہ بلندی پر آباد ہے ۔حکومت سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ ا ایک دریا میں سے ایک چھوٹی سی نہر یہاں سےبھی گزرتی ۔آس پاس بھی آٹھ دس کچے گھر تھے ۔اس زمین کا باقی ٹکڑا دو دریاٶں کے عین وسط میں ہو نے کی وجہ سے قدرتی اگنے والی گھاس کا قالین تھا۔ بابا کریم دین کی شکایت بجا بھی تھی کہ پچھلے سالوں میں یہاں شکاری آتے ہر طرح کے پرندوں کا شکار کر کے چلے جاتے پر مجال ہے کہ اگلے سال پرندوں کی تعدا د میں کمی واقع ہوتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ۔لیکن کچھ برسوں سے پرندے اپنی پسندیدہ جگہ پر آنے سے جانے کیوں گریزاں تھے۔
اگلے دن سالار نے دیکھا کہ بابا ہاتھ میں پنجرہ پکڑے اپنی سلطنت میں داخل ہو رہے ہیں ۔ ”بابا پنجرے میں کیا ہے “ سالار لان میںاپنے دوست کے ساتھ بیڈ منٹن کھیل رہا تھا کہ ہاتھ روک کر پوچھ لیا ۔دادا جی قریب آچکے تھے تو سالا راور اس کے دوست ذیشان نے دادا جی کو سلام کیا ۔دادا جی نے شفقت سے سلام کا جواب دیا۔” بیٹا یہ جگہ تو پرندوں کا مسکن ہے ۔جو آزاد تھے وہ اڑ گۓ کچھ کو انسان نے اپنے بچوں کو بہلانے کے لۓ پکڑ لیا ۔آج بازار سے کچھ پرندے لایا ہوں ان کی آواز کے بنا میری صبح صبحِ کاذب لگتی ہے“ ۔
” اچھا کیا بابا آپ کی تنہائی اچھی کٹے گی “۔ذیشان نے بابا کا دل رکھنے کے لۓ کھیلتے کھیلتے کہا ۔ ہاں بیٹا پر میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں وہ بات ہی نہیں ۔وہ مستی وہ چہک وہ چھیڑ چھاڑ حالانکہ ایک پنجرے میں بند ہیں اور پنجرہ بھی سب سے کھلا خریدہ ہے ان کے لۓ ۔ دو چار دنوں میں مانوس ہو جائیں گے کیوں فکر کرتے ہو بابا“۔ سالار ہر حال میں اپنے دادا کو خوش دیکھنا چاہتا تھا ۔”اللہ کرے ایسا ہی ہو “دادا نے اک امید سے کہا۔
اگلی صبح جب بابا جی پرندوں کا دانہ پانی دیکھنے گۓ تو آٹھ میں سے ایک چھوٹا پرندہ مرا پڑا تھا حیرت کی بات یہ تھی کہ باقی پرندے اپنے پروں میں سر دیۓ شاید سورہے تھے ۔بابا جی کو صدمہ تولگا ۔پنجرے کا دروازہ کھول کر مرے ہوۓ پرندے کو باہر نکال کے ٹٹولا لیکن کسی زخم کا نشان کہیں بھی نہ ملا ۔بابا جی نے مرے ہوۓ پرندے کو اپنی جھونپڑ ی کی چھت پہ پھینک دیا۔سورج نمودار ہوا تو دو پرندے چہکتے ہو ۓ پاۓ گۓ دادا جی کے غم میں تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ۔قریب جاکے عجیب عجیب آوازوں سے دادا جی پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے البتہ پرندوں کی ساری توجہ پنجرے کی تاروں پر تھی کبھی چونچ مارتے تو کبھی سر ٹکراتے ۔لگتا ہےحال میں ہی صیاد کے دام میں آۓ تھے ۔۔کیونکہ دانہ ہی سب سے بڑا دام ہے ۔بابا کریم دین کھو سے گۓ پہلے تو پرندے آتے ان کی چارپائی پر بیٹھ کران کی تلی میں چونچ مارتے , کبھی ہاتھ میں پکڑا دانا چگتے تو کبھی زیادہ اپنائیت جتانے کے لۓ سر پہ بیٹھ جا تے ۔بہت انس تھا با با کریم دین کو پرندوں کے ساتھ ۔
با با کریم دین کو حیرت اس بات پہ تھی کہ یہ بھی تو وہی پرندے ہیں لیکن ان کی آنکھوں میں شرارت کی چمک کی جگہ ایک انجانے خوف نے لےلی ہے ایسے پنجرے میں دانہ ڈالو تو اڑ جاتے ہیں اورپنجرے سے کئی بار ٹکراتے ہیں تب کہیں جا کر ڈرے سہمے انداز میں پنجرے میں پڑا دانہ کھاتے ہیں ایک دانہ کھاکے بدک جاتے ہیں اور پھر احتیاط سے دوسرا دانہ اٹھاتے ہیں حالانکہ دانہ بھی وہی ہے اور پرندوں کی ذات بھی وہی ہے۔ایک ہفتے بعد تین چھوٹے پرندے بھی مر گۓ ۔بابا جی کے لۓ یہ بات تشویشناک تھی کیونکہ گزشتہ پندرہ سال بابا جی کےپرندوں کی سنگت میں گزرے تھے اور اب صرف چار پرندے بچے تھے اور وہ بھی کچھ پژمردہ سے تھے۔شاید چھوٹے پرندوں کی روح ذرہ ذیادہ آزاد اور زیادہ چھوٹی تھی تو جلدی چھوٹ گۓ ۔بابا جی یہ سب سوچ ہی رہے تھے کہ سامنے کے درخت پہ انہوں نے ایک گدھ کو بیٹھتے ہو ۓ دیکھ لیا ۔بڑی ڈراٶنی شکل کا گدھ جس کےپروں کے علاوہ کہیں پر بھی بال نہ تھے۔اس کے وزن سے وہ ٹہنی ہل رہی تھی جس پہ وہ بیٹھا تھا ۔اس کی چونچ خون آلود تھی ۔پرندے پنجرے میں پھڑ پھڑ انے لگے ۔بابا نےاس علاقے میں گدھ کو پہلی بابار دیکھا ۔پہلے پہلے تو توجہ نہیں کی لیکن پرندوں کے شور نےبا باجی کو گدھ کو وہاں سےبھگانے پہ مجبور کیا ۔
دو دن امن سے گزرے ۔اب شاید پرندے بھی پنجرے سے کسی قدر مانوس ہو گۓ تھے ۔پھول مہکنے لگے تھے ۔کیاریاں سج گئیں تھیں ۔ایک دن سالار شام کے وقت پڑھا ئی کی تمام تر مصروفیات کے بعد اپنے بابا سے ملنے چلا آیا ۔بابا جی عصر کی نماز پڑھ رہے تھے ۔سالار نے دیکھا کہ ہر بڑے درخت پر ایک گدھ بیٹھا ہے اور ہر ایک اپنے پنجے تیز کر رہا ہے ۔بابا جی نے سلام پھیرا تو سالار نے سلام کرنے سے پہلے ہی دادا جی کی توجہ پیڑوں کی طرف دلائی”دادا جی اتنے سارے گدھ تو میں یہاں پہلی بار دیکھ رہا ہوں اللہ معاف کرے کتنا خوفناک جانور نما پرندہ ہے “ سالار نے ایک ہی سانس میں کہ ڈالا ۔” بیٹا ان بچے ہوۓ پرندوں کو دیکھو سہمے ہوۓ ایک کونے میں بیٹھے ہیں بنا آواز کے“ ۔ بابا جی کی آواز میں ایک گھمبیر تشویش تھی ۔” جی بابا آپ نے کہا بھی تھا کہ جس جگہ کوئی آفت آنی ہوتی ہے پرندے وہاں سےچلے جاتےہیں ۔ان کو تو ہم پکڑ کے اور خرید کے لاۓ ہیں“ ۔سالار نے سر ہلاتے ہوۓ اپنے دادا کی کہی ہوئی بات دہرائی۔”بابا جی لیکن یہ گدھ آۓ کہاں سے ہیں پہلے تو یہاں میں نے کبھی کسی گدھ کو نہیں دیکھا “۔ سالار نے سوال کیا ۔”بیٹا لگتا ہے کہ دونوں دریاٶں کے اس پار لہو اور گوشت سستا ہو گیا ہے اسی لۓ اتنی بڑی تعداد میں شاید ساری دنیا کے گدھ یہیں منڈلارہے ہیں“ ۔” جی بابا جسامت تو دیکھۓ ان کی میں نے تو نیشنل جیو گرافک پہ بھی اتنے بڑے گدھ نہیں دیکھے کہ درخت جھکادیں“ ۔
” السلام علیکم ! یارو ں کی خیر ہو “ بابا کریم دین کے بچپن کے دوست جن کو سب آغا جان بلاتے تھے دونوں نے ایک ہی محلے سے ہائی سکول پاس کیاتھا دونوں کی اس عمر میں بھی اچھی چنتی تھی ۔” بابا کریم دین نے اخبار سے مسکراتی نظر اٹھائی اور اٹھ کے بانہیں پھیلادیں ۔دنوں بغل گیر ہوۓ ۔سلام دعا کے بعد آغا جی نے میز پہ پڑے اخبار پہ نظرڈالی جس کی سرخی لال تھی ۔” تو کیا خبریں ہیں جناب ؟“ بابا جی نے آغا جی سے استفسار کیا ۔” پوچھو مت یار وہ شعر ہے نا کہ ۔
حالِ بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہر بانی کی
جنگ دونوں دریاٶں کے پار بسنے والوں میں برپا ہے اور ختم ہونے کو نہیں آرہی“ ۔آغا جان نےافسردگی سے بتایا ۔” ہاں یار سنا تو میں نے بھی ہے آۓ دن لاشیں گرتی ہیں مختلف بہانوں سے“ ۔ دونوں دوستوں نے چاۓ پی اور پھر آغاجان رخصت ہو گۓ ۔ سالار دور سے بھاگتا ہوا آرہا تھا ۔ باباجی کی نظر پڑی تو وہ بھی اس تک پوچھنےکےلیے پھاٹک تک چلے آۓ ۔” کیا بات ہے بیٹا سالار مجھے بتاٶ“۔ ””بابا جانی وہ وہ دریا کے کنارے بیسیوں مویشی مردہ حالت میں پڑے ہیں جن میں ہماری ایک گاۓ اور دو بکریاں بھی ہیں“۔سالار کی سانس پھولی ہوئی تھی لیکن صدمے میں تھا تو تواتر سے کہ گیا۔” اوہ میرے خدایا “باباجی سر پکڑ کر بیٹھ گۓ ۔” یہ سب کیسے ہو سکتا ہے “ باباجی کا سوال خود سے تھا ۔” دادا جی لگتا ہے سب کو سانپوں نے کاٹا ہے “ ۔سالار نے ایک امکانی بات کی ۔” نہیں بیٹا اس علاقے میں سانپ اکا دکا ہی دیکھا گیا ہے اس لۓ یہ سانپ کا کیا دھرا ہر گز نہیں“ ۔بابا جی نے اپنا تجربہ بیان کیا ۔اتنے میں آغاجان بھی پہنچ گۓ ۔سلام کے فورا بعد مین مدعےپہ آۓ اور اطلاع دی کہ دریا میں ایسا کیمیکل ملایاگیا تھا جو پودوں کے لۓ مفید اور دوسرے جانداروں کے لۓ مضر تھا ۔دریا کے اس پار کی گورنمنٹ کا دعوی ہے کہ پیشگی اطلاع کردی گئی تھی“ ۔
آغا جان نے جیسے بم پھوڑ دیا ۔” اطلاع اس بات کی اطلاع کہ جس پانی سے ہمارے مویشی زندہ اور صحت مند تھے وہ اب زہر ہے ۔ارے جانور ہی نہیں رہیں گے تو فصلیں کس کام کی“ ۔ دونوں دریاٶں کے بیچ کے سارا علاقے میں گدھ ہی گدھ تھے ۔پورا علاقہ تعفن زدہ بدبو کی لپیٹ میں تھا ۔ایک ہفتے میں اتنے مویشی مر گۓ تھے کہ وہ سرسبز و شاداب علاقہ جن سے یہ صحت مند اور تنومند تھے آج ان کا قبرستان بن گیا تھا وہ بھی زمین کے اوپر ۔کیونکہ اب دوسرے دریا کے پار کےلوگوں نے بھی اپنے دریا میں زہر ملادیا تھا ۔پھر ایک دن ایک دریا کے پار سے ایک گولہ آیا جس سے پورے علاقے میں بہت بڑا شگاف پڑ گیا ۔اتنا بڑا کہ دونوں دریاٶں کا پانی زہر سمیت ایک دوسرے میں مل گیا ۔ایک دن بابا کریم دین نماز سے فارغ ہو ۓ تو اللہ تعالی سے رحم کی دعا کی نماز سے اٹھے اورپریشر پمپ کا تازہ پانی خود بھی پیا اور پرندوں کے خالی برتن میں بھی ڈال دیا۔
آغا جان صبح کی نماز کے لۓ بابا کرم دین کو جگانے آۓ ۔با با جی کمبل میں لپٹے ہوۓ تھے ۔کئی آوازوں پہ بھی نہیں جاگے تو آغا جی نے انہیں ہلایا ,جلایا۔اچانک سے آغا جی کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوند گیا اور با باجی کی نبض پر ہاتھ رکھا تو وہ ساکت تھی۔آغا جی گھر کی طرف بھاگے ۔سالار کو ڈاکٹر کے پاس بھیجا ۔معاٸنہ کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کو زہر دیا گیا ہے ۔” مگر ڈاکٹر صاحب ان کی تو ساری زندگی شرافت اور سفید پوشی میں گزری ہے ۔نوکری بھی ایمانداری اور جان فشانی سے کی ہے“ ۔ آغا جان اپنے دوست سے خوب واقف تھے۔یہ سن کر ڈاکٹر صاحب سوچ میں پڑ گۓ ۔اتنے میں ارسلان ہانپتا ہوا آیا اور اطلاع دی کہ پنجرے میں موجود چاروں پرندے مردہ حالت میں ہیں ۔ڈاکٹر کے ماتھے پہ ایک شکن ابھر کر غایب ہوگٸ ۔” مجھے یہاں کے پانی کی جانچ کرنی ہے “ ۔سالار نے بتایا” سر پانی تو اسی ٹیوب ویل کا استعمال ہوتا ہے پینے کے لۓ بھی اور فصل کے لۓ بھی “۔ ڈاکٹر نے کہا اس بوتل میں اس پریشرپمپ کا تازہ پانی بھر کے دو میں لیب میں دیکھتا ہوں کہ اس پانی میں ہے کیا “۔ ڈاکٹر صاحب یہ کہ کر اور پانی بھر کر چلے گۓ ۔
اس کے بعد کئی اور حادثے سالوں تک رونما ہوتے رہیں پھر فریقین میں یہ سمجھوتہ ہو گیا کہ پانی میں زہر کی ملاوٹ محدود کی جاۓ ۔اس کے بعد کئی سال چین نے بانسری بجائی ۔ٹھیک بائیس سال بعد ساتھ سمندر پار ایک حادثہ رونما ہوا جس نے ساری دنیا پر اپنا اثر ڈالا ۔ہوا یوں کہ اونچے اونچے شاداب پیڑوں کی ایک بستی میں کچھ سرکشوں نے بڑے بڑے کلہاڑوں سےاس بستی کے دوسب سے بڑے پیڑ گرادیۓ ۔ان پیڑوں کا مالک جو ایک سفید برفیلے گھر میں رہتا تھااس کا یہ خیال تھا کہ وہاں سے ساتھ سمندر پار ہمارے پڑوس کی وہ بستی جن کے لوگ ہماری بستی میں برسوں سے پناہ گزین ہیں وہ وہاں گۓ اور مارکیٹ سے وہ نایاب کلہاڑ ے خریدے جن سے اتنے تناور درخت گراۓ جا سکیں جن میں ہزاروں پرندوں کے گھونسلے تھے ۔سب سےاونچی شاخ پہ کچھ گدھ بھی براجمان تھے لیکن اس دن گدھ برادری غایب تھی جس دن یہ دونوں پیڑ زمیں دوس ہوۓ ۔ تو انہی کچھ کچھ گدھوں کی مشاورت ہی دراصل اتنے لاچار خطے پر الزام لگانے کا سبب بھی تھا۔پھر تو ساتھ سمندر پار سے ایسے کھلونے آۓ کہ آن کی آن وہ آگ برسائی کہ بستیاں جھلس گئیں اورسارے اونچے پیڑ بھی جل گۓ۔ تب کا پانی زہر تھا جو رگوں میں اتارا گیا تھا یہ آگ ہے جس نےکسی کو نہیں چھوڑا سواۓ پانی کے ۔
٢٠١٨ کا موسم بہار ہے اب سالار خود بابا جی ہے اور اپنی ریٹاٸرڈ زندگی کے لۓ اس نے اپنے با با کی دنیا کو گزشتہ کچھ سالوں سے پھرسے آباد کیا ہے ۔اس کا پوتا اذان کیاریوں میں کھلنے والے بہار نو کی کونپلوں کو سیراب کر رہا ہے ۔”اذان بیٹا پرندوں کا دانہ ختم ہو گیا ہے “ ۔سالار نے اپنے پوتے کو اطلاع دی ۔” تین دن پہلے تو لایا تھا بابا “ ۔ اذان کو حیرت ہوئی۔” بیٹا پرندوں کی آمد مبارک ہے جہاں سے یہ اڑ جاتے ہیں وہاں سے سب کچھ اڑ جاتا ہے ۔اور یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا “ ۔سالار نے باقاعدہ آذان کے جوان کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں کہا ۔” بابا جانی میں یوں گیا اور یوں واپس بھی آگیا دانے کے ساتھ ۔اس وقت ہر درخت کی ہر ٹہنی پہ ایک پرندہ ہے ۔سارے رنگ اور سب آوازیں پیاری ہیں ۔کبھی کبھی آسمان پہ اک گدھ اڑتا دکھائی دیتا ہے تو سارے پرندےشور کرکے اسے بھگادیتے ہیں ۔اذان کے کندھے پہ دانے کی بور ی تھی اس لۓ سارے پررندے اس کی طرف لپکے اور کچھ تو اس کےہاتھوں ,کندھوں اور سر کے اوپر بیٹھ گۓ ۔اتنے رنگوں کےاحاطے میں اذان ایک بڑی تتلی لگ رہا تھا ۔